گذشتہ دنوں (THE)ٹائمز
ہائیرایجوکیشن ورلڈیونیورسٹی رینکنگ کی رپورٹ میرے سامنے سے گزری جس کے
مطابق ایشیا کی سو بہترین جامعات میں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل
نہیں تھی :ایشیا میں پہلے نمبر پر جاپان کی یونیورسٹی آف ٹوکیو ،دوسرے نمبر
پر نیشنل یونیورسٹی آف سنگا پور اور تیسرے نمبر پر نیشنل یونیورسٹی آف ہانگ
کانگ ہے ۔خاص تو یہ ہے کہ اس سروے کے مطابق بھارت کی ۹ یونیورسٹیاں بھی اس
درجہ بندی میں شامل ہیں ۔اس تحقیقاتی رپورٹ کی رُو سے اس درجہ بندی میں جگہ
حاصل کرنے کے لیے ایک ادارے کو ٹائمز کے پانچ بنیادی شعبوں میں مضبوط
کارکردگی کا مظاہرہ کرنا لازم تھا ،جن میں تدریس ،تحقیق ،مثالوں کے اثرات ،صنعتوں
سے آمدنی ،اور بین الاقوامی نقطہ نظر شامل ہے اور بلاشبہ کسی بھی تعلیمی
ادارے کا یہی بنیادی مقصد ہونا چاہیئے۔ اسلیے یہ پاکستان کے لیے کوئی اچھی
خبر نہیں ہے کیوں کہ اعلی معیارِتعلیم ہی کسی معاشرے کے مستقبل کا تعین
کرتا ہے ، نہ جانے ہم کن خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں ،کونسے ترقیاتی کام
ہم سرانجام دے رہے ہیں ہمارے قائدین اور ان کے حلیف یوں اپنی کار کردگیوں
اور کامیابیوں کا تذکرہ کر رہے ہوتے ہیں جیسا کہ پاکستان ترقی یافتہ ملکوں
کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے اور اس کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیں جبکہ حقائق
یہ ہیں کہ پاکستان کی کوئی جامعہ اس کسوٹی پر پوری نہیں اترتی جو کہ اقوام
عالم کی نظر میں ان جامعات کا اصل مقصد ہے ۔
بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم کی زبوں حالی کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے اگر
ہم وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم پر ایک سرسری نظر ڈالیں تواکثر ایسی
شخصیات کے نام ہمارے سامنے آتے ہیں جو اس شعبے سے مناسبت ہی نہیں رکھتے تھے
یہی وجہ ہے کہ ان کی سرکردگی میں تیار کیا گیا تعلیمی ڈھانچہ بین الاقوامی
طور پر ہی نہیں زندگی کے کسی موڑ پر بھی کارآمد نظر نہیں آتا ۔افسوسناک بات
تو یہ ہے کہ اعلی تعلیم بھی سیاست کی نظر ہو چکی ہے ،وائس چانسلرز جیسی
پوسٹ کو میرٹ کی بنیاد پر نہیں سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پر کیا
جاتا ہے جبکہ دوسرے ممالک میں اس شعبہ کو خاص اہمیت دی جاتی ہے یہاں تک کہ
اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو ترقی پزیر ممالک کو تعلیم کی مد میں کم از کم
جی ڈی پی کا ۴ فیصد مختص کرنے کی سفارش کرتا ہے اورہمارے یہاں تعلیم پر
اوسطاً جی ڈی پی کا صرف ۲ فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے جس کا 70 فیصد تدریسی
عملے کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے ۔اور سرکاری اعدادو شمار کے مطابق بھی
شرح خواندگی صرف 60 فیصد ہے اور اگر ہم اپنے نظام تعلیم کا عمیق نظری سے
جائزہ لیں تو تدریسی نظام کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ سکول سسٹم کی خرابی
ہے،جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، یہاں تک کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ماہرین
تعلیم یونیورسٹیوں کی منصوبہ بندی کرتے وقت اسکول کی تعلیم کو کماحقہ اہمیت
ہی نہیں دیتے اور جب ہائر ایکوکیشن قائم ہوا تو اس نے بھی ساری فنڈنگ اور
پبلسٹی اپنے لیے رکھ لی اور اسکول کی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا جبکہ اسکول
ہی کسی بھی اعلی تعلیم کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے اگر بنیاد ہی کمزور ہو
گی تو قابل نظیر عمارت کیسے کھڑی ہوگی ۔الغرض وقت کی مانگ بدل چکی ہے مگر
ہم وہی دو اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھے ہیں جو جامعہ سے فارغ البالی کے بعد
ہمیں سوائے ڈگری نما کاغذ کے کچھ نہیں دیتی ۔اگر قسمت اچھی ہو تو نوکری مل
جاتی ہے ورنہ گھر سے بھی اور باہر سے بھی دھکے ہی ملتے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ
ہمارا نظام تعلیم نہ ملکی طور پر قابل قبول ہے اور نہ بین الاقوامی طور پر
اس کو پذیرائی یا حوصلہ افزائی حاصل ہے ۔
ایسا نہیں کہ پاکستان میں تعلیمی شعبوں میں کام نہیں ہورہا یا انھیں مناسب
فنڈ دستیاب نہیں ہیں بلکہ ہر سال تعلیم کے لیے خاطر خواہ رقم مختص کی جاتی
ہے ،تعلیمی اداروں کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی فنڈنگ کی جاتی ہے جس میں
اندرون اور بیرون ہر قسم کی فنڈنگ شامل ہے ۔بلاشبہ یہ امربھی قابل ذکر ہے
کہ ملک کے بعض حصوں میں تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں اور مشکلات حائل ہیں مگر
پھر بھی تعلیم کی شاہراہ پر پیش قدمی کا عمل جاری و ساری ہے ،جب سب کچھ ہو
رہا ہے تو کیا وجہ ہے ہمارا تعلیمی گراف بلند نہیں ہو رہا ؟
کیا ہمارے پڑھانے والے اعلیٰ تعلیمی معیار نہیں رکھتے یا وہ وقت کی ضروریات
سے آگاہ نہیں ہیں ؟آج رٹا سسٹم کا دور نہیں رہا سب جانتے ہیں ریسرچ کا دور
ہے ایسے اساتذہ اور سرگرمیوں کی ضرورت ہے جو بچوں میں فہم و فکر کو اجاگر
کر سکیں ،مگر اگر سکول کی دس سالہ تعلیم میں طلبا میں تنقید و تحقیق کے لیے
شوق یا مہارت پیدا نہ ہوئی ہوتو ایسا ہونا بہت مشکل ہے ،یہی وجہ ہے موجودہ
تعلیم حقیقی زندگی میں نفع بخش ثابت نہیں ہو پا رہی ۔آج اگر ہم اس سروے کو
قابل اعتنا نہ بھی جانیں تب بھی ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم ان خطوط پر اپنے
تعلیمی اداروں کو استوار کریں جو ہماری معاشی اور معاشرتی ترقی میں سنگ میل
ثابت ہوں ۔کیونکہ اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ آج تک جن جن ممالک نے
بھی ترقی کی ہے اس کی بنیاد تعلیم ہی تھی اس کے لیے ہمیں محکمہ تعلیم اور
تعلیمی ماہرین سے جواب طلب کرنا ہوگا کہ وہ کن ترجیحات کے تحت تعلیمی شجر
کی آبیاری کر رہے ہیں کہ جب کسی ماہر تعلیم نے کالج یا یونیورسٹی کا چکر
لگانا ہو تو عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جلد از جلد رجسٹرز اور فائلز تیار
کی جاتی ہیں اور اس جگہ کو دلہن کی طرح سجا سنوار کر پیش کر دیا جاتا ہے
جیسا کہ ہمیشہ سے یہی ہو رہا ہے، در حقیقت اس زبوں حالی کے ذمہ دار
بالواسطہ یا بلا واسطہ یونیورسٹی کے سربراہانِ اقتدار ہیں اگر اپنے ملک میں
درجہ بندی کے پیمانوں پر پورا اترنے کے لیے ایسے بناوٹی ہتھکنڈوں پر عمل
کیا جاتا ہے تو کیسے ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ اقوام عالم کے معیار پر ہم پورا
اتر سکتے ہیں ۔
اگر ہم عالمی معیار کے مطابق اپنی یونیورسٹیوں کا جائزہ لیں تو ایسے ایسے
تلخ حقائق سامنے آئیں گے کہ مجھے یقین ہے کہ میرا قلم بھی خطاکار ٹھہرے گا
۔گھروں سے نام نہاد جزبہ خدمت سے سرشار ہو کر آنے والے اکثر و بیشتر اساتذہ
وقت گزاری کے لیے ہی آتے ہیں اور اکثر صرف حاضری لگوانے ہی آتے ہیں ۔اور
یونیورسٹیوں کا ماحول بھی مغربی نقالی کی نظر ہو چکا ہے جس میں طلبا پڑھنے
کے لیے کم اور دوسری سرگرمیوں میں زیادہ ملوث پائے جا رہے ہیں ۔جس کا واضح
ثبوت ہمارے امتحانات کے نتائج ہیں ۔تدریس تفریح میں تبدیل ہو چکی ہے ،
تحقیق ہوتی ہی نہیں ،اس لیے کوئی یونیورسٹی طلبا کو ذہین سکالر نہیں بنا
سکتی یہ بعد ازاں ان کی محنت ،لگن اور مطالعہ ہوتا ہے جو وہ منفرد مقام
حاصل کرتے ہیں ،اور جب ریسرچ نہیں ہوگی تو ایجادات ،اختراعات نہیں ہونگی تو
آمدنی کیسے ہوگی ،جب ایجادات نہیں ہونگی تو اسٹاف ،طلبا کے عالمی اداروں
اور محققین کے رابطے نہیں ہونگے اور دنیا کیسے جانے گی کہ ہمارا معیار
تعلیم کس حد تک نفع بخش ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تعلیم جس کا انحصار
کسی ملک کے مستقبل اور ترقی و کامیابی پر ہوتا ہے اس میں کوئی قابل قدر
نمایاں کام سر انجام نہیں دئیے گئے ۔اور اب بھی مسلسل مجرمانہ غفلت کا
مظاہرہ کیا جا رہا ہے حقائق سے نظر چرانے سے مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ
اس ناسور کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس کا انجام بالآخر تباہی و بربادی ہی
ہوتا ہے ۔اس لیے پہلے بھی عرض تھی کہ مہر و ماہ پر کمندیں نہ ڈالیں ،بنیادی
مسائل کا حل تلاش کریں ۔تعلیمی صورتحال پوری دنیا کے سامنے آچکی ہے ،سیاسی
موشگافیاں بھی بین الاقوامی میڈیا میں زیر بحث ہیں ،انتشار ،افراتفری
اورلاقانونیت کا ایک بازار گرم ہے ،الیٹرانک میڈیا اسلامی کلچر کا چہرہ مسخ
کر رہا ہے ،نوجوان نسل والدین سے ہی دست و گریبان ہے ۔رشوت ،سفارش اور بے
راہ روی عام ہے ، انسان سسک رہا ہے ،بے گناہ مارا جا رہا ہے ،پولیس گردی
عام ہو رہی ہے ،مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے ،علاج کی سہولیات کا
فقدان ہے ،لوگ ہستپالوں کے باہر دم توڑ رہے ہیں اور انھیں داخل نہیں کیا
جارہا ،گرمی سے ستائے لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں ،اس نفسا نفسی میں لوگ
جانیں دے اور لے رہے ہیں اور ستم تو یہ ہے کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں ہر
چارہ گر کو چارہ گری سے گریز ہے ۔آج سوال یہ نہیں رہا کہ ہم کہاں جا رہے
ہیں آج سوال یہ ہے کہ ہم کیوں جا رہے ہیں ؟
ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری راہبری کا سوال ہے |