کراچی میں ٹارگٹ کلرز نے عرصہ دراز سے قتل
و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے، بھتہ خور دوسروں کی محنت کی کمائی پر اپنا
حق سمجھتے ہیں،وار گینگ یوں فعال ہیں جیسے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں،
فرقہ پرستی نے الگ عام آدمی کے تحفظ کو مکمل طور پر غیر یقینی بنادیاہے۔
یہاں قربانی کی کھالیں، فطرانہ، زکوٰۃ اور صدقہ بھی بھتہ کی طرح وصول کیا
جاتا ہے۔ مذہبی اور غیرمذہبی، سیاسی اور غیر سیاسی ہر طرح کی تنظیمیں اپنے
اپنے مفادات کی جنگ لڑرہی ہیں اور شہر میں اپنا اپنا ہولڈ قائم رکھنے کی
کوشش میں مصروف ہیں۔ شہر میں امن وامان کی صورت حال کو قابو کرنے کے لیے
سیاسی جماعتیں فوجی آپریشن کا مطالبہ بھی کرتی رہیں اور انہی مسائل اور
حالات کی وجہ سے اس آپریشن کی ذمہ داری رینجرز کو دی گئی اور اس کے مثبت
اثرات واضح طور پر محسوس بھی کیے گئے اور دیکھے بھی گئے۔ ٹارگٹ کلنگ اگر
ختم نہیں ہوئی تو اس میں کمی ضرور نظر آئی۔ جرائم اور بھتہ وصولی میں کمی
نوٹ کی گئی لیکن جب انہی اقدامات کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے مفادات
پرزدپڑی تو یہ لوگ بلبلا اٹھے اور اسی آپریشن جس کا وہ مطالبہ کررہے تھے کے
خلاف ہوگئے۔ پہلے ایم کیوایم نے دل کھول کر رینجرز اور فوج کے خلاف بیان
بازی کی۔ ڈی جی رینجرز جنرل بلال اکبر نے کھلے الفاظ میں کہا کہ سیاسی
جماعتیں گینگ وارز کو فنڈنگ کررہی ہے اور کروڑوں روپے اس بدامنی کو پھیلائے
رکھنے پر خرچ کررہی ہیں، انہوں نے ایپکس کمیٹی کو بتایا کہ اس معاملے میں
بڑے بڑے سیاسی نام شامل ہیں اور ساتھ ہی سرکاری محکموں کے بارے میں بھی
انکشافات کئے جو ان سیاسی پارٹیوں کے مطالبے پر ان کے لیے پیسے کا بندوبست
کرتے ہیں ان میں پولیس، تعمیراتی کمپنیاں اور انتظامیہ بھی شامل ہیں۔ ان کے
جرائم میں منی لانڈرنگ کے کیسز بھی شامل ہیں جن میں ماڈل آیان علی جیسے
واقعات کھل کر سامنے آچکے ہیں اور شرجیل میمن کے گھر سے دو ارب روپے کا
ملنا بھی کسی نہ کسی طرف اشارہ ضرور ہے۔ ساتھ ہی عزیر بلوچ کے بیانات یا
الزامات بھی موجود ہیں کہ کیسے وہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے براہ راست
احکامات وصول کرکے ٹارگٹ کلنگ کرتا رہا اس نے کھلے الفاظ میں پیپلزپارٹی کے
شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا نام بھی دیگر لوگوں کے ساتھ
لیا۔ اب جب ڈی جی رینجرز نے سیاسی جماعتوں کے دہشت گردوں کے ساتھ رابطے کی
بات کی تو جناب آصف علی زرداری نے یقیناًاشارہ سمجھ لیا اور اس بات کا جواب
کچھ یوں دیا کہ مزید اعترافات کر گئے۔ جو دھمکیاں انہوں نے پاک فوج کو دیں
شاید ایسی دھمکیاں دشمن ملک بھارت نے بھی نہ دی ہونگی نہ ہی یوں اینٹ سے
اینٹ بجانے کی بات کی ہوگی جیسے اپنے ہی ملک کی ایک بڑی پارٹی کے مرکزی
رہنما نے کی۔ اور حیرت اس بات پر ہے کہ ان کھلے الفاظ میں دھمکیوں پر اس
وقت تالیاں بجا بجا کر داد دینے والے پیپلزپارٹی کے رہنما بعد میں ان الفاظ
کو مختلف معانی پہنانے کی کوشش میں ہلکان ہوتے رہے۔ یہ ہماری عجیب و غریب
جمہوریت کا ایک اور رخ ہے کہ لیڈر چاہے کچھ کہہ دے بعد میں مصاحب اس سارے
گند کو صاف کرنے کی ذمہ داری اٹھالیتے ہیں چلیے یہ تو ان صاحب ،مصاحب کا
معاملہ ہوا لیکن کیا ہماری سیاسی جماعتیں اپنے اس کردار کی کوئی توجیہہ پیش
کر سکتی ہیں جو وہ قومی معاملات میں ادا کررہی ہیں۔ بظاہر دہشت گردی کی
مخالفت کرنے والے اندر سے ایسے ہی لوگوں کی مدد کررہے ہیں۔ یہ جماعتیں اگر
شہروں میں ہونے والی قتل وغارت گری میں ملوث ہوں تو قوم ان سے کس بہتری کی
اُمید رکھے اور اس پرطرہ یہ کہ اپنے ہی اداروں اور قومی سلامتی کے ذمہ
داروں کو یوں سرعام بے عزت کرے۔ جناب زرداری لگتا ہے جوش خطابت میں بھول
گئے کہ وہ اپنی ہی فوج کو للکار رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اپنے اعمال پر
غور کرتے وہ اپنے ہی سپہ سالار کو للکار رہے تھے کہ تم نے تین سال رہنا ہے
ہمیشہ ہم نے ہی رہنا ہے تو وہ یہ بھی بھول گئے کہ ہمیشہ اللہ کی ذات نے
رہنا ہے باقی ہر شے کو فنا ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما اسی نظر یے سے مال دولت
سمیٹنے میں لگے رہتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے لہٰذا ساری دنیا
کی دولت سمیٹ لینی چاہیے۔ فوج کو دھمکیاں دیتے ہوئے انہیں یہ بھی یاد نہ
رہا کہ وہ اس فوج اور سپہ سالار کو دھمکیاں دے رہے ہیں جو اس وقت بھی
جنگلوں،پہاڑوں،دریاؤں سرحدوں پر اورملک کے اندر ہر جگہ دشمن سے برسرپیکار
ہے۔ جرنیلوں کا محاسبہ کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن اس محا سبے کو ذاتی
حد تک رکھنا چاہیے فوج کو بے عزت کرنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔سیاستدانوں
کو یہ بھی اعتراض ہے کہ رینجرز اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے اس کا
مینڈیٹ سیاستدانوں پر ہاتھ ڈالنا نہیں تو بات یہ ہے کہ اس کو یہ مینڈیٹ
حکومت نے دیا ہے کہ دہشت گردی کو روکے اور اس کے لیے ظاہر ہے اسے دہشت
گردوں کے مدد گاروں اور سہولت کاروں کو ختم کرنا ہوگا چاہے وہ سیاستدان ہو،
مذہبی رہنما ہو یا عام آدمی ہو۔ رینجرز نے سنی تحریک کے کچھ کارندوں کو بھی
اپنی گرفت میں لیا ہے اور اگر یہ کاروائیاں بلا تفریق جاری رہیں جو کہ رہنی
چاہیے تو یہ قومی اُمید کی جاسکتی ہے کہ کراچی اپنی اصلی حالت پر بہت جلد
واپس آجائے گا لیکن اس میں عام آدمی سے بھی یہ توقع کی جانی چاہیے بلکہ اسے
یہ اپنا فرض سمجھنا چاہیے کہ وہ ہر ایسی قوت کو رد کرے جو ملک کے خلاف ہو۔
ہمارے سیاستدان بھی اگر اپنی وفاداری ملک، قوم اور عوام کے ساتھ رکھے تو
اگر انہیں عوام میں کل پذیرائی ملی تھی تو آج بھی وہ عزت مند ہونگے۔چو نکہ
آج کے دور میں میڈیا نے اندھے اعتماد کو تقریباً نا ممکن بنا دیا ہے
لہٰذاہمارے لیڈر صاحبان یہ سوچنا چھوڑدیں کہ ان کے ایسے کاموں پر پردہ پڑا
رہے گا اور عوام ان کے ہاتھوں بیوقوف بنتے رہیں گے ایسا اب بھی کسی نہ کسی
حد تک ہوگا لیکن کبھی صولت مرزا اور عزیر بلوچ بول بھی لیا کرتے ہیں۔ جناب
زرداری کے لیے ایک مشورہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ آپ بہت
ذہین ہیں بازی پلٹنے کا گر بھی جانتے ہیں لیکن اگر آپ یہی ذہانت ملک کی
بہتری اور یہاں امن وامان قائم کرنے کے لیے لگادیں تو قوم آپ کو یقیناًایسی
عزت دے گی جو سوئس بینکوں میں پڑے آپ کے سرمایے سے زیادہ قیمتی ہوگا۔ |