جب پہلی کلاس کا امتحان
پاس کیا تو نئی کتابوں کے حصول کے لئے جذبات بے قابو ہو رہے تھے ، ہمارے
زمانے کے بچوں کے ساتھ اکثر یہی ہوتا تھا اس لئے کہ ہماری عیاشی یہی
ہواکرتی تھی کہ پاس ہونے پر نئی کتابیں اور نئی کاپیاں بھی۔۔۔کتابوں کے
کورنگ پیج دل کو بھلے لگتے اور کاپیوں کے نئے اور صاف ستھرے ورکے ۔۔۔ہم
لوگوں کے پاس ہونے پر ہمارے غریب والدین کی طرف سے سب سے بڑا فقط تحفہ ان
کی دعائیں ہوا کرتی تھیں۔’’صفائی نصف ایمان ہے ‘‘دوسری کلاس میں یہ اہم
ترین سبق پڑھا جو یقیناً قبر تک یاد رہے گا اور یوں ہم اس حدیث و نصیحت کے
ساتھ سفر زندگی طے کرتے جوان ہوئے اور ساتھ ساتھ ’’پرل ویلی ‘‘ بھی جوان
ہونے لگا ۔اس زمانے میں پرل ویلی ’’راولاکوٹ‘‘ میں صرف ایک بک سٹال تھا
شائد ہی کوئی بچہ ایسا ہو جو ’’ڈان بکڈپو‘‘ کے نام سے نا بلد ہو۔گورنمنٹ
صابر شہید پائلٹ ہائی سکول ،حسین شہید ڈگری کالج ،گرلز کالج ،سولجر بورڈ ،ایک
(ریسٹ ہاؤس) جسے ڈاک بنگلہ کہا جاتا تھا ،سیشن کورٹ ،مال آفس اور ایک چھوٹا
سا ٹکنیکل انسٹیٹیوٹ جسے عرف عام میں ’’کیڑاکمپنی‘‘کہا کرتے تھے اور ساٹھ
پینسٹھ دکانوں پر مشتمل راولاکوٹ شہر ہوا کرتا تھا، طویل تاریخ کا حامل یہ
شہرچھوٹا ضرور تھا لیکن صاف ستھرا تھا ۔یہ وہی راولاکوٹ ہے جس کا محض تین
سو میٹرسڑک کا ایک ٹکڑا جو جاوید کیفی سے منگ روڈ کی جانب اصفلٹ ہوا تھا
باقی شہر راولاکوٹ کی تمام سڑکیں کچی ہوا کرتی تھیں ۔ شہر میں مسافروں کے
لئے بیت الخلا کی سہولت تک نہ تھی لیکن شہر اتنا صاف ستھرا تھا کہ ہم لوگ
سفید لباس میں تین چار دن گزارلیتے ۔اس صاف ستھرے ماحول ،خوبصورت و دلکش
فضا کو دیکھتے اسے ’’پرل ویلی‘‘ کا نام ملا تھا ۔یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب
یہاں پر بلدیہ، کارپوریشن نام کاا دارہ قائم نہیں ہوا تھا اور نہ ہی پرل
ڈوہلپمنٹ اتھارٹی جیسی کوئی چیز، دیکھتے ہی دیکھتے گزشتہ پندرہ برسوں میں
ہونے والی بے تحاشا و بے ترتیب تعمیر نے اسے ایک بڑے شہر کا نام تو دلا دیا
لیکن شہری آداب و لوازمات سے ماورہ یہ شہر وادی پرل کے اس حسن و دلکشی کو
یوں گہنا رہا ہے جیسے کسی خوبرو حسینہ کے حسن کو ’’کوڑ ‘‘ کی بیماری آہستہ
آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہی ہو ۔
آج شہر کی حدود دوردور تک پہنچ چکی ہیں لیکن تمام شہری اداروں کی موجودگی
کے باوجود شہر میں صفائی کا کوئی نظام نظر نہیں آتا ۔شہر کی ہر گلی ،سٹریٹ
میں آبی نکاس کا کوئی خاطرخواہ اہتمام نہیں ہے نالیوں میں کچرے کے باعث
پانی ٹھہرا رہتاہے جو کئی خطرناک پیماریوں کا موجد ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی
بدبو دیتا ہے کہ سانس لینا مشکل ہے ،شہر کے تمام ہوٹلز اینڈ ریسٹوران کے
کچن کے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی رواج نہیں ہے ۔دکانیں کس ڈرایئنگ کے مطابق
ہیں اور ان میں کون کیا کیا فروخت کرتا ہے لوگوں کی اپنی’’ صوابدید‘‘ ہے ۔شہر
کے تمام بیکرزکے کارخانوں کو کبھی کوئی چیک نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کسی
شہری حکومت کی اجازت سے بنے ہیں وہاں کون کیا بنا رہا ہے کسی کو کچھ خبر
نہیں ہے ۔شہر میں باربی کیو،و کباب کی تمام دکانیں شہری قوانین کی سر عام
دھجیاں اڑا رہی ہیں ایک بھی دکان ایسی نہیں جہاں گرد و غبار سے پاک تکے و
کباب پکانے و رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہو ۔یہ سب دکانیں سڑک کے کنارے اوپن
بنائی گئی ہیں جہاں گردوغبارو گاڑیوں کا دھواں وافر مقدار میں شامل ہو کر
انسانی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے ۔پورے شہر میں بلدیہ/کارپوریشن/یا پرل
ڈیویلپمنٹ اداروں کی جانب سے کوئی چھوٹی بڑی ڈیسٹ بن نہیں رکھی گئیں ۔یوں
دکاندار و شہر باسی اپنی دکانوں کا اور گھروں کا کچرہ بمشکل اپنے گھر کے
دروازے کی ایک جانب پھینک کر مطمعین ہو جاتے ہیں ۔شہر میں کچرہ جمع ہونے کی
رفتار اتنی تیز ہے کہ آیندہ پانچ سالوں میں شہر کی تمام عمارتیں اپنے ہی
کچرے میں چھپ جائیں گی اور پرل ویلی کہلانے والایہ شہر کچرے کا ڈھیر بن
جائے گا ۔شہرکے اہم تجارتی مراکز کے عین وسط میں شہری اداروں نے خود کچرہ
جمع کر رکھا ہے ۔راولاکوٹ شہرمیں کوئی ایک جگہ بھی ایسی نہیں ہے جو سیاحت
کے قابل ہوجہاں سیاح آکر کچھ شاپنگ کر سکیں ۔شہر میں تعمیر ہونے والی تمام
عمارتوں میں فائر سسٹم سرے سے موجود نہیں،عمارتوں کے درمیاں کوئی فاصلہ
نہیں نہ ہی عمارتوں کے مکینوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے کار پارکنگ کا کوئی
تصور لیکن اس کے باوجود شہری اداروں نے انہیں تعمیر کا پروانہ جاری کر کے
اپنی غیر زمہ داری و غیر سنجیدگی کا ثبوت دے رکھا ہے ،کوئی روک رکاوٹ نہیں
ہے ۔ماضی کے اس خوبصورت علاقے میں پرل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ور کارپوریشن کا
کردارقطعی نظر نہیں آتا۔البتہ تمام دکانوں اور ہوٹلز سے ماہانہ فیس
ضروروصول کر لی جاتی ہے ۔شہر میں قائم ہسپتالزو کلینک کسی بھی اعتبار سے
اپنے نام کے ساتھ جڑے لوازمات کو پورہ نہیں کرتے ،ان میں وہ سہولتیں قطعی
موجود نہیں ہوتی جو ایک کلینک یا ہسپتال میں ہونا ضروری ہیں اور اس سے بھی
بڑھ کر خطرناک امر یہ ہے کہ شہر کے ان تمام ہسپتالز و کلینک کے اندر موجود
لیبارٹریز قطعی طور پر اپنے میعار پر پورا نہیں اترتی اس کے باوجود ناجانے
کون اور کیسے ان تمام کو انسانی صحت و جذبات سے کھلواڑ کے سرٹیفکیٹ جاری کر
دیتا ہے ۔۔۔؟دوسری جانب شہر میں مذبح خانہ کا کوئی خاطرخواہ اہتمام نہیں ہے
جو ہے اسے اگر ایک نظر دیکھ لیا جائے تو ساری زندگی انسان گوشت نہ کھانے کی
قسم کھا لے ۔اور اگر شہر کے ٹریفک نظام پر غور کریں تو اﷲ کی پناہ ۔۔۔ہر
ماہ درجنوں جواں سال موٹرسائیکل ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہورہے ہیں اور سب ایسے
جن کے پاس نہ ڈرائیونگ لائسنس اور نہ سیفٹی ہلمٹ ہوتا ہے خود ٹریفک پولیس
اہلکار بغیر ہلمٹ کے بائیک چلاتے ہیں ۔ڈرائیونگ لائسنس گھر بیٹھے مل جاتا
ہے ۔یہ کوئی قدیم شہر نہیں ہے کہ اس کی بے تحاشا آبادی کو یہاں کے اداروں
کو کنٹرول کرنے میں کوئی دقت ہو رہی ہو ۔بلکہ یہ شہر گزشتہ دس سے پندرہ
برسوں میں بسم اﷲ چوک سے متیالمرہ تک پہنچا ہے اور اگر زرہ بھی خوف خدا
ہوتا یا اس سے عملی محبت کا مظائرہ کیا جاتا تو اس شہر کو جدید سائنسی خطوط
پر تعمیر کیا جا سکتا تھا لیکن بد قسمتی سے ہر دور میں قائم ہونے والی
حکومتی کابیناؤں میں پچاس سے پچپن فیصد حصہ یہاں کے لوگوں کا ہونے کے
باوجود اس ’’وادی پرل‘‘ کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیا گیا ہر ادارے میں
وژن سے عاری محض سیاسی وابستگیوں کی بنیاد میں ایڈجسٹ منٹ نے وادی پرل کو
گھہنا دیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ علاقہ اپنی خوبصورتی کا خود ماتم
کریگا کوئی زمہ داری لینے والا ہی نہ ہوگا ۔ |