مختلف ممالک میں ماہِ رمضان کی منفرد روایات

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس ماہِ مبارک کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہیں- پاکستان سمیت دنیا بھر میں سحری و افطاری پر کچھ خاص روایات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے جن کا بظاہر مذہب سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔کچھ عرصہ قبل تک پاکستان میں سحری کے وقت ڈھولچی روزہ داروں کو جگانے کا اہتمام کیا کرتے، لیکن رفتہ رفتہ یہ روایت ماند پڑنے لگی۔ اس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں آنے والی جدت تھی۔ لوگوں نے الارم کلاک، ٹی وی اور دوسرے ذرائع پر انحصار کرنا شروع کر دیا، لیکن اس کے باوجود دور و دراز کے دیہات میں ڈھولچی کا تصور عام ہے۔ علاوہ ازیں مختلف مساجد سے سائرن کی آواز سنائی دیتی ہے جو درحقیقت اس رمضان توپ کا متبادل ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں اب بھی مقبول ہے۔ یہ سائرن علاقے کی مسجد میں موجود کوئی بھی شخص بجا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سحری و افطاری کے وقت آپ کو ہر طرف سے سائرن بجنے کی آواز سنائی دے گی۔دلچسپ اَمر یہ ہے کہ دنیا کے مختلف مسلمان ممالک میں رمضان المبارک کی روایات خاصی حد تک ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں۔ آئیے دنیا میگزین کی شائع کردہ ایک رپورٹ پر نظر ڈالتے ہوئے اور جانتے ہیں کہ ماہِ رمضان کے دوران کہاں پر کیا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ کیا خاص روایات ہیں جن پر عمل کرنا لازم تصور کیا جاتا ہے؟
 

مصر٬ فانوس:
مصر میں رمضان المبارک کے دوران بچے چمکتے ہوئے فانوس (لالٹین) اٹھا کر گلیوں کے چکر لگاتے ہیں، یہ روایت ایک ہزار برس سے زائد پرانی ہے۔کہا جاتا ہے کہ 969ء میں اہلِ مصرنے قاہرہ میں خلیفہ معزالدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا جس کے بعد سے رمضان المبارک کے دوران فانوس جلانے کی روایت کا آغاز ہوا اور ماہِ رمضان کے دوران مصر میں فانوس یا لالٹین روشن کرنا روایت کا حصہ بن گیا۔ اس وقت یہ روایت معدوم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور کہا جارہا ہے کہ آنے والے برسوں میں شاید اس کا تذکرہ کتابوں میں ہی پڑھنے کو ملے۔

image


مصر٬ رمضان توپ:
ایک جرمن ملاقاتی نے مملوک سلطان الظہیر سیف الدین کو ایک توپ تحفتاً پیش کی ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مملوک سلطان کے سپاہیوں نے یہ توپ شام کے وقت چلائی، رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور اتفاق سے افطاری کا وقت تھا۔ شہریوں نے یہ تصور کیا کہ یہ ان کو افطار کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے ہے جس پر انہوں نے روزہ کھول لیا۔ جب سلطان کے حواریوں کو یہ ادراک ہوا کہ رمضان المبارک کے دوران سحری و افطاری کے وقت توپ چلانے سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے تو ان کو یہ روایت جاری رکھنے کا مشورہ دیا گیا۔ آنے والے برسوں کے دوران اس نے خاصی مقبولیت حاصل کرلی اور دنیا کے مختلف مسلمان ملکوں نے بھی اسے اختیار کرلیا۔ کہتے ہیں کہ سلطان کے حواریوں نے یہ تجویز ملکہ فاطمہ کو پیش کی کیوں کہ شاہِ مصر ملک سے باہر تھے، چناں چہ اس توپ کا نام ملکہ سے منسوب کر دیا گیا۔

image


مختلف ممالک اور مساہراتی ( منادی کرنے والا):
مصر میں سحری کے وقت دیہاتوں اور شہروں میں ایک شخص لالٹین تھامے ہر گھر کے سامنے کھڑا ہوکر اس کے رہائشی کا نام پکارتا ہے یا پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑا ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمد پڑھتا ہے۔ اگرچہ اسے کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی لیکن ماہِ رمضان کے اختتام پر لوگ مختلف تحائف دیتے ہیں۔ یہ روایت صرف مصر سے مخصوص نہیں اور اسلام کے ابتدائی دور سے ہی مروج ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی حضرت بلال حبشیؓ تھے جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلالؒ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اہلِ ایمان کو سحری کے لیے بیدار کریں۔ بغداد میں عباسی خلیفہ النصیر کے عہد میں مساہراتی کا تصوردرست معنوں میں تشکیل پایا۔ انہوں نے ابو نوقاتہ نام کے ایک شخص پر خود کو اور شہریوں کو بیدار کرنے کی ذمہ داری لگائی۔ مکہ المکرمہ میں مساہراتی کو زمزمی کہتے ہیں ۔ وہ فانوس اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں کے چکر لگاتا ہے تاکہ اگر کوئی شخص آواز سے بیدار نہیں ہوتا تو وہ روشنی سے جاگ جائے۔ سوڈان میں مساہراتی گلیوں کے چکر لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک بچہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام افراد کی فہرست ہوتی ہے جن کو سحری کے لیے آواز دے کر اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔ رمضان کے اختتام پر اسے ہر گھر سے کچھ نہ کچھ روپے مل جاتے ہیں۔ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ مساہراتی نسل در نسل یہ کام سرانجام دیتے ہیں، چناں چہ ان کا حافظہ قابلِ داد ہوتا ہے اور وہ علاقہ کے ہر شخص کے نام سے آگاہ ہوتے ہیں۔ مساہراتی اپنا ڈرم خود بناتے ہیں اور اسے بنانے کا طریقہ صرف ان کو ہی معلوم ہے۔ اس ڈرم کی خوبی یہ ہے کہ اس کی گونج دور تک سنائی دیتی ہے۔

image


سعودی عرب:
مکہ المکرمہ اور ملک کے دوسرے شہروں میں رمضان المبارک کے دوران خاصا جوش و خروش دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسی بہت سی روایات ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں یا ان پر دوسری ثقافتوں کا گہرا اثر ہے۔ لوگ گھروں پر فانوس یا بلب لگاتے ہیں، دکانوں پر بھی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ رمضان المبارک کا جوش و ولولہ نظر آئے۔ مصر کی طرح سعودی عرب میں بھی سحری کے وقت توپ چلائی جاتی ہے۔ اسی طرح زمزمی (مساہراتی) روزہ داروں کو جگانے کے لیے پورا ماہ رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ افطاری سے سحری تک ریستوران کھلے رہتے ہیں، تاکہ لوگوں کو روزہ رکھنے یا کھولنے میں دشواری نہ ہو۔

image


برونائی :
برونائی میں افطار کے وقت مقامی مساجد میں اہلِ علاقہ یا حکومت کی جانب سے بوفے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ افطار کے وقت بیدوگ ( ایک طرح کا ڈرم) بجایا جاتا ہے جب کہ دارالحکومت بندر سری بیگوان میں توپ چلائی جاتی ہے۔

image


ایران:
ایران میں افطاری کچھ مخصوص اشیا سے کی جاتی ہے جن میں چائے، نون ( ایک خاص طرح کی روٹی)، پنیر، مختلف قسم کی مٹھائیاں، کھجور اور حلوہ شامل ہے۔ عام طور پر خاندان کے افراد مل کر روزہ کھولتے ہیں۔ وہ بچے جن پر روزہ فرض نہیں ہوتا، اور وہ روزہ رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں تو وہ مقامی زبان میں’’ کلہ گنجشکی‘‘ رکھتے ہیں جس کا لغوی معنی ’’چڑیا کا سر‘‘ ہے ،وہ ظہر کی نماز کے وقت تک کچھ کھاتے یا پیتے نہیں ہیں اور اس کے بعد روزہ کھول لیتے ہیں اور دوسرا روزہ رکھتے ہیں جو غروبِ آفتاب تک جاری رہتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں بھی بچے ’’ چڑی روزہ‘‘ رکھتے ہیں۔

image


ملائشیا:
ملائشیا میں زیادہ تر روزہ دار نمازِ تراویح کے بعد رات کے کھانے مورے سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن میں روایتی پکوان اور گرم چائے شامل ہوتی ہے۔سحری کا انتظام خاندان کے افراد مل کر کرتے ہیں ۔ ملائشیا میں رمضان کے دوران رات کے وقت بھی مارکیٹ کھلی رہتی ہے جو اہلِ ملائشیا میں خاصی مقبول ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران پوری قوم تسبیح کے دانوں کی طرح مالا میں پروئی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ غیر معمولی نہیں ہے کہ آپ سحری کے وقت مالے پکوان سے لطف اندوز ہوں۔ رات میں چائنز ڈنر کریں یا ہندوستانی کھانوں سے لطف اندوز ہوں۔ اس مخلوط ثقافت کا اثر ہمسایہ ممالک سنگاپور، انڈونیشیا اور برونائی میں بھی نظر آتا ہے ۔

image


متحدہ عرب امارات امارات:
متحدہ عرب امارات امارات میں رمضان المبارک کے دوران کام کے اوقات کار کم کر دیئے جاتے ہیں۔ رمضان خیموں کی تنصیب عمل میں آتی ہے جہاں پر مختلف قومیتوں کے لوگ روزہ افطار کرتے ہیں۔ شاپنگ مال رات دیر تک کھلے رہتے ہیں تاکہ لوگوں کو عید کی خریداری کرنے میں دشواری نہ ہو۔ اسی طرح رات بھر رمضان مارکیٹ کھلی رہتی ہے۔

image


ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو
ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو میں اگرچہ مسلمانوں کی آبادی صرف چھ فی صد ہے لیکن اس کے باوجود رمضان المبارک میں خاص جوش و جذبہ دیکھنے میں آتا ہے اور مساجد میں افطار کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ مختلف خاندان مساجد، کمیونٹی سنٹرز یا مساجد میں روزہ افطار کروانے کا اہتمام کرتے ہیں اور تقریباً ہر خاندان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے دوران ایک بار روزہ ضرور افطار کروائے۔

image

ترکی:
ترکی میں رمضان المبارک کی روایات کا تعلق سلطنت عثمانیہ کے عہد سے ہے۔ افطار کے وقت مساجد کی بتیاں روشن کر دی جاتی ہیں جو صبح سحری تک روشن رہتی ہیں۔ مختلف شہروں کی بلند ترین پہاڑی سے مقررہ وقت پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے جو روزہ کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔ ترکی میں دوسرے ممالک کی طرح رمضان کے دوران ریستورانوں یا ہوٹلوں کی بندش کا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی پابندی ہے کہ آپ رمضان کے دوران عوامی مقامات پر کچھ کھا پی نہیں سکتے۔ ترکی میں بھی مساہراتی رمضان المبارک کے دوران رضاکارانہ طور پر روزہ داروں کو جگاتے ہیں لیکن اب یہ روایت ماند پڑتی ہوئی نظر آتی ہے کیوں کہ بہت سے لوگ اسے شور کی آلودگی سے منسوب کرتے ہیں۔

image

روس:
روس میں رمضان عام طور پر مسلم اکثریتی ریاستوں داغستان، چیچنیا اور دیگر علاقوں میں منایا جاتا ہے۔ ماسکو میں یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ ملک کی مفتی کونسل کی جانب سے ماسکو میں اجتماعی افطار کے لیے رمضان ٹینٹ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض عرب ممالک کی طرح روس میں بھی کچھ جگہوں پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے۔

image

مراکش:
مراکش میں ایک شخص نیفار بگل بجا کر رمضان کے آغاز اور اختتام کا اعلان کرتا ہے، یہ روایت ملک کے بڑے شہروں میں تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ سحری کے اوقات میں ڈرم بجا کر لوگوں کو جگانے کی روایت قائم ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اٹھ کر سحری کی تیاری کرسکیں۔ رحمتوں اور برکتوں سے عبارت ماہِ رمضان کے اختتام پر عیدالفطر کا تہوار دنیا بھر کے مسلمانوں کے چہروں پر خوشی بکھیر دیتا ہے جو ان کی عبادت کا ثمر ہوتی ہے۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

The Ramadan celebrations have officially begun, and Muslims all over the world are joining in the festivities. Though some specific practices may differ from country to country, and there was widespread disagreement about the start date of Ramadan, the global community is united in its observance of the holy month.