محبت جرم کیوں؟

لفظ محبت اپنے اندر ایک ایسی جازبیت رکھتا ہے کہ جس کو سنتے ہی انسان اپنے اندر انجانی مٹھاس سی محسوس کرتا ہے۔ محبت کئی طرح کی ہوتی ہے۔ سب سے افضل اور محبت کا پہلا درج ’’اﷲ رب العزت کی محبت اپنے بندوں سے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں سے ماں کی محبت سے 70 فیصد سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ دوسری وہ محبت ہے کہ جو والدین اپنے بچوں سے اور بچے اپنے والدین سے، عزیز و اقارب اپنے رشتے داروں سے کرتے ہیں۔ دنیا میں ایک دوسرے سے کی جانے والی محبت مختلف درجوں سے مختلف انداز اختیار کر جاتی ہے۔ ان تمام محبتوں میں سے ایک ایسی محبت بھی کہ جس کا تعلق ایک نوجوان محرم لڑکی اور لڑکے سے یا پھر اس کے برعکس سے ہے۔ یہ وہ محبت ہے کہ جس کو ایک دوسرے کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ ایک ایسی محبت کے جس کے بعد عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ محبت کرنے والا کسی کام کا نہیں رہتا ہے۔ بڑے بڑے شاعر محبت کی شاعری کرتے ہوئے دنیا چھوڑ گئے۔ کسی نے لڑکے اور لڑکی کی اس محبت کو انتہائی نقصان دہ قرار دیا ، تو کوئی اس کے بغیر زندگی کو ادھورا کہہ گیا۔ کوئی محبوب کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا نظر آتا ہے تو کوئی خود کو محبت میں ناکامی پر صبر کرنے والا سمجھتا ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی انسان کو زندگی میں کسی ایک شخص سے ایسی محبت کا ہونا ضروری ہے کہ جس پر بعد میں ان کی آپس میں ازداوجی زندگی استوار ہو سکے۔مگر موجودہ حالات اتنی تیزی کے ساتھ اپنا سفر طے کر رہے ہیں، محبت کے انداز میں بھی اسی طرح اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے دو محبت کرنے والے اپنی محبت کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے تھے وہ اپنے محبوب کو مختلف قسم کی کاغذ کی پرچیاں لکھا کر تے تھے۔ اس جدید دور میں محبت کا اظہار اور پھر اس کی طرف پیش رفت بھی جدید ہوگئی ہے۔ اس جدید دور میں محبت کے انداز، طور طریقے سب کچھ بدل گیا مگر اس جدید دور میں اگر نہیں بدلی تو صرف محبت کی شادی پر قتل کی دھمکیاں ملنا، دو محبت کرنے والوں کی لاشوں کا گرنا، ڈر ڈر کے زندگی گزارنا، نہیں بدلا! آج بھی اگر کوئی محبت کرتا ہے تو غالب گمان یہ ہے کہ اس کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اس قدر اذیت ناک ہوتا ہے کہ جس کے بعد شاید ہی کوئی غلطی سے محبت کا نام اپنی زبان پر لائے۔ مگر محبت چیز ہی ایسی ہے کہ جو نہ تو شکل و صورت کو دیکھتی ہے اور نہ ہی امیری و غریبی کو۔

اگر کسی سے محبت ہوجائے تو اس کے بعد کا سلسلہ صرف اور صرف شادی کی دہلیز پر ہی آکر ختم ہوتا ہے۔ مگر اس مقصد کی تکمیل کے لیے ہمیشہ سے محبت کرنے والوں کو پریشانیوں کا سامنا رہا ہے۔ لڑکے کو لڑکی سے محبت ہوئی مگر والدین نہ مانے اور لڑکی کی شادی بغیر اس کی منشا اور مرضی کے کہیں اور طے کر دی گئی، جس کے بعد لڑکے اور لڑکی نے گھر سے بھاگ کر اپنی محبت کو بچانے کے لئے انتہائی قدم اٹھایا جس کے بعد دونوں کے گھروں میں کشیدگی بڑھی اور پھر لڑکی اور لڑکے کو اس محبت کی شادی کے جرم کی سزا اپنی موت سے چکانی پڑ گئی۔ محبت کی شادی کرنے والے جوڑے کو قتل کردیا، گولیاں ماردی گئیں، گھر سے نکال دیا گیا، جائیداد سے عاق کر دیا گیا جیسے واقعات آئے روز اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ محبت کا ہو جانا کائنات کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے۔ کسی کے دل سے محبت نکالنا اور پھر اس کو اپنے دل سے کسی کی محبت کا نکالنا بہت مشکل ہے۔ جب یہ کام مشکل ہے تو پھر والدین کو یہ بات سوچنی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی منشٰی اور رضا مندی کو دیکھ کر فیصلہ کریں۔ اگر والدین اپنی بیٹیوں اور اپنے بیٹوں سے ان کی رضامندی کے مطابق شادی کے مراحل کو طے کر یں تو کبھی ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ کبھی کسی والد یا والدہ کے لئے اس کی بیٹی مسئلہ نہ بنے۔

بچوں کی تربیت اور ان کی اصلاح کا ذمہ اسکول کے پرنسپل یا پھر کسی کالج کے پروفیسر کا نہیں ہے، بلکہ یہ بھاری ذمہ داری والدین پر لاگو ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی اور حیات طیبہ ﷺ کے اسوہ کے مطابق کریں۔ اپنے بچوں کے لئے مغربی کلچر اوران کی ثقافت کو معیار بنانے کی بجائے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اورسیرت صحابیات کو اپنا معیار بنائیں، تو ان کی اولادیں محبت تو کریں گی، مگر اس سے کہ جس سے اس کے والدین چاہیں گے۔ دراصل والدین جس رشتے کو پسند کر رہے ہوتے ہیں وہ اچھا اور سلجھا ہوا ہوتا ہے، مگر ان کے خیال کے برعکس ان کے بچوں کے ذہن میں کوئی ایسا شخص آئیڈیل بس چکا ہوتا ہے جس کو معاشرہ اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا تو ایسی صورت حال میں بچوں کو بھی اپنے والدین کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے اور اگر والدین اپنے بچوں کی تربیت ہی ایسی کریں گے کہ جس کو وہ پسند کرتے ہیں اس کو ان کے بچے پسند کرنے لگیں گے۔

اب تصویر کا دوسرا رخ بھی پلٹ کر دیکھتے ہیں تاکہ حق و انصاف کیا جاسکے۔ محبت کی شادی کرنا یوں تو جرم نہیں تھا مگر اس کی وجہ سے جو برے اثرات ہماری معاشرتی زندگیوں پر مرتب ہوئے ہیں ان کو دیکھ کر محبت کی شادی نہ صرف جرم ہے بلکہ یہ ایک ایسا جرم ہے کہ جو جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے۔یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ محبت کی شادیاں اکثر ناکام ہو جاتی ہیں۔ یا پھر یہ شادیاں ایسے گل کھلاتی ہیں کہ جس کا معاشرے کو گراں قیمت نقصان چکانا پڑتا ہے۔ ذیل میں کچھ ایسے واقعات زکر ہیں جو اس قدر لرزہ خیز ہیں کہ الحفیظ والاماں۔ ’’بیٹی کی شادی پرتنازع، خاوند نے ساتھیوں کی مدد سے ٹانگیں اور ہاتھ کاٹ کر بیوی کو پھانسی دے دی۔مرضی کار شتہ نہ کرنے پر بیٹے نے باپ کو گولی مار دی ۔ شادی شدہ عورت نے اپنے آشنا کے ساتھ مل کر خاوند اور اس کی دو بچوں کو قتل کردیا۔ محبت کی شادی میں کسی بھی وجہ سے رکاوٹ بننے پر بیٹی نے والد کو قتل کر وادیا۔ محبت کا ڈرامہ رچا کر لڑکی کی عزت اور زیور لوٹ کر لڑکا فرار ہوگیا۔ لڑکی کو محبت کے چنگل میں پھنسا کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناکر لڑکے اور اس کے دوستوں نے قتل کردیا‘‘۔

مذکورہ بالا واقعات وہ ہیں کہ جو کسی نہ کسی اخبار کی سرخی بن چکے ہیں۔ خبروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے معاشرے میں چادر اور چاردیواری کے اندر کی زندگی کس قدر المناک بن چکی ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ ہمارے ارباب حل و عقد ، دانشور، اور پڑھے لکھے مرد وخواتین اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کرتے۔ ازدواجی زندگی میں اسلام نے مرد اور عورت کو جو حقوق عطا فرمائے ہیں ان کا تحفظ کیا جاتا، لیکن یہ حقیقت بڑی افسوس ناک ہے کہ گزشتہ پچاس برس سے وطن عزیز میں ایسا طبقہ حکمرانی کرتا چلا آرہا ہے جو مغربی طرز معاشرت سے اس قدر مرعوب ہے کہ اپنے تمام مسائل کا حل اسی طرز معاشرت کی پیروی میں سمجھتا ہے۔

یہاں پر اس موضوع کو بیان کر نے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرے تاکہ معاشرے میں کثرت سے سر اٹھاتی اس زحمت کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ مذکورہ صورتحال کو دیکھ کر چند باتوں پر توجہ دینی کی ضرورت ہے جس کے بعد معاشرہ اپنے آپ مثالی بن جائے گا۔ سب سے پہلی چیز یہ کہ گھروں میں پردہ کا اہتمام ہو تاکہ نہ ہی کوئی غیر محرم کسی کو دیکھے اور نہ وہ اس محبت جیسی مصیبت میں مبتلا ہو۔ دوسری ذمہ داری والدین کی بنتی ہے کہ وہ سنت رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے اپنی اولاد کی شادی ان کی جائز رضا مندی کے ساتھ کریں اور کوئی بھی فیصلہ ان پر زبردستی نہ تھوپیں۔ جبکہ تیسری ذمہ داری ہمارے نوجوان طبقہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا ادب و احترام کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے والدین کی بات کو ترجیح دیں۔ محبت کا جو اصل معیار ہے وہ ہمارے پاک پیغمبر جناب محمد رسول اﷲ ﷺ نے بیان فرمادیا ہے کہ ’’میں نکاح سے بڑھ کر اور کسی چیز کو محبت بڑھانے والا نہیں دیکھتا‘‘ مطلب یہ کہ اصل محبت وہ ہے جو شرعی نکاح کے بعد ہوتی ہے۔ آپ کی محبت کی حقیقی حق دار کوئی غیر محرم لڑکی نہیں بلکہ وہ لڑکی ہے جو آپ کے عقد نکاح میں آچکی ہے۔ آپ ساری دنیا کی لڑکیوں کو چھوڑکر صرف اور صرف اس سے محبت کریں۔
Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 76286 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.