انسان کی مدنی اور اجتماعی زندگی
کے لیے تہذیب ایک فطری اور لاابدی چیز ہے، پیدائش انسان کے بعد اس کی پرورش
کے لیے پہلی جگہ ماں کی گود ہے اور اس کے بعد خاندان، معاشرہ اور تعلیم گاہ
ضروری ٹھہرتی ہے۔ مدنیت انسان کی فطرت اور تہذیب اس کی اساس ہے۔
تہذیب(سویلائزیشن ) کو آپ خواہ لفظی اعتبار سے دیکھیں خواہ تاریخی اعتبار
سے اس کا مطالعہ کریں، ہر دو اعتبار سے اس کا تعلق سماجی اور اجتماعی زندگی
سے جڑا ہوا نظر آئے گا، عربی زبان میں بھی اس کے لیے مدنیت ، حضارت اور
ثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور انگریزی میں اس کے لیے Civilzation
کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اسلامی تہذیب کی افادیت پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ابتداء میں تہذیب
کا تصفیہ کر لیں کہ خود نفس تہذیب کیا ہے، تہذیب کے عناصر ترکیبی کیا ہوتے
ہیں،تہذیب کے ارتقاء کا قانون کیا ہے، بعد ازاں اسلامی تہذیب کی خصوصیات
کیا ہیں اورتاریخ کے طویل دور میں اس نے نوع انسانی پر کیا اثرات مرتب کیے۔
تہذیب کے لغوی معنی ہیں چھاٹنے، اصلاح کرنے ،سنوارنے، درست کرنے اور پاکیزہ
کرنے کے اس کا مادہ ہذبۃ ہے جس کی تائید تاج العروس کی اس عبارت سے ہوتی
ہے’’ھذبہ:(نقاہ)،فی الصحاھ التہذیب کالتنقیہ (واخلصہ،) قیل: (اصلہ) ھذب
یھذبہ، ھذبا، (کھذبہ) تھذیبا)‘‘(۱)یعنی انسانی دل و دماغ کی کانٹ چھانٹ کر
کے اصلاح کی جائے ، محمد مارمیڈیوک پکتھال نے بھی تہذیب کے مفہوم کو مختصر
الفاظ میں ذہن کی درستگی قرار دیا ہے :
" Culture Means 'cultivation' and, generally nowadays, when this word is
used alone, it means 'the cultivation of the human mind."(2)
’’کلچر کا مطلب تہذیب ہے اور عام طور پرآج کل جب یہ لفظ اکیلا استعمال کیا
جاتا ہے تو اس کا مطلب انسانی دماغ کی اصلا ح (تہذیب) مراد ہوتا ہے‘‘ امر
واقعہ یہ ہے کہ یہ اصلاح اور درستگی کا عمل دل ودماغ تک محدود نہیں ہے بلکہ
اس کا دائر کار معاشرے کے تمام انسانوں کے افعال وکردار پر محیط ہو تا ہے
جیسے کہ سید عابدحسین نے اس کی وضاحت فرمائی ہے ’’تہذیب پاکیزہ وپسندیدہ
اخلاق وادب کا نام ہے ،جس شخص کی طبیعت ،چال، ڈھال، گفتگو اور برتاؤمیں ایک
خاص موزنیت اور دلکشی ہو وہ مہذب کہلاتا ہے۔۔ کسی قوم کے اجتماعی ادارت اور
اصول وقوانین بھی تہذیب کے نام سے موسوم کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تہذیب کا
لفظ اس سے بھی وسیع معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی زندگی کا مکمل نصب العین
جو کسی قوم کے سامنے ہو۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مغرب کی تہذیب کی بنا مادیت
ہے اور مشرقی تہذیب کی بنا روحانیت ہے تو تہذیب کا یہی مفہوم ہمارے پیش نظر
ہوتا ہے‘‘(۳)حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے افراد کے تمام اقوال وافعال اور
کردار تہذیب کے زمرے میں آتے ہیں جیسا کہ سید سبط حسین رقمطراز ہیں’’ تہذیب
معاشرے کے طرز زندگی اور طرز فکر اور احساس کا جوہر ہوتی ہے، چنانچہ زبان،
آلات وآزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے ،رہن سہن، فنون لطیفہ، علم
وادب، فلسفہ حکمت، اخلاق و عادات،رسوم ورواج، عشق ومحبت کے سلوک اور خاندنی
تعلیمات تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں‘‘(۴)تہذیب کے ساتھ ثقافت کا لفظ بھی کثیر
الاستعمال ہے اور ان دونوں الفاط میں لطیف سا فرق ہے جس کو تہذیب کے موضوع
پر مہارت رکھنے والے صاحب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے’’ تہذیب اور ثقافت
دونوں لوگوں کے مجموعی طرز حیات کو بیان کرتے ہیں اور ایک تہذیب وسیع تناظر
میں ثقافت ہوتی ہے ان دونوں میں اقدار، معیارات، ادارے اور سوچ کی قسمیں
شامل ہوتی ہیں جس کو کسی معاشرے میں نسلیں متواتر اہمیت دیتی ہیں‘‘(۵) اس
طرح اسلامی تہذیب و ثقافت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں مگر مختصر اور جامع
الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی و حال میں امت مسلمہ کے عمومی عناصر کو
بامقصد انداز سے جاننا جس میں دین ، زبان، تاریخ، تہذیب، اقدار اور مشترک
اہداف قابل ذکر ہیں۔
یہ مسلمہ امر ہے کہ ہر تہذیب دوسری تہذیبوں سے قبول ورد کا عمل جاری رکھتی
ہے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتی ہے اور اپنے تجربات سے ان کو مستفید کرتی
ہے کیونکہ کوئی بھی تہذیب خلا میں نہیں جی سکتی، یہ بات الگ ہے کہ کسی
تہذیب کا کینوس زیادہ وسیع ہوتا ہے اور کسی کا محدود، جس تہذیب کی افادیت
نوع انسانی کے لیے جتنی عام اور آفاقی ہو گئی اس کی مقبولیت بھی اتنی عام
ہو گی۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو مہذب بنانے کے لیے انبیاء کرام کا سلسلہ شروع
فرمایا اور سب سے آخر میں حضرت محمد ﷺ کو عالمگیر اور آفاقی نبی بنا کر
بھیجاجنہوں نے ایسے معاشرے کو مہذب بنایا جو کہ جاہلیت جیسے نام سے موسوم
تھااوراسلامی تہذیب کے لیے ترقی کے راہیں متعین کیں جس نے دیگر تہذیبوں کو
متاثر کر کے بام عروج حاصل کرتے ہوئے آفاقیت اور عالمگیریت کو ثابت کیا جس
کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے ہیں ، مستشرق برنارڈ لیوس جس کے بارے میں
عمومی رائے ہے کہ اس کا روایہ مسلمانوں کے ساتھ زیادہ ہمدرردانہ نہیں ہے وہ
لکھتے ہیں ’’ اسلام نے پہلی بار ایک عالمی تصور پیش کیا اس سے قبل دیگر
تہذیبیں مقامی یا علاقائی تھیں۔ اس طرح اسلامی تہذیب ان حدود سے بہت آگے
پہنچ گئی، جہاں رومن اور اس وقت کی دیگر ترقی یافتہ تہذیبیں پہنچی تھیں۔ اس
طرح (اسلامی) تہذیب نے ایشیاء کی قدیم اور وسیع تہذیبوں سے ان کی امتیازی
خوبیاں بھی اپنے دامن میں سمیٹیں اور اس کے امتزاج سے انہیں نہایت خوبصورت
رنگ پیش کیا۔ (۶)
جب اسلامی تہذیب نمودار ہوئی وہ اس وقت کی صورتحال کے عین تقاضوں کے مطابق
تھی جس کا نقشہ ایک مورخ نے ان الفاظ میں کھینچا ہے:
"It seemed then that the great civilization which it had taken four
thousand years to construct was on the verge of disintegration, and that
mankind was likely to return to that condition of barbarism where every
tribe and sect was against the next and law and order were unknown.. The
new sanctions created by Christianity were working division and
destruction instead of unity and order.. Civilizattion like a gigantic
tree whose foliage had over.reached the world... stood torrering ..
rotted to the core.. was there any emotional culture that could be
brought in to gather mankind once more into unity and to save
civilization?"(7)
’’ یوں نظر آتا تھا کہ وہ عظیم تہذیب جس کی تعمیر میں چار ہزار برس لگے
انتشار کے دھانے پر پہنچ گئی تھی اور ہر قبیلہ اور فرد ایک دوسرے کے خون کا
پیاسہ تھا، چنانچہ پرانی انداز حکمرانی اب بے سود اور غیر موثر تھے۔۔ اور
جنگ کے تھپیڑوں کی وجہ سے یہ تہذیب پارہ پارہ ہو چکی تھی ضرورت ایسی تہذیب
کی تھی جو ایسے جذبات پر مبنی ہو جو نوع انسانی کو دوبارہ کسی اتحاد میں
منسلک کر سکے اور انسانیت کو تباہی سے بچا سکے۔ ‘‘ اسلامی تہذیب ایسے حالات
کے عین تقاضوں کے مطابق وقت کے ساتھ منظر عام پر آئی اور اپنی عالمگیریت
اور آفاقیت کی بنا پر دوسری تہذیبوں کو متاثر کیا اور نسل انسانی پر دورس
اثرات چھوڑے جس سے آج تک بنی آدم مستفیض ہو رہے ہیں،اسلامی تہذیب کی اثر
انگیزی، وسعت پذیری اور مقبولیت کے مختلف پہلو ہیں جن کا منصف مزاج مصنفین
اقرار کرتے ہیں جیسا کہ ماقبل میں اقتباس نقل کیا گیا، اس تحریر میں طوالت
سے گریز کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کے چندروشن پہلووں کوزیر بحث لایا جائے گا
، اور مقالہ کے دوران قرآنی آیات ِ مبارکہ کا ترجمہ تفسیر ِعثمانی سے پیش
کیا جائے گا ۔
پہلا خدائی حکم:
سورج ِاسلام کے طلوع ہوتے ہی جو پہلا اعلان ہوا وہ نہ توحید ورسالت کا تھا،
نہ ہی عبادت وریاضت کا اور نہ ہی مکارمِ اخلاق اور انسانی حقوق کا ، نبی
امی فداہ ابی وامی ﷺ کو سب سے پہلا جو خدائی حکم ملا۔ جس سے وحی خداوندی کا
آغاز ہوا۔ وہ تعلیم وحکمت جیسے عظیم المرتبت موضوع پر مبنی تھا۔ کیونکہ علم
ہی معرفت الہٰی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ علاوہ ازیں علم ہی انسان کو دوسری
ساری مخلوقات اور حیوانات سے ممتاز اور اشرف واعلیٰ بناتا ہے۔ اسلام کے سب
سے پہلے اعلان کا سب سے پہلا لفظ جو دنیا نے سنا، بظاہر کیسی حیرت انگیز
بات ہے۔ وہ لفظ ’’اقرء‘‘ تھا۔ اس معنی خیز لفظ سے تحریر و کتابت کی اہمیت
دنیا پر آشکارا ہو گئی ۔ ارشاد اولیں ہوتا ہے’’اقراء باسم ربک الذی خلق ،
خلق الانسان من علق، اقرء وربک الاکرم ، الذی علم بالقلم ، علم الانسان
مالم یعلم ‘‘(۸)’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جو سب کا بنانے والا ،بنایا آدمی
کو جمے ہوئے لہو سے، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے ، جس نے علم سکھایا قلم
سے، سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا‘‘ دورِ نبوت میں اس خدائی حکم کی
تکمیل کی مثال ہمیں حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ سے ملتی ہے جو کہ نہایت
زہین اور فطین انسان تھے حضورﷺ نے وقتی تقاضوں کے پیش ِ نظر ان کو حکم دیا
کہ یہود کی زبان کو سیکھو تو انہوں نے پندرہ یوم کی مختصر مدت میں اس پر
اتنی دسترس حاصل کر لی تھی کہ وہ یہود کی کتابت کو پڑھ اور لکھ سکتے تھے
جیسا کہ درج ذیل عبارت سے واضح ہے’’ان رسول اﷲﷺ امرہ ان یتعلم کتاب یھود،
قال: فکنت اکتب لہ واکتب الیھم واقرہ لہ اذا کتبوا‘‘(۹) البدایہ والنھایہ
میں بھی یہی مذکور ہے کہ پندرہ یوم میں کتابت ِیہود پر قدرت حاصل کر لی
تھی۔(۱۰) مسلمان کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار نے کے باوجود ان کے اندر
حصول علم کا جذبہ تھا ۔ اسی وجہ سے مختصر عرصے میں وہ نمونہ زندگی بن گئے
اور زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے،گویا کہ حضورﷺ کے
زمانہ میں ہر فن کے ماہرین موجود تھے ،کچھ لوگوں نے علمی کام کیے، کچھ
لوگوں نے دست کاریاں سکیھیں، بعض صحابہ نے دوسری قوموں کی زبان اور ان کی
تہذیب وتمدن کا مطالعہ کیا۔
ابتدائی خدائی حکم کی بدولت انسان کو فرشتوں سے بلند مقام ومرتبہ دیاگیا اس
مقام ومرتبہ کی اہم وجوہات انسان کا علم وحکمت اور فہم وفراست سے متصف ہونا
ہے جو کہ لازمی طور پر انسان ہی کا خاصہ ہے ، اسی وجہ سے ختم المرسلین کا
مقصد بعثت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ’’ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان
کانوا من قبل لفی ضلل مبین‘‘ (۱۱)’’اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب، اور کام کی
بات ، اور وہ تو پہلے سے صریح گمراہی میں تھے‘‘ اس کے علاوہ قرآن حکیم خود
بھی علم وحکمت کی قدردانی کرتا ہوا نظر آتا ہے ’’ یرفع اﷲ الذین امنوا منکم
والذین اوتوا العلم درجت‘‘ (۱۲)’’اﷲ بلند کرے گاان کے لیے جو کہ ایمان
رکھتے ہیں تم میں سے ،اور علم ان کے درجے ، اور اﷲ کو خبر ہے جو کچھ تم
کرتے ہو‘‘اسلامی تہذیب میں علم وحکمت حاصل کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر
عمل کرنا بھی لازم ہے اورتہذیب ِ اسلامی میں عمل اس وقت تک لاحاصل ہے جب تک
انسان ایمان کی دولت سے محروم ہو غرضیکہ مسلم تہذیب کایہ خاصہ ہے کہ
علم،عمل اور ایمان لازم وملزوم ہیں۔ اگر علم ہو مگر اس کے مطابق عمل نہ ہو
تو ایسا شخص جاہل ہی کی طرح ہے جیسے کہ امام قرطبی فرماتے ہیں’’الذین
یعلمون ھم الذین ینتفعون بعلمھم ویعملون بہ فاما من لم ینتفع بعلمہ ولم
یعمل بہ فھو بمنزلۃ من لم یعلم‘‘ (۱۳) جاننے والے وہ ہیں جو اپنے علم سے
دانستہ طور پر نفع حاصل کرتے ہیں۔ جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے جو اپنے علم
سے نفع نہیں اٹھاتا اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتا وہ نہ جاننے والے کے
درجے میں ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی نے بھی علم کی تعریف و توصیف
میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں’’ فاما من لم ینتفع
بعلمہ ولم یعمل بہ، فھو بمنزلۃ من لم یعلم‘‘(۱۴)غرض کہ اسلام اور پیغمبر
ِاسلام نے مسلمانوں کے لیے ہمہ قسم کے علوم کا حصول لازم قرار دیا ہے جس کی
بدولت عربوں نے خطابت اور شاعری سے توجہ ہٹا کر سائنس و ادب کی طرف دھیان
دیا’’ ہادی اسلام ﷺ کی تلقین نے عرب قوم کی سوئی ہوئی قوتوں کو جگا کر ان
میں ایک نئی حرکت پیدا کر دی، آپ ﷺ کی مدت حیات کے اندر ہی ایک ادارے کی
داغ بیل پڑ گئی جس کی بنیاد پر آئندہ سالوں میں بغداد ۔۔۔ قاہرہ اور قرطبہ
کی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں‘‘ (۱۵) اس تحریک پر عمل کر کے مسلمانوں نے سائنس
و علم کی دنیا میں عظیم خدمتیں انجام دیں اور نئی ایجادات کی تلاش و جستجو
میں اپنی زندگیاں قربان کر دیں اسی حوالے سے ڈاکٹر نصیر احمد ناصر لکھتے
ہیں’’علم کا عقیدہ اسلام کے ان عقائد جلیلہ ومحرکہ میں سے ہے جنہوں نے
اسلامی ثقافت کی صورت گری ونقش گری اور تزئین وتحسین کرنے، نیز اسے حرکی
وارتقائی بنانے میں از بس اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس عقیدے نے اسلامی ثقافت
کے نظری وعملی گوشوں کو وسعت دی اور اس پر ہمہ جہت ترقی کے دروازے کھول دیے
۔‘‘ (۱۶)ابتدائی خدائی حکم کی تعمیل وتکمیل کے لیے اسلامی تہذیب سے تعلق
رکھنے والے ہر فرد نے انفرادی واجتماعی حیثیت سے قلت ِ اسباب کے باوجود
نمایاں کردار ادا کیا اور نو ع انسانی کے لیے علم وحکمت پر مبنی کتب کے
ذخائر چھوڑے جس سے ہر صاحب علم اچھی طرح واقف ہے،اسلامی تہذیب میں انفرادی
کوششوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر بھی علم و ترقی میں اہم کردار ادا کیا
ہے جس کی سرپرستی مسلم حکمرانوں نے کی ، جس کی بدولت مختلف اکیڈمیاں اور
کتب خانے معرضِ وجود میں آئے جس کے متعلق محمد سعود رقمطراز ہیں:
"A number of academies were established by the rulers at many places in
the Muslim world to carry out the work of translation. These academies
under took the translation of the main Greek works on philosophy,
astronomy, mathematics, medicine and other sciences. The first such
academy named Bait-al-Hikmah (House of wisdom) was set up by the caliph
al-Ma-mun. This academy contained a library and an observatory. An other
such institution was founded by the Fatimi rulers in Egypt. During the
reign of Abbasi caliphs particularly, al-Mansur and al-Ma-mun extensive
activity was shown in the preparation and translation of scienticic
works."(17)
’’ترجمے کا کام سرانجام دینے کے لیے مسلم حکمرانوں کی طرف سے عالم اسلام کے
اندر مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں اکادمیاں قائم کی گئیں ۔ جہاں فلسفہ
،فلکیات، ریاضیات، طب اور دوسرے سائنسی علوم کی بڑی بڑی یونانی کتابوں کے
تراجم کئے گئے۔ اس قسم کی پہلی اکادمی کا نام ’’بیت الحکمۃ‘‘ ہے جو خلیفہ
مامون الرشید نے قائم کی۔ یہ اکیڈمی ایک لائبریری اور تجربہ گاہ پر مشتمل
تھی۔ اسی طرح کا ایک اور ادارہ مصر میں فاطمی حکمرانوں نے قائم کیا تھا۔
عباسی خلفاء کے دور حکومت ، خاص طور پر المنصور اور المامون کے دور میں
سائنسی علوم کی تحقیق اور ترجمے کے کام میں گہری سرگرمی کا مظاہرہ کیا
گیا‘‘
قرآن پاک میں موجود اس خدائی حکم نے انسانوں کی دنیا میں انقلاب برپا کر
دیا لوگوں کی سوچ سمجھ،رہن سہن،اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے بدل کر دنیا کو
حیران و ششدرہ کر دیا قرآن پاک سے لوگوں کے اسقدر متاثر ہونے کو ایک غیر
مسلم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
"Thanks to the Qur'an, the Muslims' conduct and culture developed. The
Qur'an saved them from illusions, superstitions, oppression, and
violence. It Granted the people of the lower classes honour and esteem.
Likewise, it made society replete with such justice and piety that no
parallel can be found for it. At the same Time, the Qur'an urged them to
make progress which led to making such a progress that was unique in
history.(18)
’’ یہ قرآن کی مرہونِ منت ہے کہ مسلمانوں کا رویہ اور ان کا کلچر پروان
چڑھا، قرآن نے انہیں خیالی دنیا تواہمات ظلم اور تشدد سے بچایا اس نے ادنی
درجہ کے لوگوں کو عزت وعزمت سے نوازا اس نے ایسے معاشرے کو وجود بخشا جو
انصاف سے سرشار ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی ، اس نے ساتھ ہی ایسی
امنگ پیدا کی جو انہیں ایسی ترقی کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو کہ تاریخ میں
بہت منفرد ہے‘‘اسلامی تعلیمات کے نتیجے میں جو بے مثال تہذیب و ثقافت وجود
میں آئی اس کا وجود مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلا ہوا ہے اور اس کا زمانی
وقفہ چودہ صدیوں پر محیط ہے اس عرصے میں اسلامی تہذیب و تمدن نے تمام ہی
تہذیبوں کو کم وبیش متاثر کیا ، جس کے اثرات ا قوام وملل کی زندگی میں
نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں جن کی تعین وتحدید ناگزیر نظر آتی ہے صرف یورپ
پر اسلامی تہذیب کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے :
" There is not a single aspect of European growth in which the decisive
influence of Islamic culture is not traceable."(19)
’’ یورپ کی ترقی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جس میں اسلامی تہذیب کے اثر کو
نہ ڈھونڈا جا سکے‘‘بریفالٹ نے کشادہ دلی اور وسیع الظرف کے سبب یورپ
پراسلامی تہذیب کے انمٹ نقوش کا اعتراف کیا ہے اسی طرح یہ اثرات دیگر اقوام
و ملل کے افراد پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ اسلامی تہذیب تمام نوع
انسانی کی رہنمائی ، اصلاح و فلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے یکساں ہے ، اسی
یکسانیت اور فہمِ عام نے تمام ادیان کو متاثر کیا ہے اور تاریخی اعتبار سے
زندہ و درخشندہ مثالیں رقم کیں ہیں ، اسلامی تہذیب کے مخلوقِ خدا کے لیے
یکسانیت کے اہم پہلو درج ذیل ہیں۔
توحید
لفظ توحید کا استعمال سب سے پہلے حضور نبی کریمﷺ نے اس وقت فرمایا جب آپﷺ
نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو ۹ ہجری میں یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو آپ ﷺ نے
ان سے فرمایا ’’تم عیسائیوں اور یہودیوں کے پاس جا رہے ہو ، اس لیے سب سے
پہلی بات جس کی دعوت تم ان کو دو گے وہ اﷲ کی وحدانیت ہے ( یوحدواﷲ) ‘‘ لفظ
یوحد سے اسم توحید بنا ہے۔(۲۰)
اسلامی تہذیب وثقافت کا بنیادی ستون توحید ہے جس کی ابتداء انسان کی پیدائش
کے ساتھ ہو ئی اور حضورﷺ کی پیدائش پر بھی اس کا ظہور ہوا جب کہ ختم
المرسلین ﷺ بول بھی نہیں سکتے تھے مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے
توحید کو آشکارہ فرمایا جس کا تذکرہ برھان الدین حنبلی نے کیا ہے کہ ’’ آپ
آنحصرتﷺ جب پیدا ہوئے تو زمین پر اس طرح تشریف لائے کہ آپ کی مٹھی بند تھی
اور شہادت کی انگلی اس طرح اٹھی ہوئی تھی جس طرح اس سے تسبیح ( یعنی نماز
میں خدا کی وحدانیت کا اشارہ ) کیا کرتے ہیں‘‘ (۲۱) ختم المرسلینﷺ نے جس
انداز سے اس امر کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا وہ تا امروز جاری ہے اور
ابلاغ توحید کا یہ سلسلہ ہر دور میں اسلام کا اولین مقصد رہا ہے مسلم تہذیب
کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کہ
علاقائی ، جغرافیائی ۔ نسلی اور لسانی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں
مگر عقیدہ توحید ان سب میں قدرے مشترک ہے جو کہ اصل میں مسلمانوں کے لیے
ایمانی قوت ہے جس سے دل میں زندگی اور زندگی میں معنویت ، وسعت اور آفاقیت
جگہ پاتی ہے ، اور تمام مسلم ایک قوم نظر آتی ہے جو کہ فرمان نبیﷺ تمام
مومن ایک آدمی کی طرح ہیں ‘‘(۲۲)
اسلامی تہذیب نے مسلم و غیر مسلم کی تمیز کیے بغیر توحید کے زریں اصول
بتلائے ہیں جن پر معاشرے کا ہر فرد عمل پیراں ہو کر کامیاب زندگی گزار سکتا
ہے ، جیسا کہ ایک شخص توحید پر یقین رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارتا ہے تو وہ
غیر اﷲ کے خوف و خطر کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے ، چاہے وہ معیشت و معاشرت
کا میدان ہو یا پھر عدالت کا کوئی معاملہ ہو،توحید پر ایمان رکھنے والا ہر
حال میں ان خصوصیات پر پورا اترتا ہے جس کی بدولت اسلامی تہذیب امن وسلامتی
اور عدل وانصاف کا گہوارہ کہلانے کے زیادہ مستحق ہے ، اور توحید کی ان
خوبیوں کو ڈاکٹر علامہ اقبال نے بھی سراہ ہے:
"The Essonce of Thuhid, as a working idea, is ezuality, salidarity, and
freedm. the state, from the Islamic standpoint"(23)
’’گویا معاشرے میں توحید پرستی کے عملی مظاہر اخوت ومساوات اور آزادی
وانصاف کے اصول و اقدار کی ترویج واشاعت سے عبارت ہے‘‘مزید یہ کہ انسان کو
ظاہری اسباب سے ہٹ کر مسبب الاسباب کی طرف توجہ کرنی چاہیے ، ہم تو فطرتا
جو کچھ دیکھتے اورسمجھتے ہیں اس پر اور اس کے قبیل پر تقیہ کر لیتے ہیں
گویا کہ ہمارے علم کا مدار ظاہری اسناد پر ہوتا ہے جبکہ یہ معلوم نہیں کہ
اسباب کی تاثیر کیا ہے اور یہ کیوں اثر کرتے ہیں اسی وجہ سے شریعت محمدی
میں ہے کہ اسباب کو چھوڑ کر مسبب الاسباب کی طرف دھیان دو اور اسی کا اصل
نام توحید ہے ’’ اور اگر اسباب کے دریا میں عمر بھر غوطہ لگاتے رہے تب بھی
اس اﷲ تعالیٰ تک نہ پہنچ سکو گئے، تمہارے لیے یہ مناسب ہے کہ اسباب سے
آنکھیں بند کر کے توحید مطلق کا اعتقاد رکھو‘‘ (۲۴)
عقیدہ توحید کا جمال و کمال اور انسانی زندگی کے لیے برمحل ہونا یہ ایک بہت
بڑی حقیقت کی کشادگی ہے جس کی صورت اسلام نے اختیار کی ہے، اس سب کچھ کی
حقیقیت دل اور عقل کے لیے چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہو جاتی ہے جب ہم
تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں بالخصوص تاریکی وظلمت کا وہ دور جو طلوع
ِاسلام سے قبل تھا اس سے مراد صرف عرب کا خطہ مراد نہیں بلکہ دنیا کے تمام
براعظم ہیں، اسلام سے قبل سب کی حالت دیگر گوں تھی توحید کا تصور دیگر
ادیان میں بھی دھندلا ہو چکا تھاجس کے باعث لوگ مختلف چیزوں کی عبادت کیا
کرتے تھے، ہر کسی نے اپنی حاجت روی اور مشکل کشائی کے لیے سامان ِ دنیا کو
خدا کا مقام دے دیا تھا اس ضلالت اور گمراہی کے بعد پوری انسانیت کے لیے
دین ِ اسلام کا عقیدہ توحید رحمت بن کر ظاہر ہوا ہے۔ حقیقی رحمت جو دل اور
عقل کے ساتھ موت و حیات کے لیے بھی رحمت ہے۔
اسلامی تہذیب میں مساوات کا جوہر:
ہماری لا زوال تہذیب کی انسان دوستی کا یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ جس نے
انسانیت کے درمیان حقیقی مساوات کی بنیادیں فراہم کیں، یہ تمیز کیے بغیر کے
کون کالا ہے کون گورا ، کون امیر ہے اور کون غریب،اسلامی تہذیب میں اﷲ کی
قربت اور معیار کی کسوٹی تقوی قرار دی ہے جس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ
ہے’’ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم‘‘(۲۵) ’’تحقیق عزت اﷲ کے یہاں اسی کو بڑی جس کو
ادب بڑا ‘‘ اس جگہ ادب سے مراد تقوی ہے یعنی اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا۔
اسلامی تہذیب میں انسانی مساوات بہت اہم ہے جس کے تحت تمام مسلمانوں کے
درمیان توازن برقرار رکھا جاتا ہے۔معاشرہ مختلف طبقات میں بٹ کر انتشار کا
شکار نہ ہو جائے۔لوگوں کے درمیان مساوات قائم کرنا اسلامی ریاست کے فرائض
میں سے اہم فریضہ ہے۔اس میں غفلت یا سستی ریاست کو بہت سے گھمبیر مسائل سے
دو چار کر سکتی ہے اس لیے شریعت ِاسلامی نے عدم مساوات کی بڑی سختی سے
تردید کی ہے فضیلت و عدم فضیلت کا اگر معیار رکھا ہے تو وہ صرف اورصرف
تقوٰی و پرہیز گاری ہے، محمد مصطفیﷺ کے نزدیک امیر وغریب ،شاہ گدا،آقا و
غلام سب برابر تھے۔آپ نے خاندانی اور قبائلی فخر کو مٹایا، ذات پات اور رنگ
و نسل کے تمام امتیازات کو ختم کر دیا۔ آپ کے نزدیک سلمان فارسیؓ بلال
حبشیؓ اور صہیب رومیؓ کی قدرومنزلت قریش کے معززین سے کم نہ تھی اس کی عملی
مثال حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ کا نکاح ہے جو آپ ﷺ نے اپنی
پھوپھی کے ساتھ کیا ۔اس سے بڑھ کر مسجد مساوات کا بہترین مظہر ہے جہاں ایک
ہی صف میں امیر و غریب کھڑے نظر آتے ہیں۔ روئے زمین پر اسلام ہی ایک ایسا
مذہب ہے جس میں ملکی اور قومی وطنیت، ذات اور برادری کی عصبیت ، رنگ و نسل
کے فرق و امتیاز کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے اس مساوات کو حضورﷺ نے خطبہ حجۃ
الوداع میں یوں بیان فرمایا ہے’’ لَا فَضلَ لِعَرَبٍِّ عَلَی عَجَمٍِّی ،
وَلَا لِعَجَمیٍِّ عَلَی عَرَبٍِّی، وَلَا اَحمَرَ عَلَی اَسوَدَ، وَلَا
اَسوَدَ عَلَی اَحمَرَ، اِلَّا بِالتَّقوَی ‘‘(۲۶) کسی گورے کو کالے پر اور
کسی کالے کو گورے پر، کسی عجمی کو عربی پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت
نہیں ہے،سوائے تقوٰی کے‘‘دوسری جگہ عدل وانصاف میں مساوات کو قائم رکھتے
ہوے فرمایا’’اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو ہاتھ کاٹ دیتا‘‘(۲۷)
اسلام نے اس نظریہ کی تاثیر و قوت کی بدولت پوری انسانیت کی کایا پلٹ دی ،
وہ مذاہب جہاں چھوت چھات، ذات پات، رنگ و نسل، برادرانہ امتیاز کی متعصبانہ
خلیج حائل تھی انہوں نے جب اسلام کی وسعت ِنظری کو دیکھا تو متاثر ہوئے
بغیر نہ رہ سکے اور اسلام اپنی مکمل تاثیر وتوقیر کے ساتھ دیگر ادیان و
مذاہب اور ان کی تہذیب ومعاشرت پر غالب آتا چلا گیااور غیر مسلم اس ناقابل
انکار حقیقت کا مسلمانوں میں عملی نمونہ دیکھ کر اپنے قلوب و اذہان کو
اسلامی قالب میں ڈھالتے گئے۔
معاشی یکسانیت:
اسلام کا معاشی نظریہ معیشت فطرت کے قریب تر اور ہم آہنگ ہے کیونکہ اس
معاشی نظام کو پروردگار نے سب لوگوں کے لیے ترتیب دیا ہے جو کہ سب کا رب ہے
اور اس کی ربوبیت کا سایہ سب پر یکساں ہے ، اﷲ کے مال میں بنیادی طور پر
تمام انسانوں کو یکساں حق ِ ِتصرف حاصل ہے ، اسلام کے اس فلسفے کی بنیاد
انسانیت کی فلاح وبہبود پر ہے اس وجہ سے قرآن نے صاحب ثروت ودولت کو خرچ
کرنے کی تلقین کی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ’’وما لکم الا تنفقوا فی سبیل
اﷲ‘‘(۲۸) ’’اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خرچ نہیں کرتے اﷲ کی راہ میں ‘‘ غریب
اور نادار لوگوں پر خرچ کرنا اﷲ کے راستے میں خرچ کرنا ہے،پھر خرچ کرنے میں
بھی معیار مقرر فرما دیا کہ پسندیدہ مال راہ خدا میں خرچ کرنا زیادہ قربت
کا ذریعہ اور بھلائی کا سبب بنے گا ’’لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون
‘‘(۲۹) ’’ہر گز نہ حاصل کر سکوگے نیکی میں کمال جب تک نہ خرچ کرو‘‘دوسری
جگہ ارشاد ہے ’’ اتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتامی والمساکین وابن
السبیل والسائلینوفی الرقاب‘‘ (۳۰) ’’اور دے مال اس کی محبت پر رشتے داروں
کو اور یتیموں اور محتاجوں کو اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور
گردنیں چھڑانے میں‘‘اس کے علاوہ مسلم تہذیب میں مسلمانوں کے پاس موجود مال
کو اﷲ کی امانت قرار دیاگیا ہے اور تلقین کی ہے جہاں وہ خودفائدہ اٹھائیں
وہیں ان کو بھی فائدہ پہنچائیں جو اس سے محروم ہیں ’’ واتوہم من مال الذی
آتاکم (۳۱)’’اور دو ان کو اﷲ کے مال سے جو اس نے تم کو دیا ہے‘‘ اگرچہ یہ
آیت غلاموں کے پس منظر میں ہے مگر اس آیت کی روشنی میں ہر اس شخص کی مدد کا
حکم پوشیدہ ہے جو کہ تعاون کا مستحق ہے، کیونکہ مسلم تہذیب کا خاصہ ہے کہ
دوسروں کو نفع پہنچانا جہاں تک ممکن ہو سکے اور اگر غلام کے علاوہ بھی کوئی
غریب نادار معاشرے میں موجود ہے اس کو مال کے ذریعے فائدہ پہنچایا جائے گا
، اس حوالے سے فرمان رسول بھی ہے کہ ’’ اﷲ کے نزدیک سب سے پسندیدہ وہ شخص
ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا ہے‘‘(۳۲) فرمان نبوی کی
روشنی میں یہ حکم مسلم اور غیر مسلم سب کو شامل ہے ۔
مسلم تہذیب کا معاشی نظم و ضبط اس وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ دولت
پر کسی مخصوص طبقے ، خاندان ،گروہ یا مخصوص قوم کی اجارہ داری کو قبول نہیں
کرتا، جس کی وضاحت مال فئی(جو دشمنوں سے بغیر جنگ کیے حاصل ہو) میں واضح
نظر آتی ہے جو کہ غریبوں مسکینوں کے لیے متعین ہے جس کے متعلق ارشاد ہے کہ
’’ کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ (۳۳)’’تا کہ نہ آئے لینے دینے میں
دولت مندوں کے تم میں سے‘‘تا کہ یہ مال تمہارے اغنیاء کے درمیان نہ گھومتا
رہے، گردش مال وزر میں یکسانیت کو سامنے رکھتے ہوئے امیروں کے مالوں میں
بھی حصہ محفوظ کر دیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ویطعمون الطعام علی
حبہ مسکینا ویتیما واسیرا‘‘ (۳۴) ’’اور کہلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر
محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو‘‘ مسلم تہذیب نے معیشت میں عدل وانصاف کو
برقرار رکھنے کے لیے دوسروں کے مال پر دست درازی کرنے یا پھرناجائز طریقے
سے مال حاصل کرنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے ’’ یا ایھا الذین آمنوا لا
تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل‘‘ (۳۵) ’’اے ایمان والو نہ کھاؤمال ایک دوسرے
کے آپس میں ناحق ‘‘اسلامی معیشت میں یہ پہلو اس وجہ سے اہمیت کا حامل ہے کہ
باطل طریقے سے مال حاصل کرنے کا ہر راستہ بند کر دیاگیا ہے یعنی دوسرے
افراد، اقوام، ملکوں کا استحصال کر کے مال کمانا نا قابل معافی جرم ہے ، اس
اکل ِبا طل کی روک تھام کے لیے اسلام نے سنگین سزائیں متعین کی ہیں جیسے
ہاتھ کاٹنے کی سزا وغیرہ ۔ اسلامی تہذیب سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس پر
کار بند ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملکوں کے ملک فتح کیے مگر کبھی بھی انسانیت
کو ذلیل و رسوا نہیں کیا۔
عالمی تہذیب:
ماقبل بحث کے بعد یہ حقیقت آشکارہ ہو جاتی ہے کہ صدیوں پر محیط زندہ و
جاوید صرف اسلامی تہذیب ہے جس نے دنیا کی تمام تہذیبوں پر اپنا خوشگوار اثر
چھوڑا ہے ۔ ان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی تہذیب کے ابدی اور فطری
اصول کار فرما ہیں۔ اسلامی تہذیب قومی،ملکی یا نسلی تہذیب نہیں بلکہ بین
الاقوامی اور بین الملکی تہذیب ہے۔ ہر وہ شخص جو توحید ، رسالت اور یوم
آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسلام کے قصر قومیت میں داخل ہو جاتا ہے، سید ابو
الحسن علی ندوی اسلامی تہذیب کے عالمی تہذیب ہونے کے فلسفے پر روشنی ڈالتے
ہوئے لکھتے ہیں ’’مذہب (دین ِاسلام) تمام انسانوں کو ایک طرح کے اصول ِ
زندگی ، ایک مقصد ِزندگی ، ایک روح ِزندگی اور پیغام ِزندگی عطا کرتا ہے
۔مزید فرماتے ہیں کہ مذہب کی دعوت یہ نہیں کہ آؤ عبرانی زبان کی طرف یا
عربی یا سنسکرت یا فارسی کی طرف، مذہب کی صاف دعوت سب کے لیے وہی ہے جو
محمد رسول اﷲ ﷺ نے تمام اہل مذہب کو دی‘‘ (۳۶) ’’قل یا اھل الکتاب تعالوا
الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ان لا نعبد الا اﷲ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ
بعضنا بعضا اربابا من دون اﷲ‘‘(۳۷) ’’تو کہہ اے اہل کتاب آؤ ایک بات کی طرف
جو برابر ہے ہم میں اور تم میں کہ بندگی نہ کریں ہم مگر اﷲ کی اور شریک نہ
ٹھہراویں اس کا کسی کو اور نہ بناوے کوئی کسی کا رب سوا اﷲ کے‘‘ اس قرآنی
اصول کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے جب اسلامی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو یہ
عجب منظر دکھائی دیتا ہے کہ مختلف نسلوں، قوموں، طبقوں اور گروہوں کے فرزند
اسلام کا پرچم اٹھائے فاتحانہ انداز میں قدم بڑھائے چلے جاتے ہیں۔
ہاشمی،فاطمی، اموی، عباسی، سلجوقی، ترکی، عثمانی، افغانی،ایرانی اور مغل
خانوادے ، اسلامی تہذیب وتمدن کی پاسبانی کے فرائض اپنے اپنے وقت میں انجام
دیتے رہے۔ تاریخ میں ایسی فاتح اقوام کا تذکرہ ملتا ہے مثلا ترک اور مغل
جنہوں نے مسلمانون کو فتح کیا مگر اسلامی تہذیب و تمدن کی خصوصیات کو دیکھ
کر نہ صرف ان کا مذہب اور تمدن اختیار کر لیا، بلکہ اس کے بہت بڑے حامی
ومبلغ بن گئے ، یعنی افراد اسی طرح اسلامی تہذیب کے دائرے میں داخل ہوتے
گئے ،گویا ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور یہ سلسلہ ابد تک اسی طرح جاری رہے
گا، جبکہ دنیا کی دیگر تہذیبیں صرف ایک قوم یا ایک نسل کے سپوتوں کے
کارناموں پر فخر کر سکتی ہیں لیکن اسلامی تہذیب ان گنت قوموں اور نسلوں کے
ان تمام مشاہیر پر فخر کر سکتی ہے جنہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں
اسلامی تہذیب کا عالی شان محل تعمیر کرنے کی خدمت انجام دی ہے جیسے امام
بخاری، امام جعفر صادق، امام ابو حنیفہ، خلیل، سیبویہ، الکندی، فارابی، ابن
سینا،ابن خلدون، امام غزالی،ابن تیمیہ، رومی،سعدی، شیخ احمد سرہندی اور شاہ
ولی اﷲ سب کے سب مختلف قوموں اور نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں مگراسلامی تہذیب
و تمدن میں ہر ایک نے اپنی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق سرگرمیاں جاری رکھیں
ہیں جن کی بدولت تمام فرزندانِ اسلام ان نامور شخصیات کو فخر کے ساتھ یاد
کرتے ہیں ۔
سید ابو الحسن علی ندوی اسلامی تہذیب کے آفاقی، عالمگیری ، دینی ، دنیاوی
اور روحانی تصور کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتے ہیں’’دین میں دعوت و جدو جہد
کی چیز دراصل صحیح اور غیر فانی مذہب ہے جس کو اﷲ کے پیغمبر ہر ملک اور ہر
دور میں اور محمد رسول اﷲ ﷺ آخری اور دائمی طور پر لے کر آئے ، انہوں نے اس
کے ذریعہ سے انسانوں کو دنیا اور آخرت کی فلاح کا پیغام دیا، خالق سے ٹوٹا
ہوا رشتہ جوڑا، توحید ِخالص کا سبق پڑھایا، حساب کتاب کی اخروی زندگی کا
منتظر بنایا، نیکی اور بدی کے معین حدود بتلائے اور اخلاق و معاشرت و حقوق
باہمی کے وہ بے خطا اصول و ضوابط عطا کئے جن پر ہر دور میں حیات انسانی کی
تنظیم ہو سکتی ہے اور مدنیت صالحہ وجود میں آتی ہے، ان کے احکام پر عمل
کرنے سے خود بخود ایک زندگی پیدا ہوتی ہے جو افراط وتفریط اور ہر طرح کی بے
اعتدالیوں سے پاک ہوتی ہے، ایک معاشرہ قائم ہوتا ہے جو امن وسکون ، اطمینان
قلب، اشتراک وتعاون اور اعتدال و توازن کا بہترین نمونہ ہوتا ہے اس کی
بنیادیں ٹھوس لیکن اس کی فضا وسیع ہے ۔ اس میں فولادکی طرح بیک وقت صلابت
اور لچک دونوں موجود ہیں ‘‘(۳۸) یہ اسلامی تہذیب اقوام و ملل کی دولت ِ
مشترکہ ہے جس پر کسی کا کوئی قبضہ نہیں معاشرے کا ہر فرد ماقبل مذکورہ
اسلامی تہذیب کے اصولوں پر عمل کرکے اس تہذیب کے پرامن و کامل زندگی کا جز
و لاینفک بن سکتا ہے ۔
الغرض اسلامی تہذیب ہی ایک ایسی تہذیب ہے جس کو اختیار کر کے اقوام عالم اس
دنیا میں ترقی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکتی ہے۔اس
کے علاوہ دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں وجود میں آئیں وہ سب کی سب اسلامی
تہذیب کے مقابلے میں انتہائی کمزور ثابت ہوئی۔اسی وجہ سے موجودہ دور میں
اہل علم و دانشور حضرات کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ جدید دور میں اسلامی
تہذیب کی اہمیت و افادیت سے لوگوں کو آگاہ کر کے اس جہاں کے ہر ہر فرد کو
ہر قسم کی ناکامیوں سے بچایا جائے۔
مصادر ومراجع
۱۔ الزبیدی،محمدبن محمد بن عبدالرزاق،تاج العروس من جواھر القاموس، (باب
ھدب) الناشر:دار الھدبہ، ۳۸۵/۴
2. Pickthall, Marmaduke william, The cultural side of Islam (Islamic
culture) Sh Muhammad Ashraf, 1983, Pakistan, Page No.14
۳۔ سید عابد حسین، قومی تہذیب کا مسئلہ ، ترقی اردو بیور، نئی دہلی،
ستمبر۱۹۸۴ء،ص۱۱۳
۴۔ سبط حسین، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء، مکتبہ دانیال عبداﷲ ہاروں روڑ
کراچی، ۱۹۸۹ء،ص۱۳۔
۵۔ سموئیل پی ہنٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم،مترجم:محمد احسن بٹ،مثال پبلشنگ
لاہور،۲۰۰۳ء،ص۶۰
۶۔ ذکی المیلاد، تہذیبوں کے باہمی تعلقات مفاہمت ومذاکرات( مترجم، نکہت
حسین ندوی) انسٹی ٹیوٹ آف آئجیکٹیو اسٹڈیز، ۲۰۰۴ء، ص۲۸۔
7. Maulana Muhammad Ali,The Religion of Islam,The Ahmadiyya Anjuman
Isha' At Islam, Lahore, 1990,1/10
۸۔ سورہ علق،۱۔۵
۹۔ طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر،مکتبۃ ان تیمیہ القاہرۃ،الطبعۃ:
الثانیۃ، ۱۹۹۴ء،۱۳۳/۵
۱۰۔ دمشقی، ابوالفداء اسماعیل بن کثیر، البدایۃ والنھایۃ ، دار احیاء
التراث العربی، طبعہ اولی،۱۹۸۸،۳۶۸/۵
۱۱۔ آل عمران: ۱۶۴
۱۲۔ المجادلہ: ۱۱
۱۳۔ قرطبی، محمد بن احمد بن ابی بکر ، الجامع الاحکام القرآن، دار الکتب
المصریہ القاہرہ، ط :دوم، ۱۹۶۴ء،۲۴۰/۱۵
۱۴۔ تفسیر المنیر، وھبۃ الزحیلی،دار الفکر المعاصر دمشق،ط: دوم،۱۴۱۸ھ،
۲۶۰/۲۳
15. Ameer Ali, Syed, Spirit of Islam (Christophers 40 william IV Street
London, W.C. 1955) P. 361
۱۶۔ ناصر ، نصیر احمد،ڈاکٹر، اسلامی ثقافت، فیروز سنز لاہور، ص۵۶۷
17. Muhammad Saud, Islam and Evolution of science (Islamic research
Institute, International Islamic university Islamabad, 1 edition,1986,
Page,10
18. (Durant, will. The History of Civilization(The era of Faith).
Translated by Abul-Qasim Payandeh. 4th ed. Tehran: Iqbal Publications
and Franklin, 1343, p.52)
19. Robert Briffault, Making of Humanity, London: G. Allen and Unwin
Ltd.1919, P.189.)
۲۰۔ بخاری، محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری، باب ما جاء فی دعاء النبیﷺ،
دارطوق النجاۃ، ط اولیٰ،۱۴۲۲، ۱۱۴/۹،۔
۲۱۔ حلبی ، برھان الدین ، سیرہ حلبیہ، مترجم، محمد اسلم قاسمی، اردو بازار
کراچی،ط ۲۰۰۹ء، ۱۸۵/۱ ۔
۲۲۔ القشیری،مسلم بن الحجاج ،صحیح مسلم ،دار احیاء التراث
العربی،بیروت،۲۰۰۰/۴،حدیث نمبر۲۵۸۶۔
23. Muhammad Iqbal, The reconstruction of religious thought in islam,
Oxford university press London, Humphrey Milford,1934, Page No 147.
۲۴۔ ابن خلدون، عبدالرحمن ، مقدمہ ابن خلدون، مترجم، مولانا عبدالرحمن
دہلوی، دارالاشاعت، اردو بازار کراچی، دسمبر ۲۰۰۹ء،۴۲۴/۱،
۲۵۔ الحجرات:۱۳
۲۶۔ احمد بن محمد بن حنبل ،مسند الامام احمد بن حنبل،مؤسسۃ الرسالۃ،ط:
الاولی، ۱۴۲۱ھ،۴۷۴/۳۸
۲۷۔ بخاری، محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری،دار طوق النجاۃ،باب حدیث الغار،ط:
اولیٰ۱۴۲۲ھ،۴،/۱۷۵
۲۸۔ الحدید:۱۰
۲۹۔ آل عمران:۹۲
۳۰۔ البقرہ:۱۷۷
۳۱۔ النور:۳۳
۳۲۔ عبدالروف المناوی، فیض القدیر شرح جامع الصغیر،دار احیاء السنۃ
النبویہ، للطباعۃوالنشرو التوزیع، ۱۹۳۸،۴۸۱/۳
۳۳۔ الحشر :۵۹
۳۴۔ الدھر:۸
۳۵۔ النساء:۲۹
۳۶۔ ندوی، مولانا ابو الحسن علی،مذہب یا تہذیب،مکتبہ اسلام گوئن روڈ لکھنؤ،
۱۹۷۸ء،ص۹
۳۷۔ آل عمران:۶۴
۳۸۔ ندوی، مولانا ابو الحسن علی،مذہب یا تہذیب،ص۱۴۔۱۵
عثمانی،مولانا شبیر احمد، تفسیر عثمانی، دارالاشاعت کراچی۲۰۰۷ء۔(قرآنی
آیات کاترجمہ اس تفسیر سے لیا گیا ہے)۔
|
|