فقیری اور ایمانی صبر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فقیر قوم اقتصادی طور پر دوسروں کی دست نگر قوم ہوجاتی ہے اور پھر سیاسی اور پھر ثقافتی طور پر غلام ہوجاتی ہے، یعنی جہاں اقتصاد اور معیشت ہاتھ سے گنوا دیتی ہے وہیں اپنی عزت اور آبرو بھی برباد کرلیتی ہے، اسی وجہ سے مسلمانوں کو چاہیے کہ فقیری کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھینکیں اور کسی صورت اس بات پر راضی نہ ہوں کہ غیروں سے وابستگی اختیار کریں اور اُن کے غلام بنیں۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے ان تمام چیزوں کا جائزہ لیا جو باعزت اور باوقار شخص کو ذلیل کردیتی ہیں اور ان کی شوکت ختم کردیتی ہیں۔ لہذا میں نے ذلیل کرنے والی اور شوکت کو ختم کردینے والی چیزوں میں فقر و فاقہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دیکھی۔

فقر و تنگ دستی کا مسئلہ بشری زندگی میں نیز آیات و روایات معصومین علیہم السلام میں بہت وسعت اور اہم نکات کے ساتھ اسلامی دستورات کا حصہ ہے ، پہلا مسئلہ جو کہ فقر و غنا کے معنیٰ کا مسئلہ ہے؛ لوگ عموماََ ایسے شخص کو جس کی آمدنی کم ہو فقیر اور جس کی زیادہ ہو غنی تصور کرتے ہیں، لیکن اسلام کی نظر میں ایسا نہیں ہے۔

اسلام کی نظر میں جس کی روح سیراب و شاداب ہو ہر چند acکہ اُس کی درآمد کم ہو غنی تصور کیا جاتا ہے جب کہ ایک شخص جس کی آمدنی بہت زیادہ ہو مگر سیر نہیں ہوتا ہو اور ہمیشہ خود کو محتاج دیکھتا ہے فقیر تصور کرتا ہے۔ امام حُسین علیہ السلام فرماتے ہیں : جو ہر چیز کی حرص کرتا ہے وہ فقیر ہے لہذا اگر ساری دنیا بھی اُسے دے دی جائے تو وہ سیراب نہیں ہوتا۔

وہ افراد جو غیر شرعی حرام روزی کے پیچھے بھاگتے ہیں دراصل وہ فقیر ہیں لیکن وہ افراد جو آبرومندی کے ساتھ اپنی کم روزی اور درآمد پر شاکر رہتے ہیں وہ غنی ہیں۔

اسی کے ساتھ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اپنی خوراک سے راضی رہنے سے زیادہ فقر و فاقہ کو دور کرنے والی کوئی دولت نہیں ہے۔
غنا ء کی صورت میں شکر پروردگار واجب ہے،

پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب بڑھے (اور پھلے پھولے) اور کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا کو بھی کبھی تکلیف اور کبھی راحت یونہی پہنچتی رہی ہے۔ تو ایک دم ہم نے ان کو اس طرح پکڑ لیا کہ انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو سکا۔
(سورہ اعراف/95)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: فقر دنیا اور آخرت میں چہرے کے سیاہی کا باعث ہے؛

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ امام علی علیہ السلام نےمحمد بن حنفیہ سے فرمایا کہ میں خوف زدہ ہوں اُس دن سے کہ جس دن تم فقیر ہو، کیونکہ فقر انسان کے دین کو تباہ کردیتا ہے یا ناقص کردیتا ہے اور یہ چیز انسان میں کم عقلی کا باعث ہوتی ہے اور انسان درست اور صحیح فکر کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: فقیری زیرک آدمی کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے عاجز کردیتی ہے او ر مفلس اپنے وطن میں بھی غریب الوطن اور اکیلا ہوتا ہے۔

فقر بہت سے گناہوں کا سرچشمہ ہےاور انسان کو غیر شرعی حرام روزی کی طرف راغب کرتا ہے جیسے کہ رشوت، فراڈ، کرپشن؛ اگر کوئی ایمان میں طاقتور ہو اور فقر میں مبتلا ہوجائے تو ممکن ہے کہ گناہ میں نہ پڑے مگر بہت ممکن ہے جیسے کہ کہا گیا کہ فقر بہت سے گناہوں کے دروازے کھول دیتاہے ۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: سنگین فقر و فاقہ بدنام کرنے والی دولت سے بہتر ہے۔

یہ مسئلہ اقوام پر بھی صادق آتا ہے؛ فقیر قوم اقتصادی طور پر غیروں کی دست نگر بن جاتی ہے اور پھر سیاسی اور پھر ثقافتی طور پر غلام بن جاتی ہے یہ مسئلہ جہاد اکبر ہے اور درحقیقت امر بالمعروف اورنہی از منکر کرتے وقت کوشش کرنی چاہیے کہ اس موضوع کو اسلامی معاشروں میں رائج کریں اور کوشش کریں کہ فقیری اور دست نگری کو خود سے دورکریں۔

فقیری جہاں روپے پیسے میں ہوتی ہے وہاں فقیری روحانی طاقت اور ایمان کی بھی ہوتی ہے۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: آگاہ رہو کہ فقر و فاقہ ایک مصیبت ہے اور فقر سے زیادہ سخت جسمانی امراض ہیں اور جسمانی امراض سے زیادہ سخت دل کی بیماری اور روحانی فقر ہے۔

جہالت کی مفلسی اور فقیری خود فرد کیلئے بھی اور معاشرے کیلئے بھی بہت زیادہ دردناک ہوتی ہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: عقل و علم سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور جہل و نادانی سے بڑھ کر کوئی فقر و ناداری نہیں۔

نیز ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ہر بے نیازی سے بالاتر عقل و خرد مندی کا سرمایہ ہے اور سب سے بڑی ناداری حماقت ہے۔

اسلامی دستورات میں جہاں فقیر کیلئے اپنی خوراک سے راضی رہنے کی تلقین کی گئی ہے وہیں غنی افراد اور امیر لوگوں پر فرائض رکھے گئے ہیں کہ وہ اسلامی سماج میں فقراء کا خیال کریں۔

جیسے کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دولت مندوں کے مال میں فقیروں کی خوراکیں مقرر کی ہیں لہذا اگر کوئی فقیر بھوکا رہتا ہے تو اس لئے کہ دولت مند نے اُس کے حصہ کو سمیٹ لیا ہے اور خدواند متعال ان سے اس بارے میں سوال کرنے والا ہے۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جب دولت مند نیکی اور احسان میں بخل کرنے لگتا ہے تو فقیر اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے بدلے بیچ ڈالتا ہے۔

قرآن مجید میں فقر و ناداری کے حوالے سے دسیوں آیات موجود ہیں،

ایک جگہ خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے: شیطان تمہیں مفلسی اور تنگدستی سے ڈراتا ہے۔ اور بے حیائی و غلط کاری کا تم کو حکم (ترغیب) دیتا ہے۔ اور اللہ تم سے اپنی بخشش اور اپنے فضل و کرم کا وعدہ کرتا ہے۔ خدا بڑی وسعت والا اور بڑا جاننے والا ہے۔
(سورہ بقرہ/ 268)

ایسے افراد جو اپنی تخلیق کردہ مصنوعات اور اپنی تجارت پر گھمنڈ کرتے ہیں اور انفاق سے گریز کرتے ہیں کہ محتاجوں اور مساکین کو کچھ دیں ایسے افراد کیلے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

اگر ہم چاہیں تو اس (پیداوار) کو (خشک کر کے) چُورا چُورا کر دیں تو تم باتیں بناتے رہ جاؤ۔ (سورہ واقعہ /65)

خداوند تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں ہر طرح کے فقر و تنگدستی سے محفوظ رکھے نیز ہم کو مالی حقوق ادا کرنے والوں میں شمار فرمائے۔ ہم کو پروردگار عالم کا ہر حال میں شاکر بنائے اور صبر و استقامت کی توفیق عطافرمائے۔ آمین یا رب العالمین

تحریر: سید جہانزیب عابدی ----- 8 رمضان 1436ھ - 25 جون 2015ء
 
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.