ہندو بنیا بھی ماہ رمضان میں اشیاسستی بیچتا ہے لیکن پاکستان میں…… ؟
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
ویسے تو پاکستان بننے سے لیکر آج
تک عوام پاکستان کو کسی بھی حکومت کی سرف سے حقیقی ریلیف تو درکنار بنیادی
سہولیات دینے کی بھی توفیق نہ ہوسکی اورپی پی پی حکومت کاپانچ سالہ دور تو
نیم چڑھا کریلا ثابت ہوا ہے اور عوام تو ویسے بھی ان معاملات عادی ہو چکی
ہے اس لئے بے حسوں پر بے حس لوگوں کی حکومت چلی آرہی ہے ۔نئی حکومت نئی
مہنگائی نیارمضان اور نیا طوفان پھر سے بے بس عوام کیلئے بہت بڑا صبر کا
امتحان۔ اب ماہ مقدس رمضان ہمارے درمیان موجود ہے رمضان میں معاملات اور
معمولات روز مرہ سے ذرا ہٹ کر ہوتے ہیں اور لوگوں کی کوشش اور خواہش ہوتی
ہے کہ سحری و افطاری ذرا واہ واہ اہتمام سے کی جائے کہ اس کا ثواب بھی
زیادہ ہوگا اور کئی گنا ہوگا۔ لیکن کیا کیا جائے مہنگائی بلکہ خود ساختہ
مہنگائی کا کہ ذ خیرہ اندوزوں نے ذخیرہ شدہ اشیائے خوردونوش مارکیٹ میں
لانا شروع کردی ہیں اور ریٹ بھی بڑھا دیئے ہیں تاکہ ماہ رمضان میں روزہ
داروں کی کھال تو الٹی اورکند چھری سے اتاری جائے-
ایسا صرف وطن عزیز پاکستان میں ہی ہوتا ہے جبکہ دیگر مسلم ممالک حتی کہ
انڈیا میں بھی احترام رمضان میں ہندو بنئے بھی ریلیف دے دیتے ہیں اور
اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں۔یعنی ہندو اور بنئے کی کنجوسی اور
بے ایمانی بھی ماہ رمضان کی بدولت ایک سائیڈ پر رکھ دی جاتی ہے اور یہ لوگ
بھی مسلمانوں کے اس ماہ مقدس میں اپنی تمام چالاکیوں اور مکاریوں کو پس پشت
ڈالتے ہوئے انتہائی ارزاں نرخوں پر اشیائے خوردونوش بیچتے ہیں اور ثواب میں
بھی اپنا حصہ سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں۔ رہی بات
پاکستان کی تو چونکہ اس ملک میں ہر بات اور ادا کی کل نرالی ہوتی ہے اس لئے
ناتو حکومتی ادارے اس کا سد باب کرتے ہیں اور نہ ہی ارباب اقتدار اس کیلئے
کوئی ٹھوس لائحہ عمل بناتے ہیں بس رسمی اور روایتی پرائس کنٹرول کمیٹیاں
بنا کر پہلے دو چار روز میں ’’ڈرامہ‘‘ رچاکر عوام کو میٹھی گولی دے کر
دکانداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے
اصل مسئلہ جو زیادہ گھمبیر اور خطرناک ہے وہ ہے ملاوٹ اور دو نمبر اشیاء کی
فروخت ،کہ چلو جیسے تیسے کرکے کڑوا گھونٹ بھر کے عوام مہنگے داموں سامان
افطار و سحر خرید لیتے ہیں لیکن جب انہیں اشیا ملاوٹ شدہ اورغیرمعیاری ملیں
تو پھر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے یعنی کہ یوں ہوتا ہے کہ مرچوں میں لکڑی
کا برادہ تو چینی میں اراروڑ،پتی میں چنے کے چھلکے ملائے جاتے ہیں تو چاول
میں باجرہ اور پتھر، دالوں میں ملاوٹ ہے تو کہیں مصالحوں میں کیمیکل اور
مضر صحت اشیا کا استعمال کھلے عام ہورہا ہے۔کالی مرچوں میں مختلف پھلوں کے
بیج پیس کر ملادیئے جاتے ہیں۔حفظان صحت کی دھجیاں اڑانے والے گھی کی فروخت
ہو کہ بیکری کی پروڈکٹس جن میں ناقص میٹریل اور گلے سڑے انڈے استعمال ہوتے
ہیں۔ مٹھائیوں میں کیمیکل ملا گھی اور سکرین کا بے دریغ استعمال کینسر اور
پیٹ کے امراض کا موجب ہیں۔بیمار اور کمزور جانوروں کا گوشت بلکہ کبھی کبھار
مردہ جانوروں کا گوشت فروخت کرنا اپنا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
ہر کوئی پریشان ہے کہ پہلے تو مہنگائی ہی قابو نہیں ہو رہی اب چیزیں خریدو
تو وہ بھی ناقص اورمضر صحت۔ کوئی پرسان حال نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں
افسران اور متعلقہ افراد اپنے اپنے خزانے بڑھانے اور تجوریوں کو بھرنے کے
چکر میں غلطاں و پیچاں نظر آتے ہیں۔ ملاوٹ مافیا کا قلع قمع اور اس کے سد
باب کیلئے حکوت نے پیور فوڈونگ بنایا اور اس میں بھی سفارشیوں اور نا اہل
لوگوں کی ملاوٹ کردی کہ جب میٹرک پاس لوگ فوڈانسپکٹر تعینات ہونگے پھر
توخوراک کی پیوریفیکیشن کی خیر نہیں یعنی جن لوگوں نے انسپیکشن کرنی ہے ان
کی تو خود انسپیکشن اور نہ جانے کیا کیا کرنے کی ضرورت ہے یہ لوگ تو صرف
مار ڈھار کیلئے بطور کماؤ پوت مقرر کردیئے جاتے ہیں کہ خود بھی کھاؤ اور
ہمارے لئے بھی لیتے آؤ۔ یہی وجوہات ہیں کہ ہمارے ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے
ہیں کوئی دل کا مریض ہے تو کوئی جگر کے کینسر میں مبتلا۔ کسی کو پھیپھڑوں
کی بیماری ہے تو کوئی گردوں کے عارضے میں حکومتی پالیسیوں کو کوسنے دے رہا
ہے-
محترم ! پہلے تو کسی ملاوٹ کرنیوالے کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی نہیں کہ سب
’’اپنے‘‘ ہیں کونکہ یہ ہر ماہ کی مقررہ تاریخ پر ’’مٹھائی بغیر ملاوٹ‘‘
پہنچا دیتے ہیں اس لئے ان کو ’’چھیڑنے‘‘کا مطلب ’’اپنی روزی کا خاتمہ ‘‘ہے
اس لئے ان کو نہ تو کوئی محکمہ پوچھتا ہے اورنہ ہی کوئی محکمہ دار۔ تمام
نمونے ہمیشہ پاس کردیئے جاتے ہیں اور اگر غلطی سے بھتہ نہ پہنچنے کی بنا پر
سیمپل فیل کردیا جائے تومجسٹریٹ تک رپورٹ پہنچنے سے پہلے ہی جنوبی پنجاب کی
اکلوتی پبلک انالسٹ لیبارٹری میں جوڑ توڑ شروع ہوجاتی ہے کیونکہ اﷲ تعالی
نے ہر شخص کی روزی کا بندوبست بھی تو کرنا ہوتا ہے(استغفراﷲ) اور پھر وہی
پرانی اور فرسودہ قوانین پر مشتمل انکوائری رپورٹ تیار کی جاتی ہے جوکہ’’
فضل ربی‘‘ کی وجہ سے اکثر کلئیر کر دی جاتی ہے اور اگر بالفرض محال وہاں
بھی دال نہ گلے تو پھر مجسٹریٹ تک پہنچنے کے بعد نا ہونے کے برابر جرمانہ
کر دیا جاتا ہے جسے وہ دکاندار بخوشی ادا کرنے کے بعد پھر لوگوں کیلئے موت
کا سامان کر نے میں ایمان و جان سے جت جاتا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ اس
سارے پروسس کے دوران تمام ممنوعہ اشیاء اسی طرح سے مسلسل اورتواتر سے فروخت
کی جارہی ہوتی ہیں۔کوئی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آتی صرف اپنے ریٹ بڑھانے
کیلئے افسران کی دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ افسر کا ڈنڈا بڑا سخت ہے-
میں عوام پاکستان کی طرف سے ہر ضلع و تحصیل کے ڈی سی اوز اور اسسٹنٹ کمشنرز
بالخصوص ضلع لودہراں کے افسران بالا سے گزارش کرتا ہوں کہ خدار ا پرائس
کنٹرول کمیٹیاں لازمی طور پر ایکیٹو کریں ان کو قوانین پر سختی سے کاربند
کرائیں۔ پیور فوڈ ونگ سے متعلقہ افراد کو بھی انسپکٹ کیا جائے اور ان کی
رپورٹس پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ بذات خود معاملات کو براہ راست
دیکھاجائے تاکہ ماہ مقدس تو کم از کم سکون سے گزر جائے مزید یہ کہ ہر مہذب
معاشرے میں بسنے والے انسانوں کی طرح اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کو پوری
کرتے ہوئے خالص اشیا فروخت کریں اور ناجائز لوٹ مار سے لازمی پرہیز کریں کہ
کمائی کیلئے سارا سال ہوتا ہے- |
|