پوری دنیا میں اپنے عہدے کی ذمہ
داریوں کا احساس اور اور ان کی ادائیگیوں کے لئے تگ ودو کرنا پڑتی ہے ۔امریکہ
جسے ہم سب اپنا دشمن مانتے ہیں وہاں کوئی بڑا واقعہ ہوجائے تو مستعفی ہوئے
بغیر چارہ نہیں ہوتا ۔اکادکاواقعات میں بھارت کا وزیرریلوے ٹرین حادثے کی
وجہ سے وزیرمستعفی ہو کر اپنے گھر چلا گیا لیکن ملک خدادادپاکستان میں شاید
اقتدار میں آیا ہی عیش کیلئے جاتا ہے اور جب کوئی سانحہ ہوجاتا ہے تو افسوس
اورمذمت کرکے عوام کو بے وقوف بنادیا جاتا ہے اور مرنے والوں کے لئے 5لاکھ
کا چیک دیکر اس کی قبر پر مٹی ڈال دی جاتی ہے اور پھر تحقیقات کا وہ سلسلہ
شروع ہوتا ہے جو شاید ہی کبھی ختم ہونے کا نام لے ۔اگر ان کا کوئی اپنا کتا
بھی مرجائے تو آسمان سراٹھا لیتے ہیں ۔
2جولائی بوقت 12بجے دوپہر سپیشل ٹرین گوجرانوالہ ہیڈچھناواں کے قریب پل پر
پہنچتی ہے ۔تو اردگرد کے رہائشی روٹین کی طرح اس ٹرین کو دیکھتے ہیں اور اک
دوسرے کوبتاتے ہیں کہ یہ ٹرین کون سی ہے ۔ریلوے ٹریک کے پاس رہنے والے اس
عادت سے بخوبی واقف ہیں ۔کچھ لمحوں کے لئے ان کی توجہ یہ ٹرین کھینچتی ہے
اور پھر وہ اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتے ہیں لیکن کچھ ہی لمحوں بعد ان کی
عقل دھنگ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ ٹرین کے پہنچتے
ہی چھناواں کا پل منہدم ہوجاتا ہے ۔ جس سے انجن اور تین بوگیاں نہر میں
گرجاتی ہیں ۔ جس سے یونٹ کمانڈر لیفٹینٹ کرنل عامرجدون،اور دیگر افسران
سمیت 19افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ شنیدن ہے کہ ڈوب کرمرنابہت اذیت ناک
ہوتا ہے ۔شہید ہونے والے افراد میں 5افسر،لانس نائیک ،4سپاہی ،واشرمین،ٹرین
ڈرائیوراور لیفٹینٹ کرنل کی اہلیہ اور دوبچے شامل ہیں ۔ٹرین میں 6مسافر
بوگیاں اور 21مال بردار بوگیاں تھیں جس میں فوجی سازوسامان تھا ۔6بوگیوں
میں 200افراد تھے جس میں سے اکثر نے تیر کر اپنی جان بچائی ۔85 افراد کو
ریسکیوکیا اور زخمیوں کو سی ۔ایم ۔ایچ گوجرانوالہ منتقل کردیا گیا ۔آئی ایس
پی آر کے مطابق ٹرین پنوں عاقل سے جوانوں کو لے کر کھاریاں جارہی تھی ۔ریلوے
ڈرائیور ریاض جو کہ فیصل آباد کا رہائشی تھا وہ بھی اس حادثے میں جاں بحق
ہواوہ پہلے ہی عارضہ قلب میں مبتلا تھا اور سروس کی ریٹائرمنٹ کے قریب تھا
۔ڈرائیور نے سوگواروں میں بیوہ،تین بیٹے اور تین بیٹیا ں چھوڑی ہیں ۔پاک
فوج کے پہنچنے سے پہلے پاکستان کی قابل فخر ایک غیرسرکاری تنظیم فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن نے ریسکیو کا کام شروع کیا ۔پاک فوج نے ریسکیوٹیموں کی
مددسے جلدسے جلد لوگوں کو ریسکیوکرنے کی ممکن حد تک کوشش کی جس میں وہ
کامیاب بھی رہی۔ممکن تھاکہ ریسکیو کے کام میں تاخیر کی وجہ سے مزید شہادتیں
ہوتیں لیکن اﷲ نے ہمیں محفوظ رکھا اور وہ لوگ جو دوسروں کی مددکیا کرتے تھے
آج اپنے ہی لوگوں کو بوگیوں میں سے اور پانی میں سے ڈھونڈ ڈھونڈکرنکال رہے
تھے۔ عظیم ہوتے ہیں ایسے لوگ جو اپنے مذہب و قوم کی خاطر قربان ہوکر اﷲ کی
جنتوں کے وارث بن جاتے ہیں ۔ اس افسوسناک واقعہ نے پوری قوم کو اشک بار
کردیا اور اوپر سے شہید ہونے والے بھی ہمارے وہ جوان ہیں جو ہماری سرحدوں
کی حفاظت اور دہشت گردوں کے خلاف اس زمین پر اﷲ کی برھان ہیں تو دکھ مزید
زیادگہرا ہوجاتا ہے ۔ہر آنکھ اشکبار تھی اور شہیدوں کے بلنددرجے کے لئے
دعاگو تھی ۔
یوں لگتا ہے جیسے پاکستان بناہی حادثات وسانحات کے لئے ہے کوئی دن ایسانہیں
جاتا جب کسی طرف سے کسی نہ کسی سانحے یا حادثے کی خبر نہ آتی ہو۔سب سے
زیادہ حادثات سڑک پرہوتے ہیں جن میں سے اکثریت میں ہماری اپنی غلطی ہوتی ہے
۔اور بعض حادثات کے متعلق خیال ہوتا ہے یہ تو بالکل بھی نہیں ہانے چاہیئے
جیسا کہ مذکورہ حادثہ ہے۔ گوجرانوالہ میں موجودچھناواں پل تقریباََ سوسال
پرانا ہے ۔ملک بھر میں ریلوے کے13ہزار841 پل ہیں جن میں سے تقریباََ55فی صد
پل اپنی مدت پوری کرچکے ۔بدقسمتی سے کسی بھی حکومت سے ان کو مرمت کرنے اور
بوسیدہ پلوں کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ ضرورت اس امر
کی ہے کہ پلوں کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے۔مذکورہ ٹرین حادثے کے بعد
ایک4رکنی تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی ہے جو کہ اس سارے واقعہ کی تحقیقات کرے گی
۔مختلف خبریں اور رپورٹس نظر کے سامنے سے گذررہی ہیں جیسے کہ ٹرین کی رفتار
مقررہ حد سے کہیں زیادہ تھی اور پل سے400میٹر دور نٹ بولٹ ملے ہیں جبکہ فش
پلیٹس اورٹریک پر رگڑ کے نشانات بھی ملے ہیں ۔عینی شاہدین کے مطابق ٹرین پل
سے پہلے ہی پٹری سے اتر چکی تھی اور پل تک پہنچنے تک وہ اپنا توازن کھو چکی
تھی۔کچھ بھی ہے اس واقعہ کی شفاف تحقیقات ہوں اور ذمہ داران کو قرارواقعی
سزا دی جائے ۔ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہرواقعہ کو دہشت گردوں سے جوڑ کراپنا
پلو جھاڑ دیتے ہیں ۔خدارا ایسا غضب نہ کریں ۔وہ تو اﷲ کی درگاہ سے روندے ہی
ہوئیں کہیں ہمارے ذمہ داران بھی اس صف میں کھڑے نہ ہوجائیں ۔
پاک فوج ہمارا فخر ہیں ہمارامان ہیں ۔ان کی تعریف کے لئے سچ ہے کہ میرے پاس
الفاظ کا مجموعہ ختم ہوجا تا ہے اور میں جب بھی کسی فوجی جوان کو وردی میں
دیکھتا ہوں تو بے اختیار میرا ہاتھ سیلوٹ کو اٹھ جاتا ہے ۔اور مجھے یاد ہے
کہ جب بچپن میں ہمارے اسٹیشن پر کبھی فوجی ٹرین آکر رکا کرتی تو ہم فوجی
جوانوں کو دیکھنے اور ان سے ہاتھ ملانے کو سعاد ت خیال کیا کرتے تھے۔خیر یہ
باتیں پھر کبھی ! یہ اداراہ ہمارا اثاثہ ہیں تو ان ے اس طرح سفر کے لئے فول
پروف انتظامات ہونے چاہیئے اگر غلطی ڈرائیور کی ہے تو پھر بھی باقی ذمہ
داران کو سزا ملنی چاہیئے ۔ٹھیک ہے ناگہانی واقعات کا مقابلہ انسانی بساط
سے باہر ہے تاہم ممکنہ حد تک کسی بھی حادثے سے بچنے کے لئے ایسے اقدامات
کئے جاسکتے ہیں جس میں نقصان کم سے کم ہو۔پاکستان ریلوے کو ایسے حساس
مقامات کی جانچ کرنی چاہیئے اور ان کوفی الفور ٹھیک کرکے مستقبل کے لئے بھی
کوئی ٹھوس لائحہ عمل بنانا چاہیئے تاکہ ہم مزید کسی بھی اس طرح کے سانحے سے
بچ سکیں ۔وزیرریلوے کا ریلوے کے حوالے سے ایک اچھاتریک ہے ہم امید کرتے ہیں
کہ وزیر ریلوے اس کو مزید بہتر سے بہتر بنائیں گے کیونکہ یہ ان کا فرض بھی
ہے اور ان کے ووٹروں کا حق بھی۔ |