اپنی شخصیت کو اُجاگر کرنے کے لئے خود اعتمادی سے کام لیں

 پچھلے دنوں مجھے ایک میل موصول ہوئی جس کے ایک ، ایک لفظ سے درد مندی اور تاسف کا اظہار ہوتاتھالکھنے والی ایک لڑکی تھی، جو نفسیاتی الجھنوں کا شکار تھی اُسے اپنی ذات پر سے بھروسہ ختم ہوچکا تھا ، وہ لڑکی اندر سے بالکل ٹوٹ چکی تھی اُسے اپنی ذات انتہائی حقیر لگنے لگی تھی وہ اس صلاحیت سے محروم تھی جس کو شخصیت سازی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے’’ خود اعتمادی ‘‘۔ خود اعتمادی اُس کے اندر بالکل ختم تھی اُسے اپنی ذات پر اعتماد اور اعتبار بالکل نہیں تھا اور اسکاسبب وہ اپنی والدہ کو ٹھہراتی تھی کیونکہ وہ اس پر ہر وقت نکتہ چینی، تنقید ، اور الزام تراشی کرتی رہتی تھیں اُس کی کمزوریوں اور خامیوں کا موازنہ اس کے دوسرے بہن بھائیوں سے کرتی رہتی تھیں وہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لئے سخت محنت و مشقت کرتی رہتی تھی مگر سب بے کار ہوجاتا وہ مستقل ڈانٹ، ڈپٹ سے خود اپنی ہی نظروں میں اپنے آپ کو بُرا سمجھنے لگی ، یہ ایک لڑکی کی بات تھی جو بہت تکلیف میں اُس نے اپنا دکھ کاغذ پر اتار دیا مگر کتنے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایسے ہیں جو اپنی ذات میں ہی گھل کے ختم ہوجاتے ہیں اور کسی کو اُن کی تکلیف کاپتا ہی نہیں چلتا کچھ والدین کا اپنے بچوں کا حد سے زیادہ خیال اور توجہ رکھنابچوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے ،کیونکہ وہ ان توجہ کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ کوئی بھی کام اکیلے نہیں کرپاتے،اور پھر یہ مسئلہ بڑے ہونے پر ان کے لئے بہت مشکل کھڑی کردیتا ہے اعتماد کی کمی ایک بیماری کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اگرچہ ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی اور دوسری وجوہات کے باعث ابھی تک ہمیں صحیح اندازہ نہیں، مگر زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں ماہرین کی تحقیق کے مطابق انڈر گریجویٹ طلبہ کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ80% نوجوان طالبعلم کسی نہ کسی احساسِ محرومی اور نفسیات کا شکار ہیں۔ کسی کو شکل و صورت کا احساس، کوئی کھیل میں ، کوئی غربت یا روپیہ پیسہ ،کوئی دماغی قابلیت اور شخصیت کے معاملے میں شدید احساسِ کمتری میں مبتلا پایا گیا،ایسے لوگ سب اپنے خول میں بند ہی رہتے ہیں کسی سے کھلتے ملتے نہیں ہیں۔

بچوں کی مختلف کام پر ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے یہ انسانی فطرت ہے کہ اُس کے کسی اچھے کام پر اُس کی حوصلہ افزائی کی جائے یہ حقیقت ہے کہ انسان کی حوصلہ افزائی اور اعتماد اُس کے کام میں بہتر نتائج اور نکھار لاتا ہے کچھ اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھتے ہیں، شکل و صورت تو کسی کے ہاتھ میں نہیں یہ تو اﷲ کی دین ہے ہر ایک کو اپنی طرف سے خوبصورت ہی بناتا ہے اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کی معروف لوگوں نے اپنی کمزوری اور معذوری اپنے راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا دنیا میں کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا یعنی مکمل نہیں ہوتا ۔جن لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پُر اعتماد ہوں گے وہ بھی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی محسوس کرتا ہوگا یہ سچ ہے کہ ہم سب کی زندگی نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے، احساسِ کمتری ایک قسم کی ذہنی کیفیت ہے جس میں آپ خود کو ہی قصور وار سمجھتے ہیں جب اعتماد کی کمی ہوتی ہے تو اُسے اچھا محسوس نہیں ہوتا ذہن میں صرف منفی باتیں ہی آتی ہیں ہر کسی میں اﷲ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ خوبی رکھی ہے مگر آپ اپنی صلاحیت اور خوبی سے انجان ہیں،منفی باتوں سے جس قدر ممکن ہو ، جان چھڑائیں یہ جتنی دیر ذہن پر سوار رہیں گی آپکا اعتماد متزلزل کرتی رہیں گی ہمیشہ مثبت( پوزیٹو) سوچیں خود پر ترس نہیں کھائیں اور نہ ہی دوسروں سے یہ امید رکھیں ، ہمیشہ مثبت(پوزیٹو) گفتگو کریں،دوسروں پر اپنی خوبی اور طاقت ظاہر کرنے سے نہ گھبرائیں ایسا کرنے سے آپ اور اندرونی اطمینان کی وجہ سے اعتماد میں اضافہ ہوگا ، آپکی حوصلہ افزائی ہوگی کچھ اصول بنائیں جس پر عمل کریں چاہے کوئی بھی مشکل آڑے آئے اپنے اصولوں سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹیں ہمیشہ دوسروں کی مدد کریں اس سے آپ کی دلی سکون ملے گا ، اس سے آپکی عزت میں اضافہ ہوگا ،آپ جب بھی آئینہ دیکھیں تومسکرائیں اس طرح آپ خوش ہوں گے اور پُر اعتماد بھی، چلتے وقت اعتماد سے چلیں وقار اور تمکنت کو اپنا ئیں مگر ضرورت سے زیادہ نہیں ورنہ دوسرے تکبر سمجھیں گے اور آپ سے دور ہوجائیں گے ، نئے دوست بنائیں مگر پرانے دوستوں کو نہ بھولیں ، ہر جگہ اپنا رویہ مثبت(پوزٹیو) رکھیں اس سے آپ کے کردار کی شناخت ہوگی، خود اعتمادی سے نہ صرف آپ کی زندگی سنورتی ہے بلکہ آپ کی شخصیت کو بھی دوگنی طاقت ملتی ہے۔ آپ جس قدر بھی ڈگریاں رکھتے ہوں اور صلاحیت وقابلیت کے مالک ہوں، اگر آپ میں خود اعتمادی کا فقدان ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ ساری ڈگریاں اور قابلیت بے کار ہیں۔کچھ لوگوں میں خوداعتمادی کی کمی بچپن ہی سے ہوتی ہے تو کچھ میں وقت کے بدلتے حالات اور زندگی کے تلخ تجربوں کی وجہ سے خود اعتمادی میں کمی آجاتی ہے۔ عموماً لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ، جگاڑ اور اچھی شکل وصورت ہے تو آپ بآسانی منزل طے کرسکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کیونکہ ان سب سے اوپر بھی ایک چیز ہے جن کے آگے یہ چیزیں پھیکی پڑجاتی ہیں اور وہ ہے خوداعتمادی۔اگر آپ میں خوداعتمادی ہے تو آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اپنے اندر خوداعتمادی کیسے پیدا کریں ؟ تو اس سلسلے میں چند معاون وسائل کی جانکاری جاصل کرتے ہیں مثبت سوچ اور پرامن نظریہ خوداعتمادی کے بحال کے لئے نہایت ناگزیر ہے ، اوراس کا حصول آس پاس کے خوشگوار ماحول اور باہمت شخصیات کی صحبت سے بہت حد تک ممکن ہے صحبت کا انسان کی زندگی پر کافی اثر پڑتا ہے اگر آپ کے آس پاس اچھے ، محنتی اور خود پر یقین رکھنے والے لوگ ہوں گے توآپ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور خود کو ان جیسا بنانے کی کوشش بھی کریں گے، اس لیے ہمیشہ بردبار اور تجربہ کار لوگوں سے رابطہ میں رہنا چاہیے ، ان کی باتیں بغور سننا چاہیے اور انکے خیالات کو اپنے اندر اْتارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور تعلقات ہمیشہ اچھے لوگوں سے رکھنے چاہئے،بْرے اور بدکردار لوگوں سے بال بال پرہیز کرنا چاہئے۔

شخصیت کو نکھارنے والی کتابیں پڑھیں اور ان سے ماخوذ معلومات کو خاص دفترمیں نوٹ کریں ،اور سبق آموز جملے لکھ کر ایسی جگہ چسپاں کردیں جہاں آپ کی بار بار نظر جاتی ہو۔خودمیں اعتماد بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مثبت سوچ رکھتے ہوں ، حالات جس قدر بھی سنگین ہوجائیں ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے ،ایک امید اور بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اور اس بات کا بھی یقین رکھنا چاہیے کہ آج نہیں تو کل سب کچھ ٹھیک ہوجاے گا۔ ایسا نہ سوچنے کی صورت میں ہم پر ہمیشہ ڈر سوار رہے گا ،ہم آگے بڑھنے کی ہمت نہ کرپائیں گے جس سے ہمارا حوصلہ گھنے گا ،یقین کمزور ہوگااور ہماری خوداعتمادی میں کمی آے گی۔

گفتگو کا ہماری شخصیت پر بڑا اثر پڑتا ہے ، کسی کو متاثر کرنے کے لیے ہماری باتیں بہت معنی رکھتی ہیں ، عمدہ انداز بیاں سے نہ صرف ہم لوگوں کا دل جیتتے ہیں بلکہ اپنے اندر ایک پختہ یقین بھی پیداکرتے ہیں۔

بہترین انداز بیان سے محروم ہونے کے باعث ہم دوسروں کے سامنے اپنے خیالات پیش کرتے ہوے جھجھک محسوس کرتے ہیں نتیجہ کے طور پر ہمارے اندر سے خوداعتمادی کا معیار گرنے لگتا ہے۔ اور اس سے نجات پانے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ جب آپ بولنا چاہتے ہوں تو موضوع سے متعلق پہلے پوری معلومات جمع کرلیں اور اسے ازبر کرنے کے بعد عمدہ انداز بیاں اور بہترین اسلوب میں بات رکھنے کا مشق کریں۔کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا تاہم ہرانسان کے اندر خفتہ صلاحیتیں ہوتی ہیں جنہیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ، اگر انسان اپنے اندر موجود اس ہنر کو ڈھونڈلے تو وہ زندگی میں بے پناہ لطف ومسرت سے مالامال ہوسکتا ہے۔ اور اپنی اسی خوبی کی بدولت لوگوں کے دلوں میں ہی نہیں بلکہ معاشرے میں بھی اپنی علیحدہ پہچان بنا سکتا ہے۔ اس لیے اپنے اندر چھپی ہوئی خصوصیات کو تلاش کریں ، یہ آپ کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی خامیوں اور غلطیوں میں سدھار بھی ضرور کریں۔ اگر اس نکتے کو ذہن نشیں رکھا تو آپ کے اندر یقین کی صفت پیدا ہوگی اور یہی یقین کامل آپ کی خوداعتمادی کوبحال کرنے میں کارگر ثابت ہوگا۔یاد کریں ان دنوں کو جب آپ بہت خوش اور مطمئن تھے ، سوچین کہ ان دنوں آپ کی مسرت وشادمانی کے کیا محرکات تھے؟ وہ کونسی خوبی تھی آپ میں اس وقت ……؟ اور کس بنیاد پر حاصل کی تھیں وہ خوشیاں ……؟ خود میں وہی طاقت ، وہی جذبہ ، وہی یقین پھر سے پیدا کریں ……اور یہ بھی سوچیں کہ اگر اچھے دن ہمیشہ آپ کے ساتھ نہیں رہتے تو بْرے دن بھی نہیں رہیں گے ، البتہ ماضی میں جو کامیابیاں آپ کو ملی ہیں اْن پر ایک نظر ضرور ڈالیں۔ وقتاً فوقتاً ان انعامات اور اعزازات کو بھی دیکھیں جوکہ ماضی میں آپ کو ملے تھے۔اس طرح آپ اپنی مثبت سوچ سے اپنی کھوئی ہوئی توانائی دوبارہ حاصل کرکے خود میں پھر وہی طاقت ،وہی جذبہ،اور پھر وہی خوداعتمادی دوبارہ پیدا کرسکتے ہیں۔زندگی میں کچھ بننے کے لیے اپنی منزل خود طے کریں ، اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خود کو ضرورت سے زیادہ نہ الجھائیں ‘مباداکہ آپ کا سماجی ونجی زندگی سے رابطہ ہی ٹوٹ جائے۔ افکار وخیالات کو اپنے اندر قید نہ ہونے دیں ،بلکہ اْن کا استعمال کریں، زندگی کو زیادہ سنجیدگی سے بھی نہ لیں، اور نہ ہی خود کو زیادہ قاعدہ قانون اور اصولوں میں باندھیں ، خود کو آزاد رکھیں ، زندگی سے لطف اندوز ہوں اور یاد رکھیں کہ آپ کی زندگی کا ایک ہدف ہے جسے آپ کو حاصل کرنا ہے۔ اس طرح آپ خود سے مطمئن ہوکر خود میں اعتماد بحال کرسکیں گے۔اپنے کام کو بحسن وخوبی پایہ تکمیل تک پہنچائیں ، کیونکہ کام کو عمدگی سے انجام دینے پر ہمارے اندر پختہ یقین پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ آدھے ادھورے کام سے ہمارے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اْسے اچھی طرح سمجھ لیں اپنی صلاحیتوں کو بخوبی تول لیں پھرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں۔ایک ہی طریقہ کا کام نہ صرف ہمیں بوریت دیتا ہے بلکہ ہماری قابلیت وصلاحیت کو بھی محدود کرکے رکھ دیتاہے، جس سے ہماری خوداعتمادی کم ہونے لگتی ہے۔ لہذا کام میں ہمیشہ جدت لانے کی کوشش کریں،اس سے آپ کے اندر جوش وولولہ پیدا ہوگا، نئی نئی ترکیبیں سمجھ میں آئیں گی، اور آپکی خفتہ صلاحیتیں اجاگر ہوں گی۔

قدرت کسی کے ساتھ بے انصافی سے کام نہیں لیتی وہ ہر شخص کو یکساں صلاحیت ، اہلیت دیتی ہے ان صلاحیتوں کا سُراغ لگانا اور انہیں پوری خود اعتمادی اور حوصلے کو بروئے کار لانا ہمارا فرض ہے قدرت نے وہ صلاحیتیں آپ کے اندر چھپا رکھی ہیں جس کی مدد سے زندگی کو کامیاب و کامران بنایا جاسکتا ہے وہ لوگ جو اپنی زندگی کا ایک بڑا دور ختم کرچکے ہیں ، خاص طور پر نوٹ کرلیں کہ انہیں اگر زیادہ عرصے تک زندہ رہنا ہے اور زندگی میں بھر پور حصہ لینا ہے تو ماضی کی مایوسیوں اور ناکامیوں کو بالکل ختم کر کے اپنے آپ کو یقین دلانا چاہیے کہ قدرت نے ہر انسان کے اندرپوشیدہ صلاحیتیں رکھی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتیں بلکہ اُسے جس قدر زیادہ خرچ کیا جائے اس میں تجربے، مہارت اور اپنے آپ پر بھروسے جیسی نعمتوں کا اسی قدر زیادہ اضافہ ہوتا جائے گا ، اپنے آپکو یقین دلایئے کہ آپ کو اپنی زندگی میں وہ کارنامہ سر انجام دیناہے جس کے لئے قدرت نے آپ کو تخلیق کیا تھا اس کے بعد آپ پوری طاقت سے لگ جائیں اگر آپ کا جذبہ سچا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑے ہر شخص کے اندر ایسی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں جنہیں بروئے کار لاکر وہ اپنی شخصیت کو متوازن اور خود اعتمادی کی دولت سے مالامال کر سکتا ہے -

اچھی تربیت شخصیت کی نشوو نما میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اگر کسی شخص کو حالات کی خرابی کی وجہ سے اچھی تربیت میسر نہ آئی ہو تو اُسے بد دل ہو کر مایوسی کی زندگی نہیں گزارنی چاہیے اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے انسان اپنی محنت سے ذیادہ فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اپنے علم و تجربے کا صحیح طرح سے اظہار نہیں کر سکتا ․ خود اعتمادی کے فقدان کی وجہ سے انسان احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجا تا ہے،انسان میں سب سے اہم چیز اُس کی خود اعتمادی ہے خود اعتمادی نہیں تو وہ پھر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ،خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے، دنیا میں کامیاب ہونے کے لئے آپ کو اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا سوچ میں انقلاب لانا ہوگا کہتے ہیں کہ انسان جس طرح سوچتا ہے وہ اُس طرح کا بن جاتا ہے اگر سوچ صحت مند ہو گی ، مثبت ہوگی تو پھر انسان کا وجود اور ذہن بھی صحت مند ہوگا اگر سوچ ہی منفی ہو تو پھر اُس کے اثرات بھی منفی ہوں گے ، دل سے یہ احساس نکال دیں کہ آپ کمتر ہیں ناکارہ ہیں یا تعلیم کم ہے یا معاشی طور پے کم ہیں یا خاندانی حالات بہتر نہیں ہیں اس کے بر عکس یہ سوچ اپنائیں کہ آپ کو اُس پاک پروردگار نے پیدا کیا ہے جو تمام انسانوں کا خالق ہے اُس نے اتنی خوبصورت دنیا تخلیق کی ہے اُس نے آپ کو ہر طرح کی صلاحیتوں سے نوازہ ہے آپ ذہنی اعتبار سے کسی سے کم نہیں آپ ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں اور جب آپ اپنی سوچ بدلیں گے منفی سوچ ، کاہلی اور غیر ذمہ داری بدلیں گے توپھر زندگی کا ایک ایسا راستہ نکل آئے گا جو آپ کی زندگی کو بھٹکنے سے بچائے گا انسان کامیاب اُسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب اُس کے سامنے کوئی مقصدہو ۔ جب کوئی مقصد نہ ہو تو انسان کی زندگی جدوجہد اور عمل سے خالی رہتی ہے اور جتنا بڑا مقصد ہو انسان اپنے اندر اتنی ہی خود اعتمادی اور قوت پیدا کرتا ہے سب سے بہتر احساسِ کمتری کا علاج یہ ہے کہ اﷲ کی رضا میں راضی  ہوجایا جائے یہ یقین کر لیں کہ وہ جو کرے گا بہتر کرے گا
’’ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ــ’’میری طرف آکر تو دیکھو تم پر اپنی رحمتیں تمام نہ کردوں تو کہنا ‘‘

خود اعتمادی کو کام یابی کی کنجی کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس سے زندگی کے مسائل کا سامنا مشکل نہیں رہتا، خود اعتمادی کی کمی خواتین کی تمام خوبیوں اور قابلیت پر پانی پھیر دیتی ہے، خواتین کا شرمیلا پن، ناکامی کا خوف اور احساس کم تری ان کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔صبح وشام ہمارا واسطہ بے شمار ایسی خواتین سے پڑتا ہے، جو نہ صرف بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہوتی ہیں، بلکہ ذہانت میں بھی مردوں سے پیچھے نہیں ہوتیں، لیکن خود اعتمادی سے اپنا مافی الضمیر بیان نہ کرنے کے باعث اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کے سامنے اجاگر کرنے سے قاصر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ایسی خواتین اکثر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ عدم اعتمادی کا شکار خواتین گفتگو کرنے میں جھجکتی ہیں، اسکول، کالج یا کام کی جگہ سے لے کر تفریحی، نصابی وغیرہ نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کتراتی ہیں اور محفل میں بیٹھنے اور بولنے کے خوف سے وہ اجتماعی سرگرمیوں سے بھی پرے رہنے کی کوشش کرتی ہیں، منفی نتائج آنے کے ڈر سے تجربات کرنے سے گھبراتی ہیں۔ مذاق بن جانے کے خوف کے باعث وہ اکثر علم وآگہی کی جستجو بھی نہیں کرتیں۔

خاموش اور الگ تھلگ، اکیلے ہی بیٹھ کر تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرلیتی ہیں، جو اکثر منفی ہی ہوتے ہیں، اگر کوئی صحیح بات معلوم بھی ہو تو اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر پاتیں۔ یعنی مجموعی طور پر اعتماد سے محرومی انہیں زندگی کے بہت سے معاملات میں مشکلات کے ساتھ شرمندگی سے دوچار کرتا ہے اور وہ اکثر گھبرائی گھبرائی سی پائی جاتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ کم سے کم اپنی شخصیت سے بلاضرورت جھجک کو نکالا جائے۔ خود اعتمادی سے محروم خواتین کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ عزم وہمت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کریں، یقیناً وہ اس طرح اپنے خیالات اور مافی الضمیر سامنے لانے کے لیے بے جا شرم، جھجک، ڈر اور خوف سے نجات پانے میں کام یاب ہوں گی۔

اگر آپ کسی ایسی ساتھی کو قریب نہ پائیں تو پھر اپنے گھر میں سب سے قریب شخصیت کی مدد لیں اور بے اعتمادی کے احساس میں اکیلے بیٹھ کر جلنے کڑھنے سے گریز کریں۔ اگر شادی شدہ ہیں تو شوہر ورنہ والدین اور بہن بھائی اس ضمن میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی درپیش ہے تو اچھے اساتذہ بھی زندگی کی انمول نعمت ہوتے ہیں، لہٰذا ان سے راہ نمائی حاصل کیجیے اور اپنے بکھرتے اعتماد کو سمیٹنے کی کوشش کیجیے۔

جن موضوعات پر آپ کی معلومات بہت اچھی ہے، ان سے متعلق اپنی سہیلیوں، عزیز واقارب سے بات کریں اور اپنی معلومات ان تک پہنچائیں۔ اس پر ان سے تباد لہخیال کریں اور کم سے کم دو چار لوگوں کی محفل سے مخاطب ہوں،کیوں کہ ایسی خواتین محفل میں بیک وقت کئی لوگوں سے مخاطب ہونے سے کتراتی ہیں اور بالکل سرگوشی کے اندازمیں گفتگو کرتی ہیں۔تھوڑی سے اونچی آواز میں بات کرنے سے آپ کے اندر اعتماد آئے گا۔ نئے لوگوں سے علیک سلیک کرنے میں پہل کریں، اپنا تعارف کرائیں اور ان کی مصروفیات وغیرہ کے بارے میں بات کریں۔ اس طرح آپ کے اعتماد کو پختگی ملے گی۔ خود اعتمادی کے لیے نئے دوست بنایئے، اس کے لیے اپنے علاقے کے پارک یا سہیلیوں کی فیملی یا جو کنگ کے میدان میں جایئے اور نئے لوگوں، خواتین سے جان پہچان بڑھایئے، سماجی تقریبات میں شرکت کریں۔ ملنے والے دعوت ناموں، سیمیناروں یا مذاکروں اور اجتماعی نشست اور بیٹھکوں میں شرکت کو یقینی بنائیں۔ مختلف ادبی وثقافتی میلوں میں شرکت کریں، اس سے آپ مختلف شعبوں کے اہم افراد کے بارے میں جان پائیں گی اور مختلف موضوعات پر معلومات بڑھانے کا موقع بھی ملے گا اس طرح بھی آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔گفتگو کا آغاز ہمیشہ معلومات حاصل کرنے والے جملوں سے کریں۔ مثلاً میں نیا کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل یا ٹی وی وغیرہ خریدنا چاہتی ہوں، آپ کا کیا خیال ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، یا کسی کمپنی کی مصنوعات زیادہ بہتر ہیں یا پھر میں فلاں شعبے میں داخلہ لینا چاہتی ہوں، بچوں کو فلاں اسکول میں پڑھانا چاہتی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ لوگوں سے ایسے موضوعات پر بات کریں جو انہیں پسند ہوں، اس طرح وہ آپ کی بات توجہ اور دل چسپی سے سنیں گی، خوب صورت تعارفی اور الوداعی جملوں کی ادائیگی سے بھی ا عتماد میں اضافہ ہوگا۔کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کی مکمل تیاری کریں، کہیں جانے یا کسی سے ملنے سے پہلے بنیادی معلومات ذہن میں رکھیں، غلطی ہونے پر معذرت اور کسی کی خیر خواہی پر شکریہ جیسے الفاظ استعمال کرنے میں فیاضی سے کام لیں۔ شرمندگی سے بچنے کے لیے سوچ سمجھ کر بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ ہر وقت ناکامیوں کے اظہار کے بجائے یاد رکھیں جو کام کرتے ہیں وہی ناکام بھی ہوتے ہیں، جب کہ نکمے ہمیشہ ناکامیوں کا خوف ہی پالتے رہتے ہیں اس لیے خود اعتمادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کریں ہر میدان میں کام یابی آپ کے قدم چومے گی۔
farheen riaz
About the Author: farheen riaz Read More Articles by farheen riaz: 33 Articles with 47102 views rukht e safar (رختِ سفر )the name of under which numerous column and Articals has been written by Columnist Farheen riaz
starting 2012
.. View More