حضرت سلطان باھو اور حقیقتَ انسان

 تمام عارفین اور فقراء کی طرح حضرت سخی سلطان باھوؒ بھی انسان کو اپنے من میں جھانکنے اور اپنی ذات پر غور کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ چونکہ صوفیاء کرام میں عظیم مرتبہ کے حامل اور سلطان الفقر کے مرتبہ پر فائز ہیں اس لئے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا انداز بھی سب سے منفرد اور جداگانہ ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی تمام تر تعلیمات خواہ نثر کی شکل میں ہوں یا شاعری کی شکل میں قرآن وحدیث کی خوبصورت شرح ہیں۔ آپؒ قرآن پاک کی اس آیت کہ' اﷲ شہ رگ سے نزدیک ہے ،کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ اس ہستی کی تلاش کے لئے پہلے اپنے اندررسائی ضروری ہے۔ اپنے باطن کے اندر اﷲ پاک کی موجودگی پرزور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے لئے لفظ نزدیک کا استعمال بھی موزوں نہیں ہے کیونکہ یہ لفظ بھی علیحدگی اور دوئی کا مظہر ہے بلکہ وہ ہی تو ہماری ہستی ہماری حقیقت ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قرب حق نزدیک من حبل الورید
تو جمالش رانہ بینی بے نظیر
ترجمہ: اﷲ پاک کی ذات شہ رگ سے بھی قریب ہے مگر تو اندھا ہے اور لقائے خدا تیرا مقدر نہیں ہے۔(دیوانِ باھُو)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ‘‘ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ‘‘ کی شرح میں فرماتے ہیں: جان لے کہ نفسِ امارہ کی قوت وغذا گناہ و معصیت ہے ،بلکہ یوں کہیے کہ نفسِ امارہ کا تو پیشہ ہی گناہ و معصیت ہے۔ اگر آدمی رات دِن نماز و روزہ جیسی طاعت و بندگی میں مشغول رہے اور ہمیشہ قائم اللّیل و صائم الدہر رہے تو اِس کے باوجود بھی نفسِ امارہ گناہ سے باز نہیں آتا کہ اُس کی تو خصلت ہی گمراہی ہے۔ آدمی چاہے رات دِن مسائلِ فقہ کے مطالعہ میں مشغول رہے یا ریاضتِ تقویٰ و تلاوتِ قرآن اور نص و حدیث کے مطالعہ میں مصروف رہے نفسِ امارہ گناہوں سے باز نہیں آتا کہ اُس کا یار انہ نفس و شیاطین سے ہے۔آدمی چاہے خانہ کعبہ کا طواف و حج کرتا رہے یا میدانِ جنگ میں جہاد و قتال کرتا رہے یا ذکر فکر مراقبہ محاسبہ مکاشفہ کشف القلوب و کشف القبور کے مراتب حاصل کرکے غوث و قطب بن جائے نفسِ امارہ گناہوں سے باز نہیں آتا بلکہ ہر وقت گناہوں کی طرف مائل رہتا ہے کہ اُس کی نظر ہمیشہ مردارِ گناہ پر لگی رہتی ہے ۔لیکن جب تصورِ اسمِ اللہ ذات سے اُس کے دِل میں قرب و وصالِ الٰہی کی تجلّیات کا شعلہ بھڑکتا ہے تو وہ وحدانیتِ نُور حضور کے دریا میں غرق ہو کر عارف باللہ فنا فی اللہ کے انتہائی مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اِس مقام پر نفسِ امارہ عاجز ہو کر گناہوں سے رک جاتا ہے اور اُسے قدرتِ الٰہی کی طرف سے بے کام و بے زبان الہامات کے ذریعے حکم ہوتا ہے کہ''اے نفسِ امارہ ! حیا کر اور باادب ہو جا۔ ''قدرتِ الٰہی کے اِن الہامات کو سن کر نفسِ امارہ تائب ہو جاتا ہے اور مسلمان ہو کر صحیح اقرار و قلبی تصدیق کے ساتھ کلمہ طیب ‘‘ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ‘‘ پڑھ لیتا ہے اور گناہوں سے توبہ کرکے نفسِ مطۂنہ بن جاتا ہے۔ پھر وہ طلبِ راستی میں دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبول کرکے منتہی ولی اللہ بن جاتا ہے۔ معرفتِ الٰہی کے اس انتہائی مقام پر جب وہ ‘‘ من عرف نفسہ ‘‘ کا مصداق بن کر اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے تو اُسے اپنے ربّ کی پہچان اس علامت سے ہو جاتی ہے کہ اُس کے نفس پر الہاماتِ ربانی کا نزول شروع ہو جاتا ہے کیونکہ مقامِ معرفت پر پہنچ کر نفس میں کوئی نفسانی و شیطانی باقی نہیں رہتی ۔ اس کے بعد اگر تمام حورو قصور ،نعمت ہائے بہشت و تمام زینتِ دنیا نفس کے گرد جمع ہو جائیں تو وہ اُسے اختیار نہیں کرتا۔(محک الفقر کلاں)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
(جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا)
اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ خطاب اِس لیے کیا گیا ہے کہ اِس سے آدمی کے احوال اُس کے سامنے آجاتے ہیں۔ پھر اُس کا نفس ہوا (نفسانی خواہشات) سے اور دِل گناہوں سے مطلق بیزار ہو جاتا ہے۔ بندے کو بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ، بندگی کے بغیر بندے کی ساری عمر محض شرمندگی ہے ۔(محک الفقر کلاں)

دل انسانی جسم میں ایک وسیع اور عظیم الشان نوری جوہر اور آئینہ حق نما ہے جو اﷲ تعالیٰ کے ذاتی نور سے منور ہوتا ہے اور تمام کائنات اس میں رائی کے دانے کے برابر نظر آتی ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کا نکتہ نظر یہ ہے کہ دل میں معرفتِ الٰہی سے ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے دونوں جہان کی کل کیفیات دل میں سما جاتی ہیں اور صاحبِ نظر دل کی آنکھوں سے اس کا صاف نظارہ کرتا ہے اور عاشقِ الٰہی تو ہمیشہ ہی اپنے دل کی جانب متوجہ رہتا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:

قلب ایک نہایت وسیع ولایت اور ملکِ عظیم ہے دونوں جہان اورتمام مخلوق اس میں سما سکتے ہیں لیکن قلب دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتا۔(فضل اللقاء)

ہر کتابے نقطہ از دل کتاب
دل کتابے دفتر حق بے حساب
ترجمہ: ہر کتاب کتابِ دِل کا ایک نقطہ ہے کہ کتابِ دِل نے بے شمار دفاترِ حق کا احاطہ کر رکھا ہے۔(محک الفقر کلاں)
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ شرح دِل اور حقیقتِ دِل کے بارے میں فرماتے ہیں:
دِل کسے کہتے ہیں اور قلب کسے سمجھا جاتا ہے؟ جان لے کہ زمین کی وسعت آسمان کی وسعت کے مقابلے میں محض ایک قطرہ ہے، جملہ آسمان بلندی و فراخئ لوح کے مقابلے میں ایک قطرہ ہیں، لوح قلم کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے۔عرشِ اکبر کے بے شمار کنگرے ہیں،ہر کنگرے پر کلمہ طیب ‘‘ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ‘‘ لکھا ہو اہے، ہر کنگرے پر ایک قندیل لٹکی ہوئی ہے، ہر قندیل میں قدرتِ الٰہی سے زمین و آسمان کے چودہ طبق تہہ در تہہ رکھے ہوئے ہیں، ہر طبق میں اٹھارہ ہزار عالَم کی مخلوق آباد ہے، ہر مخلوق اپنی اپنی زبان سے کلمہ طیب ‘‘ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ‘‘ کا ذکر کر رہی ہے۔ عرشِ اکبر اور تمام قندیلیں دِل کے مقابلے میں اسپند کے دانے کے برابر ایک قطرہ ہیں۔سن اے عزیز! ہو شمند ! جب کوئی آدمی اہلِ اسلام عارف باللہ کے دِل کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو اٹھارہ ہزار عالم کی جملہ مخلوق بلکہ عرش و کرسی کی تمام مخلوق میں تہلکہ مچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حاملانِ عرش و کرسی ! تم اِس طرح جنبش میں کیوں ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ ایک مومن کا دِل کسی نے دکھایا ہے اور وہ جلالیت میں آکر جنبش کر رہا ہے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب دکھ دینے والے پر نازل ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔(محک الفقر کلاں)

جان لے کہ ذکر فکر ، مراقبہ محاسبہ مکاشفہ اور خلوتِ حجرہ سے اکتساب کرنا خام و ناقص لوگوں کا مرتبہ ہے کہ حجرہ و خلوتِ دِل بہتر ہے حجرہ و خلوتِ خاک سے کہ حجرہِ خاک دِل کے حجرے سے کمتر ہے۔ جس نے بھی رازِ حق کو پایا دِل ہی سے پایا اور جس نے دِل سے راز حق کو پا لیا اُس نے خود کو حجرہ و خلوتِ خاک سے آزاد کرالیا۔ (محک الفقر کلاں)
جو قلب ایک دفعہ بیدار ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ روئیت الٰہی میں مستغرق ہونے کے لئے مشتاق، عاشق دیوانہ ، اور متوجہ رہتاہے۔(قربِ دیدار)

حقیقت تک پہنچنے کا راستہ انسانی قلب میں ہے اور انسانی جسم میںیہی وہ جگہ ہے جہاں ذاتِ الٰہی کے جلوے نظر آتے ہیں اور اگر قلبِ انسان پر سے زنگ اتر جائے اورحجابات کے دور ہونے کے بعد یہ صاف ہوجائے تو فطرتِ انسانی قلب کے واسطہ سے وجدانِ حقیقی تک جا پہنچتی ہے گویا قلب انسان کی روحانی کیفیات کا مرکز ہے۔ اگر یہ درست ہے تو جو اعمال بھی سرزد ہوں گے وہ درست ہوں گے اور اگر یہ مرکز سیاہ ہوجائے او راپنی جگہ سے ہل جائے تو روحانی اقدار تباہ ہوجاتی ہیں ۔انسانی جسم کے اندر دل ہی ہے جس میں ذاتِ حق جلوہ گر ہے۔ اور وہ ذات انسان میں پوشیدہ ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے۔

الانسان سری و انا سرہ
(انسان میرا بھید ہے اور میں انسان کا بھید ہوں)۔
اِس حقیقت سے واقفانِ حقیقت یا طالبِ صادق ہی واقف ہوتے ہیں۔
''عقل بیدار'' میں حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ دل کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

میں نے اپنے دل میں قبلہ دیکھا اور حق کا دیدار کیا اور پھر خدا کے سامنے سربسجود ہو گیا۔
دل وجود کے اندر اﷲ کا ایک خزانہ ہے۔ اہل دل محمود ہیں اور اس کی نمود بھی محمود سے ہی ہے۔
خطرات کے باعث دل شیطان کا گھر بن جاتا ہے اور اہلِ معرفت کا دل پرنور ہوتا ہے۔
دل ایک لطیفہ ہے اور اپنی لطافت کے باعث خدا سے ملتا ہے اور دل وحدت اور حق کی بقاء کا ایک راز ہے۔
دنیا کے طالب اہلِ دل نہیں ہوتے وہ سراسر بے حیا' روسیاہ اور شرمندہ ہوتے ہیں۔
باھوؒ اس شخص کا دل دم اور روح ایک ہو جاتے ہیں جو ایک اﷲ کا سجدہ اور نماز صبح شام ادا کرتا ہے۔
آدمی کا دِل گہرے سمندر کی مثل ہے اوراس کاجسم حباب کی مثل ۔(نور الہدیٰ)
جان لے کہ دِل جب سِرِّ اسرار کے خزانے سے ، انوارِ الٰہی کے مشاہدے سے ، ذکر اللہ سے اور معرفتِ الٰہی سے زندہ ہو جاتا ہے اور جب دِل کے حواسِ خمسہ کھل جاتے ہیں تو ظاہری نفسانی وجود کے حواسِ خمسہ بند ہوجاتے ہیں۔(مجالستہ النبیؐ)
آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے ابیات میں فرماتے ہیں:

چرا در زندگی اے دل نہ کوشی
چرا زیں شربت شریں نہ نوشی
چو دل زندہ شود ہرگز نہ میرد
دل بیدار شد خوابش نہ گیرد
ترجمہ:اے دِل تو زندہ ہونے کی کوشش کیوں نہیں کرتا تو یہ میٹھا شربت (زندگی دِل) کیوں نہیں پیتا۔ دِل جب زندہ ہوجائے تو پھر یہ مرتا نہیں اور جب بیدار ہو جائے تو سوتا نہیں۔(مجالستہ النبیؐ)

چشم بند عینک بہ پیش چشم دل
خوش بیند دیدار را در جسم گل
ترجمہ: دِل کی آنکھ کے سامنے ظاہری آنکھ کو بند کرلے اور مٹی کے جسم میں دیدار کو اچھی طرح دیکھ۔(تیغِ برہنہ)
قلب کے تین حروف ہیں ''ق۔ل۔ب۔'' حرف ''ق'' سے مراد قُربِ الٰہی اور حرف''ل'' سے مراد لقائے الٰہی ، حرف ''ب'' سے مراد بقا باللہ۔ جو شخص اِن صفات سے متصف ہے وہ صاحبِ قلب ہے ورنہ وہ اہلِ کلب (کتا ) ہے۔(قربِ دیدار)

دل کعبہ اعظم است بہ کن خالی از بتاں
بیت المقدس است مکن جائے بت گراں
ترجمہ: تیرا دِل کعبہ اعظم ہے اسے بتوں (غیر اللہ) سے پاک کر۔ تیرا دِل بیت المقدس ہے اسے بُت گروں کی دکان مت بنا۔(عین الفقر باب ہفتم)
آپ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

ایہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھو
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو
شوق دا دیوا بال ہنیرے متاں لبھی وست کھڑاتی ھو
مرن تھیں اگے مر رہے باھو جناں حق دی رمز پچھاتی ھو

آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تیرا دل اﷲ پاک کی قیام گاہ ہے تو اپنے دِل کے اندر جھانک کر تو دیکھ اور اس خضر علیہ السلام کا محتاج نہ بن جس نے آبِ حیات پی کر حیاتِ جاودانی حاصل کر لی ہے بلکہ تیرے اندر تو عشقِ الٰہی کا آبِ حیات موجود ہے۔ اپنے دل کے اندر عشق کا چراغ روشن کر شاید تجھے کھوئی ہوئی امانتِ حقیقی مل جائے جو تیرے دِل کے اندر ازل سے پوشیدہ ہے۔ جنہوں نے اس راز کو پا لیا وہ موت سے پہلے مر گئے یعنی انہوں نے حیاتِ جاودانی حاصل کر لی۔

تمام فقراء اور اولیاء کرام نے انسانوں کو اپنی ذات کی پہچان کادرس دیا ہے کیونکہ جب انسان اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو اسی راستہ سے اللہ تعالیٰ کی پہچان نصیب ہوتی ہے۔ لیکن ایک بات سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کو دوسرے اولیاء کرام سے ممتاز کرتی ہے کہ دوسرے اولیاء کرام انسان کو روح، قلب ، من، دِل ، باطن ، خودی اور ضمیر کی پہچان اور نورِ بصیرت حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن اس کی ''کلید'' کا ذکر نہیں کرتے جس سے باطن کے اندر کا سفر کیا جاسکے۔لیکن حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تمام تصانیف میں اس کلید اور اس کے فوائد ، اسرار و رموز کا ذکر کیا ہے اور انسان کی روح ، قلب ،من، باطن ، خودی اور ضمیر کا قفل کھولنے والی اور نورِ بصیرت حاصل کرنے والی وہ کلید ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات ہے بشرطیکہ یہ کسی مرشدِ کامل اکمل صاحبِ مسمّٰی اسمِ ذات سے حاصل ہوئی ہو۔

تحریر: خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس
Hamid Jamil
About the Author: Hamid Jamil Read More Articles by Hamid Jamil: 18 Articles with 56376 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.