رشوت دینے اور رشوت لینے والا
دونوں جہنم کی آگ میں ہیں (الحدیث)دیگر بیشتر اسلامی ممالک میں رشوت خوری
کو ایک ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا ہے مگر میرے دیس کا باوا آدم ہی نرالا
ہے یہاں جو جتنا بڑ اچور ہوگاا ٹنا ہی زیادہ اپنی معصومیت کا شور مچائے
گا،،کہ لوگ اسے بے گناہ سمجھیں ایسا ہی لبادہ اوڑ نے کی ناکام کوشش کرنے
میں ایک انتہائی نااہل اور کرپشن کنگ ہیڈ ماسٹر مصروف ہے، معزز قارئین کرام
چند روز قبل ضلع اوکاڑہ کے معروف پسماندہ علاقہ حویلی لکھا میں قائم سرکاری
ہائی سکول نمبر1میں تعینات بطور ِ سنیئر ہیڈ ماسٹر کی ریکارڈ کرپشن بارے آپ
اور متعلقہ اداروں کو تفصیلی طور پے آگاہ کیا تھا جس پے ای،ڈی،او ایجوکیشن
،ڈی،سی،او ،ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ساہیوال ا ور سیکرٹری پنجاب سمیت صوبائی
محتسب اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پے اِس انتہائی بددیانت اور نااہل 19گریڈ کے
جام شورو یونیورسٹی سندھ سے M,A جعلی ڈگری حاصل کرنے والے سنیئر ہیڈ ماسٹر
کے خلاف انکوائری کا سلسلہ شروع کردیا ہے آپ احباب کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ
اِس غیرذمہ دار اور نااہل ہیڈ ماسٹر کی ریکارڈ کرپشن بارے تفصیلی کالم میں
میں نے آپ کو بتایا تھا کہ موصوف نے کیسے اپنے بیٹے کی فرمائش کو فوری پورا
کرتے ہوئے سکول فنڈ سے اسے مبلغ 80,000کی موٹر سائیکل خرید کردی کیسے کرپشن
کی دلدل میں پاوٗں سے لیکر ناک تک ڈوبے ہوئے موصوف نے سکول میں قائم مسجد
کی 5000 پختہ اینٹیں اور سکول کے دوٹرک کرش(بجری) کہ اپنے گھر بجھوائے
،کیسے اِس نے اپنی قریبی عزیزہ کی شادی پے سکول سے قیمتی درخت کٹوا کر اُن
سے پکوان تیار کرایا،موصوف کی سکول کے فنڈ سے کی جانے والی ریکارڈ کرپشن پے
ایک بار پھر نظر ڈالیں ،21.2.2011اِس بہترین تعلیمی ادارے کے لئے انتہائی
منہوس دن ثابت ہوا کہ موجودہ پرنسپل اِس ادارے میں بطور ِ پرنسپل تعینات
ہوا موصوف نے آتے ہی اپنے مسلک کا اِس سرکاری ادارے میں پرچار شروع کردیا
اور دورانِ اسمبلی طلبہ کو سختی سے منع کردیا کہ وہ اسلامی نعرے ( نعرہ رسا
لت) وغیرہ وغیرہ نہیں لگائیں گے یہ ایک انتہائی سنگین اور احساس معاملہ تھا
خیر! موصوف کی ریکارڈ کرپشن کی تفصیلات کو اپنے کالم کی زینت ایک بار پھر
اِس امید کے ساتھ بنا رہا ہوں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، ڈائریکٹر
اینٹی کرپشن پنجاب صوبائی محتسب ، وزیر تعلیم اور خود وزیر اعلیٰ پنجاب
صاحب انکوائری مکمل کرتے ہوئے اِ سانتہائی غیر ذمہ دار اور نااہل نام نہاد
ہیڈ ماسٹر کے خلاف ضرور نوٹس لیکر اِس سے پائی پائی کا حساب لیں گے ۔موصوف
نے چارج سنبھالتے ہی انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن بورڈ لاہور سے
300کرسیاں ہڑپ کیں کہ جن پے طلبہ بیٹھ کر امتحانات دیا کرتے تھے یہاں سے یہ
کرسیاں غائب کرواتے ہوئے اپنے نجی سکول جوکہ ( سن رائز پبلک الیمنٹری سکول)
کے نام سے منسوب ہے وہاں رکھوا دیں ،سی،سی گرانٹ اور ایف،ٹی،ایف گرانٹ سے
جعلی اور فرضی رسیدیں بنا کر حکومتی خزانے کو لاکھوں کا ٹیکہ ٹھونسا
گیاجبکہ جن چیزوں کی رسیدیں بنائی گئیں ہیں وہ چیزیں موصوف نے شہر کے ایک
معروف محلہ عیدگاہ میں ایک مکان کی تعمیر پے وصول کیں جوکہ مکان بعد میں
اِس نے جہیز میں اپنی بیٹی کو فراہم کیا ،2012,2013کے این ،ایس،بی سے
ایم،ایی،آر گرانٹ سے سکول کے رنگ وروغن پر ایک کثیر رقم کے خرچ ہونے کو
ظاہر کیا گیا مگر حقیقت اِس کے برعکس ہے اور اِ س کا م پے بھی موصوف نے
لاکھوں روپے کی کرپشن کی ،موصوف کرپشن کرنے میں اتنا دیدہ دلیر اور نڈر ہے
کہ سکول میں مخیر مقامی لوگوں کی جانب سے فراہم کردہ واٹر کولر جن کی تعداد
چار تھی جبکہ 2013,2014کے سکول بجٹ سے موصوف مذید چار واٹر کولر سکول لایا
جن کی کل تعداد آٹھ بن گئی مگر اب صرف ایک واٹر کولر سکول میں موجود ہے
باقی غائب ،اِسی طرح دسمبر ٹیسٹ2014 میں مڈل حصہ سے فی بچہ 50روپے وصول
کیئے گئے جبکہ رسیدیں این،ایس،بی پرنٹنگ میں ڈال کر بچوں سے وصول کردہ رقم
بھی ہڑپ کرگیا رواں سال کے امتحانات ششم اور ہفتم میں بھی بچوں سے پیپر فنڈ
کے نام پے ہزاروں روپے اکٹھے کیئے گئے ہیں موصوف نے جماعت نہم اور دہم کے
ریگولر طلبہ کے داخلہ فارم ساہیوال بورڈ میں جمع کروانے کے نام پے فی طالب
علم 35روپے وصول کیئے جوکہ تقریباً چالیس ہزار روپے رقم بنتی ہے وہ بھی ہڑپ
،آگے چلیں تو موصوف نے سکول کے قیمتی درخت بغیر ضلعی انتظامیہ کے نوٹس میں
لائے کاٹ کر فروخت کیئے اور پیسے اپنی جیب میں درخت فروخت کرنے کے الزام پے
اِس سے قبل بھی موصوف جن دو سکولوں کا پرنسپل رہ چکا ہے وہاں بھی اسے زلت
ورسوائی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے خیر موصوف نے ادارے کا چارج سنبھالتے ہی
سکول کی حدود میں کھڑے ہونے والے ریڑھی بانوں کو بجائے اِس کہ ،کہ انہیں
پابند کیا جاتا کہ وہ سکول میں غیر معیاری چیزیں فروخت ناکریں بلکہ فی
ریڑھی 250روپے بطورِ بھتہ وصول کرتے ہوئے تمام ریڑھیاں سکول کی چار دیواری
کے اندر لگوانا شروع کیں جو سلسلہ تاحال جاری وساری ہے اسی طرح مذکورہ
پرنسپل نے این،ایس،بی 2012,2013.2013,2014میں فرنیچر کی مد میں سکول کونسل
کی منظوری کے بغیر ٹھیکہ دیا اور اپنے من پسند ٹھیکے دار کو یہ ٹھیکہ دیکر
اُس سے باقائدہ طور پے اپنا حصہ وصول کیا جبکہ سکول کونسل کا ماہانہ اجلاس
بلانا موصوف کبھی بھی اِس لیئے گواراہ نہیں کرتا کہ معززین کو اپنی
کارستانیوں بارے کنہیں دریافت ہی ناہوجائے کونسل کے معزز اراکین کے نوٹس
میں لائے بغیر اور بغیر کسی دتخط اراکین سکول کونسل کہ خود ساختہ جعلی
دستخط بنا کر فنڈز وغیرہ وصول کررہا ہے ،سکول کو ایک فلاحی تنظیم نے دو سو
یونیفارم دیئے کہ سکول میں زیر تعلیم مستحقین بچوں کو یہ وردیاں فراہم کی
جائیں مگر وہ تما م یو نیفارم پرنسپل صاحب پنے زاتی نجی سکول میں لے گیا
ایک طرف تو خادمِ اعلیٰ پنجاب سرکاری تعلیمی معیار کو بہترین بنانے کے لئے
دن رات اقدامات کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب موصوف روزانہ کی بنیاد پے
نجی سکولوں کے اساتذہ اور سربراہان کو اپنے سکول بلا کر نجی سکولوں کی
تشہیر کرواتا ہے اور اِس کام کے پیسے اور دیگر مراعات حاصل کرتا ہے موصوف
کی ایماء پے اِس سکول ، سکول ٹائم شہر کے ایک معروف نجی سکول اور کالج میں
چند اساتذہ لیکچر دینے روزانہ کی بنیاد پے جاتے ہیں اِسی سکول میں موصوف کے
عزیزو اقارب بغیر کسی ماہانہ فیس کے پڑھ رہے ہیں کہ،، کچھ لو اور کچھ دو یہ
دینے کی صورت میں سکول وقت کے دوران اساتذہ کو اِس نجی سکول وکالج میں
بھیجتا ہے تو آگے سے نجی سکول کی انتظامیہ نے اِس کے بچوں کو مفت تعلیم
فراہم کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے،موصوف کرپشن کرنے اپنے اختیارات سے تجاوز
کرنے کے نت نئے طریقوں پے عمل پیرا ہوکر پیسے اکھٹے کرنے میں مصروف ہے یہی
وجہ ہے کہ سکول کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہواکہ سالانہ امتحانات نہم اور
دہم 2015کے لئے اِس امتحانی سنٹر میں پیپر دینے کے لئے آنے والے طلبہ سے فی
کس موٹر سائیکل اور سائیکل اندر لانے کی مد میں مبلغ دس روپے بطورِ بھتہ
وصول کرنے کو سکول کا پرنسپل اپنا شیوا سمجھتا رہا ،ہماری بد قسمتی یہ ہے
کہ کسی نا کسی طور کرپشن میں ہر دوسرا فرد ملوث پایا جاتا ہے یہی وجہ تھی
کہ فروری 2015میں کرپشن کے اِس بااثر بے تاج بادشاہ کے آڈٹ کے لئے آنے والے
ایک اہلکار نے مبلغ پچاس ہزار روپے بطورِ نذرانہ عقیدت وصول کرتے ہوئے چلتا
بنا کوئی آڈٹ نہیں کوئی انکوائری نہیں پیسوں کی چمک دیکھا کر موصوف پرنسپل
نے اپنے حق میں سب اچھا کی رپورٹ لکھوا لی،،پرنسپل صاحب سکول ہذا کے چند
اساتذہ کی حاضری ازخود اپنے ہاتھوں سے اُن کے دستخط کرکے لگاتا ہے اور وہ
اساتذہ ڈنکے کی چوٹ پے یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صاحب کو خوش کیا ہوا ہے
،سکول لیونگ اور کریکٹر سرٹفکیٹ فراہم کرنے کی مد میں پرنسپل ہر فرد سے
100وصول کرتا ہے اور سکول کے کلیریکل سٹاف کو سختی سے پابند کررکھا ہے کہ
مذکورہ مد میں اکھٹے ہونے والے پیسے روزانہ کی بنیاد پے پرنسپل صاحب کو
فراہم کیئے جائیں ،جماعت پنجم اور ہشتم کے بورڈ امتحانات میں موصوف نے اپنے
ادارے کے اُن اساتذہ کہ جو موصوف کو فی کس مبلغ 1000فراہم ناکرسکے انہیں
پیپر مارکنگ پے تعینات کردیا گیا تاہم جنہوں نے موصوف کو یہ پیسے بطورِ
رشوت دے دی اُن کی ڈیوٹی نالگائی گئی سکول میں زیر تعلیم جماعت نہم کے وہ
طلبہ کہ جنہوں نے الیکٹریکل اور مکینیکل مضمون پڑھنے کے لئے حکومت ِ پنجاب
نے اُن طلبہ کے لئے سکول انتظامیہ وافر مقدار میں قیمتی سامان بجلی کی
تاریں وغیرہ وغیرہ فراہم کیں مگر وہ تمام سامان پرنسپل صاحب اپنے گھر لے
گئے ،،خادمِ اعلیٰ پنجاب کی جانب سے سکول کو فراہم ہونے والر سولر لیمپ بھی
موصوف اپنے گھر لے جاچکا ہے اور اِس حوالے سے سکول سٹاف جب بھی موصوف سے
بات کرتا ہے تو یہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے الٹا اساتذہ کے گلے پڑنے
کو ترجیح دیتا ہے اور ہر بات پے 19گریڈ کا آفیسر ہوں کے راگ آلاپتا ہوا
سنائی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مجھے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا ،درجہ
چہارم کا ملازم ظفر اﷲ عرصہ دراز سے غائب ہے جبکہ پرنسپل نے اپنی ہتھیلی
گرم کرواتے ہوئے چُپ سادھ رکھی ہے اسی طرح اظہر ولائت نامی ٹیچر بھی گزشتہ
ڑیڑھ ماہ سے سکول سے غائب ہے جس سے موصوف نے ماہانہ مک مکاوٗ کرتے ہوئے اُس
کی حاضری ازخود لگانے کی ٹھان رکھی ہے،،،،جناب سینئر پرنسپل صاحب آپ ایک
انتہائی معزز اور معتبر شعبہ کے ساتھ منسلک ہیں آپ کا حافظہ اتنا کمزور
کیوں ہے ؟اپنی نگاہِ توجہ زرا سی بہترین سکول کے ماضی پر ڈالیں تو جناب
محترم چوہدری عطاء الیی صاحب ،جناب میاں محمد اشرف وٹو صاحب ،جناب خالد خان
لودھی،جناب محمود اقبال خان لودھی کے ادوارِ سربراہ مذکورہ ادارہ اِس گلشن
کی ہر کونپل خوب پھلی پھوٹی ہے کیوں کہ یہ تمام اشخاص اپنے اِس گلشن کی
آبیاری میں اتنے مخلص تھے کہ شاید جتنے یہ تمام معتبر نام خود سے بھی ناہوں
،اگر آپ کو یاد ہو تو؟؟؟؟؟؟؟یہ وہی ادارہ اور اساتذہ ہیں نا ،،،،،کہ جنہوں
کی انتھک محنتوں کے نتیجے میں اِسی ادارے سے سے میاں منظور احمد خان وٹو
پیدا ہوئے کہ جو آج ملکی سطح کی سیاست میں انتہائی منفرد شخصیت کے حامل ایک
قد آور سیاسی فرد ہیں،اسی ادارے نے درجنوں ڈاکٹروں ،اعلیٰ فوجی وپولیس
افسران ،بیروکریٹس،اساتذہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی کو بہترین لوگ اور
انتہائی قابلِ رشک شخصیت کے روپ میں ڈھالا،یہ وہی اساتذہ اور ادارہ ہے
نا،،،،کہ یہاں سے اسلم جگر جیسے ہونہار طالب علم پیدا کیئے کہ جنہوں نے
بورڈ ٹاپ کیا مگر ایک آپ کا یہ قابلِ تشویش پرنسپل شپ کا دور ہے کہ نئے
تعلیمی سال کے آغاز سے اب تک صرف اور صرف 160 طلبہ نے جماعت ششم میں داخلہ
لیا کہ ماضی میں نئے داخلہ کی نسبت یہ صفر ہے اسی طرح جماعت نہم میں ایک
بھی نیا داخلہ نہیں ہوسکا کیوں ،،کیوں ،،صرف جناب کے والدین سے استعمال
کردہ انتہائی جاریحانہ رویہ نجی تعلیمی اداروں کے سربراہان کو اپنے سکول
بلا کر اُن کے نجی تعلیمی اداروں کی ( کمپئن) کروانا کہ سرکاری سکولوں میں
کیا رکھا ہے ،،جناب آپ حکومتی خزانے پے بوجھ کیوں بن بیٹھے ہیں اگر آپ نے
پرائیویٹ سیکٹر کی ہی پاسداری کرنی ہے تو کم از کم سرکاری ادارے کے تشخص کو
تو مجروح ناکریں اور ناہی میرے سمیت دیگر شہری سماجی ،سیاسی ،فلاحی اور
تعلیمی حلقے ایسا ہونے دیں گے ،،،معزز قارئین آپ کی گوش گزار یہ کرنا بھی
ضروری سمجھوں گا کہ موصوف اپنی ریکارڈ کرپشن کے ٹھوس اور سچ پے مبی
انکشافات پڑھ کہ بجائے اپنی اصلاح کرنے کہ آگ بگولا ہوا پھر تا ہے اور اپنے
حواری مردہ ضمیر لوگوں سے بل واسطہ یا بلا واسطہ میری زبان بندی کروانے
میری قلم کو سچ لکھنے سے روکنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے مگر موصوف کی
یہ خام خیالی ہی ٹھہرے گی کہ میں انشاء اﷲ سچ لکھنے اور مذید انکشافات کرنے
کے سلسلہ کو جاری وساری رکھوں گا اِس کھلے چیلنج کے ساتھ کہ میرے کالم میں
موصوف کہ جن کارناموں کا زکر کیا گیا ہے یہ اُن میں سے ایک کو بھی غلط ثابت
کردے میں میرے معزز قارئین ببانگِ دھل آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آپ جس
مرضی سزاء کا تعین کریں گے میں اُسے من وعن تسلیم کروں گا،یہاں تک بات رہی
موصوف کی تو میرا اِن سے صرف اور صرف ایک ہی مطالبہ ہے یا تو انہیں اپنی
اصلاح کرنا ہوگی اور سکول فنڈ سے ہڑپ کی جانے والی پائی پائی واپس سکول فند
میں جمع کرانا ہوگی ،یا پھر انہیں اب اِس سکول کی پرنسپل شپ سے جانا ہوگا
اور میں موصوف پرنسپل صاحب کی گوش گزار یہ بھی کرتا چلوں کہ جناب ہر بندہ
ہر صحافی اور ہر نیوز پیپر ،ٹی،وی چینل بکاوٗ مال نہیں اگر مردہ ضمیروں کی
اِس دنیا میں کمی نہیں تو یہاں ایماندار افراد بھی موجود ہیں آپ کی مجھے
دلوائی جانے والی یہ (گیڈر بھبکیاں )بے سود ہی ثابت ہونگی میں اپنی تحریر
سے طاقت کے ایوانوں میں بیٹھی انتظامیہ کو ضرور جگاوٗ ں گا ،،،،مذکورہ
بہترین سکول اور اِس میں تعینات انتہائی قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ محنتی
ا ساتذہ کی میں تیہہ دل سے قدر کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا کیونکہ یہ جس
معتبر شعبہ سے منسلک ہیں وہ پیغمبروں کا شعبہ ہے مگر آپ جیسے نااہل پرنسپل
کا احتساب اب لازم ہے اور انشاء اﷲ دیر آئے مگر درست آئے ہی ثابت کروں گا ،
جو موصوف نااہل پرنسپل کے حواری عناصر ہیں اُن کو چیلج کرتا ہوں کہ موصوف
19 گریڈ کے آفیسر سے مجھے انگلش کی ایک ساد ہ ((application لکھوا دیں میں
صحافت چھوڑ دوں گا،،،جبکہ سکول کے سالانہ بہترین رزلٹ یا کارکردگی سے کسی
صورت بھی انحراف نہیں برتا جاسکتا تاہم اِس میں موصوف کا کوئی کردار نہیں
اِس سکول میں بہترین رزلٹ کا تمام تر بعد از اﷲ تعالیٰ اگر عمل دخل ہے تو
وہ یہاں کہ قابل اور انتہائی محنتی اساتذہ کا ہے، موصوف اور اِس کے حواریوں
کو بھی یہ یقین دلاتا چلوں کہ سچ کی ہی ہمیشہ جیت ہوتی ہے آپ لوگ اپنے
گھوڑے دڑالیں اور ناک سے لیکر پاوٗں تک کرپشن کی دلدل میں پھنسے موصوف
پرنسپل کا نام نہاد دفاع کریں مگر میں انشاء اﷲ ثابت کروں گا کہ سچ ہمیشہ
جیتے گا اور جھوٹ بولنے اور جھوٹ کی پاسداری کرنے والے کا منہ کالا اِس
جہان میں بھی اور روزِ محشر بھی،،، اُن معاشرتی ناسوروں نے جو صحافت کے
مقدس شعبہ کے ساتھ خود کو منسلک کرنے کا واویلا کررکھا ہے وہ یہ بکتے ہیں
کہ نام نہاد صحافی تو اُن بے لگام گھوڑوں کوفی الحال صرف اتنا ہی آئینہ
دیکھاوٗں گا کہ جو سرکاری میڈیا کے ساتھ وابستہ ہے جس کی اٹھارہ سالہ
صحافتی خدمات ہیں علاقہ بھر میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں اور الحمد واﷲ
اِس صحافتی کیریئر میں اﷲ تعالیٰ کی خاص مہربانی کرم وعنائیت سے فرد ِ واحد
نے بھی کبھی جس پے کرپشن اور بلیک میلنگ کا الزام تک نہیں لگایا وہ توٹھہرے
نام نہاد اور غیر ذمہ دار صحافی ،،،مگر وہ جسے صحافت کی ا،ب کا بھی پتہ
نہیں اور خود کو وہ بڑا (پھنے خان ) خود ساختہ صحافی گردانتا ہے وہ میرا
سٹیٹس نہیں کہ میں اُس کی فضول باتوں کا جواب دوں مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ
الحمدو اﷲ میرا پیر بھی ہے اور استاد بھی مگر میرا ستاد موصوف پرنسپل جیسا
مردہ ضمیر نہیں میرا پیر بھی کامل ہے اور استاد بھی کیونکہ بقول بابا بلھے
شاہ ؒ کہ (مرشداں باجھ نا راہ ہتھ آندے ،،،،دودھاں باجھ نا رجدی کھیر سائیں
) چور اور اُس کے حواری جتنا مرضی شور غوغہ کریں کیونکہ یہ مشہور وحقیقت ہے
کہ اگر چور نے چوری ماننی ہی ہو تو وہ چوری کرے کیوں ،،مگر وقت ثابت کرے گا
انشاء اﷲ ہیڈ ماسٹر کے روپ میں چھپے اِس سرکاری ڈاکو سے سرکاری خزانے کا
لوٹا ایک ایک پیسہ انشاء اﷲ واپس سرکاری خزانے میں دلوایا جائے گا انشاء
اﷲ۔۔۔(مسٹریویو) آپ کوئی فرشتے نہیں انتظار کریں آپ کو بھی ننگا کرتا ہوں ،
میری قلم میں جنبش آئی ہے تو حقائق کو منظر عام پے لاتا ہی رہوں گا ،حالات
مشکل ہوں اور راستہ کٹہن ہوگا مگر سچ کا ہی بول بالا ہو گا۔
معزز قارئین کرام آپ کی لاتعداد E.mails کے زریع مجھے پتہ چلتا رہتا ہے کہ
آپ بندہ ناچیز کے کالم کو بے حد پذیرائی بخش رہے ہیں جس پے میں آپ کا
انتہائی مشکور ممنون ہوں ۔اپنی قیمتی آرا سے نوازنے کا سلسلہ یونہی جاری
رکھیں آپ کی نیک تمناوٗں کا منتظر آپ کا اپنا ۔اﷲ ہم سب کا حامی وناصر! جب
بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو۔۔۔۔ڈٹ جاوٗ تم حسین کے انکار کی طرح |