پاکستان میں پھر رمضان ایک ساتھ
شروع نہ ہو سکا۔خیبر پختونخواہ میں بھی کچھ لوگوں نے 18جون بروز جمعرات اس
ماہ مبارک کی ابتدء کی اور کچھ نے 19جون جمعہ کے روز سے۔ یہ مسئلہ نیا نہیں
لیکن آخر ایسا ہے کیوں کچھ تو غلط ہے اور دونوں طرف سے ہے ایک فریق کو بھی
بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم دینی
فرائض میں بھی میں اور تو کا شکار ہیں ،عقائد کو تو ہم نے جنگ و جدل اور
فرقہ پرستی کی نظر کر ہی دیا ہے ہر ایک اپنے عقیدے کو درست اور دوسرے کو
غلط قرار دے رہا ہے جبکہ بنیادی طور یہ عقائد بھی ایک ہی ہیں یعنی ایک خدا
ایک رسول ﷺ ایک قرآن ایک کلمہ لیکن پھر بھی اختلافات کو ہوا دے دے کر ہر
فرقے کو الگ مذہب بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو دوسرے کو برداشت کرنے
کوتوکیاتیار ہوں ہاں ہر وقت کفر کا ایک فتویٰ تیار رہتا ہے جو دوسرے فرقے
پر لاگو کردیاجاتا ہے۔ یہی حال رویت ہلال کے وقت بھی ہوتا ہے ملک میں مرکزی
رویت ہلال کمیٹی موجود ہے لیکن متوازی رویت ہلال کمیٹی بھی سالہاسال سے
اپنا کام کررہی ہے اور فیصلہ ہمیشہ دونوں کمیٹیوں کا مختلف ہوتا ہے یہ
اختلاف دونوں طرف سے موجود رہتا ہے۔ یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر
ہماری حکومت اور سرکاری رویت ہلال کمیٹی اپنی ساکھ اتنی مضبوط بنا لے اور
اپنے فیصلے بے داغ رکھے کہ لوگ اس پر یقین کر سکیں تو انہیں دوسروں کی طرف
دیکھنے کی ضرورت ہی نہ رہے لیکن معذرت کے ساتھ اگر ان کے فیصلوں میں،
جانبداری یا پسند نا پسنداور ایک صوبے کی گواہی کو اہمیت نہ دینے کا رویہ
موجود رہے توہم خود ہی نفاق کا بیج بو دیتے ہیں دوسری جانب مسجد قاسم علی
خان میں بیٹھی ہوئی رویت ہلال کمیٹی جو کہ غیر سرکاری ہے نے اپنا فرض سمجھا
ہوا ہے کہ اس نے باقی ملک سے ایک دن پہلے رمضان اور ایک دن پہلے عید کرنی
ہے، اسے نہ اس کے لیے حکومت کی طرف دیکھنا ہے نہ عوام کی طرف اس بار بھی
ایسا ہی ہوا ۔اگرچہ پشاور کے باسیوں نے اگلے دن چاند کافی دیر تک آسمان پر
دیکھنے کا دعویٰ کیا۔ اس بار زیادہ تر گواہیاں دتہ خیل، بنوں اور آس پاس کے
علاقوں سے آئیں اور تقریباً ہر سال ایسا ہوتا ہے شہادتیں موصول ہوتی ہیں
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شہادتیں شرعی لحاظ سے درست قرار پائیں اور چاند نظر
آنے کا اعلان کردیا گیا دوسری طرف سے یعنی حکومتی رویت ہلال کمیٹی بھی
اعلان کرتی ہے کہ یا تو شہادت موصول ہی نہیں ہوئیں یا اگر ہوئیں بھی تو
شرعی لحاظ سے درست ہی نہیں پائیں گئیں اور پشاور سمیت خیبر پختونخواہ کے
کچھ لوگ تو روزہ رکھ لیتے ہیں اور کچھ نہیں لیکن سوچتے ضرور رہ جاتے ہیں کہ
کون درست تھا اور کون غلط۔
چاند ایک مادی شے ہے اور اس کے طلوع وغروب کے اوقات بھی مقرر ہیں، صرف اتنا
ہے کہ کبھی یہ انتیس اور کبھی تیس دن کے بعد دوبارہ طلوع ہوجاتا ہے لیکن ہم
اس ایک دن پر متفق نہیں ہو پاتے اور مسلمان جو پہلے ہی تفرقے کا شکار ہیں
یوں بھی بٹ جاتے ہیں۔اگر اس معاملے کا جغرافیائی محل وقوع سے تعلق ہے یعنی
کہ کچھ علاقوں میں اگر چاند واقعی پہلے نظر آتا ہے تو کیوں ان علاقوں کی
گواہیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور چاند دیکھنے کا اعلان نہیں کیا جاتا
اور کبھی کبھی تو اعلان میں فرمادیا جاتا ہے کہ کن کن علاقوں سے شہادتیں
آئیں اور کن کن کو تسلیم کیا گیا جس سے ظاہر ہے کہ دلوں میں شک اور ناراضگی
کا بیج بو دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مسجد قاسم علی خان میں بیٹھی کمیٹی بھی
قومی کمیٹی کے ساتھ کسی قسم کے رابطے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ خود ہی اعلان
کر دیا جاتا ہے۔
یہاں حکومت سے بھی یہ سوال ہے کہ کیوں نہ قومی کمیٹی کے ممبران اور قیادت
میں کچھ تبدیلی کی جائے اور یہی کچھ مسجد قاسم علی خان میں بھی ہو تو شاید
نہیں یقیناًبہتری کے کچھ آثار پیدا ہونگے۔ اگرچہ شرعی لحاظ سے دو روزوں اور
دو عیدوں میں کوئی حرج یا قباحت تو نہیں کیوں کہ اس کا تعلق چاند کے نظر
آنے یا نہ آنے سے ہے اور پورے عالم اسلام کے وسیع و عریض علاقے میں تو ایسا
ہرگز ممکن نہیں لیکن ایک ملک میں تو ایسا ہر صورت ممکن بھی ہے اور ہونا بھی
چاہیے کیونکہ اگر حکومت ایک ہے تو اس حکومت کے تحت ایسے اہم معاملات تو کم
از کم اتفاق رائے سے طے ہوں تاکہ تہواروں کو قومی یکجہتی کے لیے استعمال
کیا جا سکے نہ کہ نا اتفاقی اور جگ ہنسائی کے لیے۔ اس کے لیے پہلے مفتی
منیب الر حمان اور شہاب الدین پوپلزئی کو اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے ورنہ
قوم کو بانٹنے میں ان کا کردار ہمیشہ منفی انداز میں یاد کیاجائے گا۔ رمضان
محبت، امن اور بھائی چارے کا مہینہ ہے اور اس کو اسی مقصد کے لیے استعمال
کرنا چاہیے نہ کہ تقسیم اور نااتفاقی کے لیے۔ اسے انا کی جنگ نہیں مذہبی
فریضہ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے اورجو اسے اپنے ذاتی مقاصد یا خواہشات کے لیے
استعمال کرنا چا ہیں انہیں ایسا کرنے سے بہر صورت روکنا ہوگا۔ |