برمی مسلمان اور امت مسلمہ

مشرقی تیمور نے1999میں انڈونیشا سے آزادی حاصل کی جو کہ پہلے Portuguese colonial ruleمیں تھا اور اسمیں ایک درمیانے درجے کی عوامی تحریک چلی اور عوام نے28نومبر 1975کو آزادی کا علان کرتے ہوئے اسکے اہم ترین شہر diliکو دارالخلافہ بنایا۔اس وقت مشرقی تیمور انتہائی اندرونی عدم استحکام کا شکار تھا تب بد قسمتی سے تیموری قیادت نے(کشمیریوں کی طرح) اپنے پڑوسی ملک انڈونیشیا سے ملکی استحکام میں مدد کی استدعا کی ۔تو 7دسمبر1975کوایک معائدے کے تحت انڈونیشین آرمی مشرقی تیمور میں داخل ہو گئی (بلکل ایسے ہی جیسے اکتوبر1947میں انڈین آرمی کشمیر میں داخل ہوئی تھی)انڈونیشین آرمی نے وہاں لا اینڈ آرڈر کو کنٹرول کیا جبکہ انکے مشرقی تیمور میں آنے پرکئی گروپس نے انکے خلاف بھی عسکری جدوجہد شروع کر رکھی تھی لیکن انہوں نے ان چھوٹی بڑی تمام بغاوتوں کو کچل کہ رکھ دیا۔اور 1979میں وہاں ایک اسمبلی کی بنیاد رکھی تو ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا (بلکل ایسے جیسے 1950میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی بنیاد رکھے جانے کے وقت تنازعہ اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا تھا)ان خراب ترین حالات کے باوجود کہ تیموری آزاد مملکت چاہتے تھے اور حق خودارادیت کی تحریک جاری رہی اور انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کو اپنا صوبہ ڈیکلیر کر دیااور اس علان کے بعد تحریک میں مذید شدت آئی ۔ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ ،ٹارچر سیلوں ،عقوبت خانوں میں ماورائے عدالت ہلاکتیں اور قید وبند کا ایک لامتنائی سلسلہ چل نکلااور پوری دنیا بھی انکے ساتھ کھڑی ہو گئی بالآخر پچیس برسوں کی کٹھن جدوجہد کے نتیجہ میں انڈونیشیا کوتیموری عوام کوان کا حق خود ارادیت دینے پر مجبور ہونا پڑھا اور پھر1999میں ہونیوالے ریفرینڈم میں تیموری عوام نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا اور2002میں مشرقی تیمور کو ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی ممبر شپ دیدی گئی ۔

برما جسے عام طور پر پر میانمر کہا جاتا ہے جبکہ سرکاری طور پر اسے رپبلک آف یونین آف میانمر کہتے ہیں ،جسکی سرحدیں بھارت ،بنگلا دیش، چین، لاوس اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں جسکی 1930کلومیٹر طویل ترین سمندری حدود بنگال کیساتھ ساتھ جزیرہ انڈمن تک جاتی ہے ۔ میانمر کا کل رقبہ 261227مربع میل ہے اور یہ دنیا کا چالیسواں بڑا ملک ہے اور ایشاء کا دوسرا بڑا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے چوبیسویں نمبر پر ہے اور اسکی کل آبادی 60،28ملین لوگوں پر مشتمل ہے ۔میانمر نے 4جنوری 1948میں آزادی حاصل کی تب سے اسکے اندرونی حالات انتہائی خراب رہے حکومت وقت اور ایتھنک گروپس میں چپقلیش سول وار میں تبدیل ہو گئی اور اسکے نتیجہ میں 1962میں ملکی فوج اقتدار پر قابض ہو گئی ۔اور انکا یہ اقتدار 2011تک رہا اور آرمی نے 2010میں پہلی بارجنرل الیکشن کروائے اور اقتدار سول حکومت کے سپرد کیا۔

میانمر قدرتی وسائل سے بھرا پڑا ہے مگر فوجی اقتدار اور بین الاقوامی پابندیو ں کے باعث اسکی اقتصادی ترقی نہ ہونیکے برابر ہے جسکے باعث ملک میں معاشی بدحالی ،بدعنوانی اقربا پروری عروج پر ہے اور ملک کسی بھی شعبے میں ترقی نہ کر سکا تعلیم اور صحت کے حوالے سے تو بلکل بھی نہیں ۔اور پھر غربت وافلاص کے باعث ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک معمول بن چکی ہیں چائلڈ لیبر انسانی سمگلنگ عام ہے جبکہ تحریر و تقریر کی آزادی برائے نام بھی نہیں رہی ہے ۔میانمر کئی مذاہب اور فرقوں پر مشتمل قوم ہے۔یہاں مختلف فقہ پر مشتمل 89%آبادی بدھ مت کے پیروکار ہیں جبکہ مسلم اور عیسائی صرف چار چار فیصد آبادی رکھتے ہیں ۔مسلم و عیسائی انتہائی قلیل تعداد میں ہونے کے باعث ہمیشہ امتیازی سلوک کا شکار رہے ہیں ۔بالخصوص مسلمانوں کے لئے ملکی افواج سمیت گورنمنٹ ملازمت کا حصول کٹھن ہی نہیں ناممکن ہے جبکہ ایک حکمت عملی کے تحت ان کے لئے تعلیم کو شجر ممنوع قرار دیا گیاجس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ اب یہ اقلیت باقی ماندہ سوسائٹی کے لئے قطعی نا قابل قبول مخلوق بن چکی ہے ۔ان بے پناہ مسائل سے تنگ آ کر گزشتہ بیس برسوں میں بیس لاکھ برمی مسلمان وہاں سے ہجرت کر کے بنگلا دیش میں آکر آباد ہوئے ۔میانمر کی بڈسٹ اکثریت نے وہاں کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اورانہیں اگر زرہ برابرشک ہو کہ کسی بھی علاقے میں کوئی حق حقوق کی بات کی جا سکتی ہے تو اس علاقے پر قیامت بپاہ کر دی جاتی ہے ۔صرف گزشتہ سال میں برما میں بچوں عورتوں اور ضیعف مردوں اور نوجوانوں پر مشتمل بیس ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے۔اور ۳۰۰۰ہزار گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دئے گئے لیکن دنیا بھر میں کسی ایک بھی انسانی حقوق کی تظیم یا فرد نے ماسوائے ترک حکومت کے لب کشائی نہ کی اور پوری دنیا کا میڈیا خاموش ہے ایسا لگتا ہے جیسے برمی مسلمان اس دنیا کی نہیں کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ پچیس برسوں کی تحریک کے نتیجہ میں مشرقی تیمور کو حق خود ارادیت مل جاتا ہے کشمیر کو سڑسٹھ برسوں میں نہیں ملتا ،،ایسا کیوں؟ کسی ملک میں چند عیسائی حقوق کی بات کریں تو پوری دنیا انکے پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے اگر مسلم اپنا حق مانگے تو اسے گولی ملتی ہے ایسا کیوں ؟اگر کوئی مسلم ملک سے آزادی چاہیے تو فوراً دنیا اسکے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے مگر جب مسلم کے حق آزادی کو صلب کر لیا جاتا ہے تو دنیا بھر کے آزادی پسند خامشی اختیار کر لیتے ہیں ایسا کیوں ؟مسلم ملک سوڈان تقسیم ہونا چاہے یا پاکستان بنگلا دیش بننا چاہے تو امریکہ سمیت پورا مغرب اس کے حق میں بات کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن فلسطین اور کشمیر آزادی چاہیں تو سب گونگے بہرے ہو جاتے ہیں ایسا کیوں ؟کسی کا ایک ریمنڈ ڈیوس سرعام قتل کرتا پھرے تو ٹھیک اور اگر پولیس دھر لے تو پورا امریکہ اسکی مدد کیلئے دنیا بھر کے اخلاقی اور انسانی قوانین کی دھجیاں اڑاتے اسے لے جاتا ہے مگر عافیہ صرف بندوق اٹھائے تو اسے اسی سال سزا ،،،ایسا کیوں؟اگر لاہور مال روڈ پر گوروں کے ساتھ جوان پاکستانی لڑکیوں اور لڑکوں کو میراتھن سے روکنے کی بات کی جائے تو عاصمہ ننگے سر مال روڈ پر پولیس کی لاٹھیاں کھانے کو تیار ہو جاتی ہے مگر بلوچستان میں ماورائے عدالت ہزاروں بلوچوں کے قتل عام پر خاموش اور ہزاروں جوانوں کو غائب کر دینے اور انکی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے پر انکے ماتھے پہ زرہ برابر بل نظر نہیں آتا ایسا کیوں؟ایک اورا ہم سوال یہ ہیکہ اس دنیا میں 58مسلم ممالک ہیں اگر یہ واقعی مسلم ممالک ہیں تو پھر بتائیں عرصہ درازسے برمی مسلمانوں پر جو قیامت برپا ہے اور وہ جس کٹھن دور سے گزر رہے ہیں اسکے باوجود کہ مسلم امہ کو ایک جسم کہا گیا ہے تو باقی ماندہ جسم کو درد محسوس نہیں ہوا؟آخر کیوں؟ ان تمام کے ہونٹ سلے ہیں ۔آخر کیوں؟ کیا اسلام کے معنے بدل گئے ہیں یا اسکے ماننے والوں نے کسی اور کی اطاعت قبول کر لی ہے؟
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 74968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.