پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کراچی میں تین سو سے
زائد ملازمین گذشتہ آٹھ دن سے احتجاجاً دھرنہ دئے ہوئے ہیں،آخری اطلاعات کے
مطابق ملازمین کے احتجاج اور ڈٹے رہنے سے بوکھلا کر پولیس نے انتظامیہ کے
کہنے پر متعدد افراد کو جن میں خواتین بھی شامل ہیں حراست میں لے لیا تھا۔
ملازمین سے وابستہ ذرائع کے مطابق یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب 24 فروری
2010 کو ہوٹل انتظامیہ نے ایک مرتبہ پھر غیر قانونی اقدام کو دہراتے ہوئے
یونین کے مزید چار عہدیداروں کو ملازمت سے بے دخل کر دیا۔
ماضی میں ملازمت سے برطرفی کے کرب سے گزرے ہوئے ملازمین کو اس واقعہ کی
اطلاع ملتے ہی کشیدگی پیدا ہوئی جس نے آگے بڑھ کر احتجاج کی صورت اختیار کر
لی۔ نتجتاً ہوٹل کے اندر موجود تمام ورکرز نے گھر جانے سے انکار کردیا رات
کی شفٹ میں آنے والے ورکرز سمیت تمام ورکرز ہوٹل میں ہی دھرنا دے کر بیٹھ
گئے اور انہوں نے اعلان کردیا کہ جب تک انکے برطرف ساتھیوں کی برطرفی کا
غیر قانونی فیصلہ واپس نہیں لے لیا جاتا اس وقت تک وہ گھر نہیں جائیں گے۔
ہوٹل کی انتظامیہ نے اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے کئی مرتبہ طاقت کا
استعمال کیا لیکن ورکرز اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب
ہماری لاشیں ہی یہاں سے جائیں گی۔ پی سی ہوٹل کے یہ ورکرز پچھلے آٹھ دنوں
سے ہوٹل کے تہہ خانہ میں دھرنہ دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کراچی ورکرز یکجہتی کمیٹی کی ہنگامی میٹنگ میں شامل
مزدور رہنماﺅں نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرل
کانٹی نینٹل ہوٹل کراچی کے محنت کش گذشتہ آٹھ سالوں سے غیر قانونی طور پر
بر طرف کیے گئے ملازمیں اور اپنے اجتماعی سودا کاری کے حق کی بحالی کے لیے
جدوجہد کر رہے ہیں اور ان آٹھ سالوں میں ان ورکرز نے مملکت کا کوئی ایک
دروازہ بھی نہیں چھوڑا جہاں اپنے مسائل کے حل کیلئے رجوع نہ کیا ہو اور
اپنے اوپر ہونے زیادتیوں سے آگاہ نہ کیا ہو لیکن صد افسوس کہ کہیں بھی ان
محنت کشوں کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ہوٹل انتظامیہ کو مزدوروں پر
زیادتیوں سے روکا جا رہا ہے۔ ان رہنماﺅں نے وزیر اعلیٰ سندھ، وزیر محنت،
لیبر ڈائریکٹر، لیبر سیکریٹری سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر اس معاملے
میں مداخلت کی جائے اور PC ہوٹل کراچی کے برطرف ملازمین اور ان کے اجتماعی
سودا کاری کے حق کو بحال کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا جائے۔
پی سی ہوٹل کے برطرف ملازمین اور ان کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 7برسوں
پر محیط تحریک کے دوران پی سی ہوٹل سے برطرف کئے گئے کئی ملازمین کو موت نے
اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے، لیکن وہ آج بھی اپنے اور برطرف کئے گئے باقی
350ملازمین کی بحالی کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزرے دنوں کا
احوال سناتے ہوئے ملازمین کا کہنا تھا کہ پی سی ہوٹل کراچی کی انتظامیہ نے
یونین سازی کی پاداش میں جن 350ملازمین کو برطرف کیا تھا ان میں 45خواتین
بھی شامل تھیں جو ہاﺅس کیپنگ، فوڈ اینڈ بیوریج، گیسٹ ریسپشن اور ہیلتھ کلب
میں 6 تا 7سالہ سروس کر چکی تھیں۔ جب کے مرد ملازمین میں کئی ایسے بھی ہیں
کہ جن کا عرصہ ملازمت 8 تا35 سال پر محیط ہے۔ اپنی جدوجہد کی سچائی اور
انتظامیہ کے غلط ہونے کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ لیبر کورٹ اور ہائی کورٹ
سے بھی ہمارے حق میں فیصلہ دیا جا چکا ہے۔
ملک بھر میں سات شاخوں پر مشتمل پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں 3ہزار کے قریب
ورکرز کام کرتے ہیں افسران ان کے علاوہ ہیں۔ ہوٹل انتظامیہ نے ہوپ اور ہاشو
فاﺅنڈیشن کی جانب سے دو این جی اوز بنا رکھی ہیں جو معاشرے کے مظلوم طبقات
کو تعاون کا یقین دلاتی ہیں لیکن ملازمین کی محنت اور جانفشانی کے عوض حاصل
ہونے والی آمدن سے سالانہ 10کروڑ روپے سے زائد عطیات کی مد میں وصول کرنے
والے ادارے انسانی بنیادوں پر بھی ہمارے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔
انسانی حقوق کا پرچار کرنے والوں کو اپنے ہی ڈونر ادارے میں ہونے والا ظلم
کیوں نظر نہیں آیا؟
ان این جی اوز کے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ گروپ سربراہ کے کی بیٹیوں اور
دیگر رشتہ داروں کی سرکردگی میں چلنے والی یہ این جی اوز بھی اپنی خدمات کی
آڑ میں ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو ہوٹلوں کے شعبہ سروسز میں نوکری
کا کہہ کر ان سے چند ماہ کی ٹریننگ کے عوض ۳ ہزار روہے سے زائد فیس وصول
کرتی ہیں، اس دوران مذکورہ نوجوانوں کو جو ملازمت ملنے کی امید میں مشکل سے
یہ فیسیں ادا کرتے ہیں گروپ کی ملکیت ہوٹلوں میں مختلف کاموں پر لگا دیا
جاتا ہے جس کے عوض انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا، دوسری جانب تربیت کا عرصہ
مکمل ہونے کے بعد انہیں ملازمت بھی نہیں دی جاتی۔ ملازمین نے گزرے ساتھ
برسوں کے متعلق بتایا کہ یونین سازی کی پاداش میں ان کی قیادت میں شامل
افراد میں سے 5جوائنٹ سیکرٹری بشیر حسین، چئیرمین علی مراد، خواتین کی نائب
صدر نسرین رشاد، خزانچی نور ولی شاہ ملازمت سے برطرف ہیں جب کہ یونین کے
صدر محمد ناصر اور سوشل سیکرٹری محمد نواز جبری رخصت پر ہیں۔
ملازمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اکثر ملازمین کو نکالتے وقت نہ تو نوٹ سدئے
گئے تھے اور نا ہی ان کے خلاف کوئی چارج شیٹ پیش کی گئی جو خلاف ضابطہ ہے۔
بعد میں انتظامیہ سے پوچھنے پر بتایا گیا کہ ملازمین کے اخراج کا سبب صحیح
طرح سے کام نہ کرنا ہے، یہ بات کسی نئے ملازم کے متعلق تو کہی جا سکتی ہے،
لیکن جو ملازم ایک ادارے میں پانچ تا پندرہ برسوں سے کام کر رہا ہو اسے اس
الزام کے تحت نکالنا سمجھ سے بالاتر ہے ماسوائے اس کے کہ یہ بات بہانے کے
طور پر سامنے رکھ کر اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔ |