قلم کی طاقت،اہمیت اور افادیت
سماجی،سیاسی،معاشی ،انتظامی سمیت قومی مفادات کے حامل بنیادی کردار کی
حیثیت رکھتی ہے ۔آج ورثہ میں سماجی ،سیاسی،معاشی اور انتظامی نا ہمواری اور
فرضی جمع تفریق سے ہماری گذرگاہ ہے اس کا احاطہ، احتساب ، ازالہ کرنے کے
لئے ہوشمندتحقیقاتی صلاحیت رکھنے والے ادیبوں،شاعروں،دانش مند قلمکاروں کو
میدان عمل میں نکل کر قوم کو درست ،پائیدار اور تیز رفتار سفر کے لئے ہمراہ
منزل کرنا لازم ہو چکا ہے ۔قلم کے شہزادوں کو ان کے کردار اور اہم قومی
امور میں سرگرم قلمی جہاد میں قدم رکھنے کے لئے بے تیغ و کفن قائدانہ
صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی از بس ضرورت ہے۔اس سمت اکادمی ادبیات کوئٹہ
بلوچستان کے زیر اہتمام دو روزہ قومی کانفرنس بنام ــ( امن کے لئے ادیب کا
کردار) کے افتتاحی تقریب سے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے
خطاب کرتے ہوئے ادیبوں ،شاعروں اور دانشمندوں پر زور دیا کہ وہ اپنی
تحریروں اور تخلیقات کے ذریعہ معاشرے سے انتہا پسندی کے ناسور کے خاتمہ میں
تاریخی کردار ادا کریں۔دانشور اور قلمکار اپنے قلم اور علم و دانش کو بروئے
کار لاکر نوجوانوں کی درست رہنمائی کر سکتے ہیں۔آج ہمارا معاشرہ مختالف
اقسام کی انتہا پسندی کی ذد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ادیب اور دانشور معاشرے
کے حساس لوگ اور اہم حصہ ہیں ۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ادیب و دانشور قلم کی
طاقت سے محبت ،جنگ اور جبر جیسے موضوعات پر بے خوف و خطر کود پڑتے ہیں ۔یہی
عظیم المرتبہ قلم دان سیاستدانوں سے لیکر عام شہریوں تک حقیقت پسندی کا
شعور دیتے ہیں ۔انسانی وسائل کی ترقی،تاریخی قلمبندی،شعوری آگاہی اور
معاشرتی استحقام میں قلمی شہزادوں کا انمول کردار ہے ۔جو سیاستدان عروج و
زوال سے نبرد آزماء ہوتے ہیں ان کے دنیا سے جانے کے بعد انہیں لوگ کچھ عرصہ
بعد بھول جاتے ہیں مگر انہیں قلمکار ہی قرطاس پر لا کر زندہ رکھتے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے جس تخیل اور فکری لام بندی کی جانب قلمکاروں کو ان
کی حیثیت و اہمیت سے نوازہ ،ذمہ داری اور پیشبندی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے
انہوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کر کے تاریخی خطابات اور قومی ذمہ داریوں سے
جہاں ہمیں جگایا وہیں انہوں نے معاشرے کے نوجوانوں ،سیاست کاروں اور
منتظمین کو بھی مدہوشی سے نکلنے کی دعوت دی ہے ۔آج ہم جن مسائل ،مصائب ،مشکلات
،سانحات،جہالت و دہشتگردی جیسے حالات سے دوچار ہیں ان سے راہ فرار ،چشم
پوشی اور نظر اندازی کسی بھی لحاظ سے نجات کا راستہ نہیں ۔جس معاشرتی سطح
سے ہمارا گذران ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ہمیں حقائق سے پیش آمدہ حالات کا
مقابلہ کرنے کی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کا ر لانا ہوگا۔
بلا شک و شبہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے قومی اہمیت کے حامل اہم شعبہٗ صحافت
کو ان کی قومی ذمہ داریوں سے آگاہ کر کے فکری لام بندی کا موقعہ فراہم کیا
ہے ۔سچی بات یہ ہے کہ سچ کہنے والے کی قدر نہ کرنے والوں کے سامنے
دانشورانہ اور تخلیقانہ شعوری مہم جوئی کس لائق۔۔؟ یہی لوگ جو خود معاشرتی
زوال میں مبتلا ہیں انہیں جگانے ،چلانے اور متحرک کرنے میں جب تک سیاسی و
معاشی سطحوں پر دیگر اہم شعبوں کی ہمراہی نہیں ہوتی تب تک ایسا ممکن نہیں
کہ پتھر پر پھولوں کی آبیاری ہو سکے ۔بد قسمتی سے ملک بھر میں کسی قلمکار
کو تحفظ نہیں اور نہ ہی انہیں کہیں بھی کردار ادا کرنے کے لئے وسائل موجود
ہیں ۔وزیر اعلیٰ نے حقیقت میں اہم نکتہ پر تاریخی کلمات کا اظہار کیا ہے جس
کو عملی شکل دینے کے لئے قومی سطح پر غوروفکر کرنا ہوگا۔اب ضرورت اس امر کی
ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت آذادکشمیر و گلگت و بلتستان کی حکومتیں
بجٹ سازی میں اس جانب توجہ دیکر ادیبوں،شاعروں اور صحافیوں کیلئے اہم
اقدامات شامل کریں تاکہ قلمی دنیا سے منسلک شخصیات آگے بڑھ کر اپنا قومی
کردار ادا کر سکیں۔
حیران کن انکشاف کرتے ہوئے نظر اندازانہ صورتحال سے آگاہی ضروری ہے۔راقم نے
ایک مرتبہ دہشتگردی کے عنوان سے ایک کالم تحریر و شائع کیا تو صرف بارہ
گھنٹے کے اندر کسی نامعلوم نے فون کال کر کے کہا کہ اگر آئیندہ ایسی تحریر
سامنے لائی گئی تو پھر اپنے انجام کے لئے تیار رہو۔۔!!! آج تک کسی بھی
اشاعتی ادارے میں سیکیورٹی کا کوئی میعاری انتظام نہین اور نہ ہی کسی صحافی
کے تحفظ اور اس کی نقل و حمل میں درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے کوئی
سیکیورٹی کا خیال رکھا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کے قتل کی وارداتوں کا
سلسلہ جاری ہے ۔ایسے حالات میں حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تحفظ کیلئے
موثر اقدامات کرنے میں تاخیر نہ کرئے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان نے مستقبل کے
خطرات کا ادراک کرتے ہوئے لائق تحسین خطاب کیا جس سے اس اہم شعبہٗ کو متحرک
کرنے اور درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات کی شروعات بھی بلوچستان
سے ہونا لائق فخر اور دیگر صوبائی حکومتوں کیلئے لائق تقلید ہو گی۔وزیر
اعلیٰ بلوچستان کو انہی کے خطاب کے ردعمل میں قومی و تمام صوبائی حکومتوں
کی خدمت میں ایک شاعر کی فکری کلمات پیش ہیں ۔
خواہش سے نہیں گرتے پھول جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا
ہم قلم کار اپنے فرائض سے عہدہ برا ہونے کیلئے کسی بھی مشکل تر حالات کے
باوجود اپنی قومی ذمہ داریوں کی بجا آوری کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔صداقت اور
امانت کے جذبوں کے سائے میں حق گوئی کا سفر جاری رکھنے کا اظہار یکجہتی
کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کے ذمہ داران اس حساس ،اہم اور کلیدی کردار سازوں
کو ہمسفر رکھتے ہوئے تحفظات کو پیش نظر رکھیں گے۔یقینی طور پر اس کے دیرپا
اور مفید تر نتائج ہماری قومی منزل کے لئے معاون و کارآمد ثابت ہونگے۔ |