فاتح خیبر ،شیر خدا،اخی رسول،داماد پیغمبرؐ، خلافت راشدہ
ؓکے تاجدار خلیفۂ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ
میدان جنگ میں مرحب کے سامنے سیدنا علیؓ آتے ہیں مرحب کہتا ہے کہ میں عرب
کا بہادر شخص ہوں میرے سامنے جو آتا ہے اسے شکست فاش ہی ہوتی ہے شیرخدا
سیدنا علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے میں
دشمن پر شیر کی طرح حملہ کرتا ہوں اور دشمن میرے حملے سے نہیں بچ سکتا مرحب
شیر خدا کوحملے کی دعوت دیتا ہے شیر خدا ؓ فرماتے ہیں ہم حملے میں پہل نہیں
کرتے (مرحب ) تم حملہ کرو مرحب حملہ کرتا ہتے سیدنا علیؓ شیر خدا اس کا
حملہ روکتے ہیں جسم پر ہلکی سی خراش آتی ہے اس کے بعد حضتے علیؓ جوابی حملہ
کرتے ہیں تو مرحب کو دو ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور مرنے سے پہلے ایک جملہ
کہتا ہے جسے کسی شاعر نے شعر میں رقم کردیا کہ آج مجھ کو پہلی بار
شکست فاش ہے لگتا ہے تو ہی حیدر کرار ہے -
اسلام کی اس نامور شخصیت ،صحابیٔ رسول کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا لکھا
جاتا رہے گا آپؓ کی مدحت قیامت تک جاری وساری رہے گی بندۂ ناچیز اس عظیم
ہستی کے بارے میں چند سطور لکھنے کی جسارت کر رہا ہے ۔
امیرالمومنین خلیفۂ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ ؓ بن ابی طالب بن عبدالمطلب
بن ہاشم بن عبد مناف ،بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر
بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ آپؓ کا نام ونسب تھا ۔ آپ ؓ کی کنیت
ابولحسن ؓ والحسینؓ بن ابن عم رسول ﷺ ہے۔آنجناب ؓکا لقب ابوتراب ہے آپؓ اسی
لقب مبارک سے عموماً پکارے جاتے تھے کیونکہ حضور ﷺ نے آپؓ کو یہ لقب بطور
خاص عطاء فرمایا تھا اور حضور ﷺ اسی لقب سے سیدنا علیؓ کو پکارا کرتے تھے
واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے تو حضرت علی ؓ
مٹی میں لوٹ پوٹ سو رہے تھے تو حضورﷺ نے پیار سے فرمایا ابوتراب اٹھو،ابو
تراب اٹھو۔
صحیح روایت کے مطابق آپؓ بعثت نبوی سے دس برس پہلے اس دنیا میں تشریف لائے
۔جب حضور ﷺ نے سوموار 9 ربیع الاول 40 عام الفیل 8فروری 610 ء کو اعلان
نبوت فرمایا تو بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حیدرکرار ؓ ہی
تھے۔ابویعلیٰ خود حضرت علیؓ سے ہی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پیر کے دن
نبی ہوئے اور میں منگل کے دن مسلمان ہوا ۔آپؓ کا شمار عشرہ مبشرہ ؓمیں ہوتا
ہے اور چوتھے خلیفہ ٔ راشدؓ ہوئے جو جید صحابہ کرام ؓ کی رائے سے مسند
خلافت پر براجمان ہوئے۔امام غزالیؒ فرماتے ہیں جو شخص سیدنا علی حیدرکرار ؓ
کی خلافت پر مطمعٔن نہیں ہوا وہ اپنے گھریلو گدھے سے بھی زیادہ بھٹکا ہوا
ہے۔آپؓ حضور ﷺ کے ہمراہ ہرمشکل گھڑی میں ساتھ رہے اور سوائے غزوہ تبوک کے
ہر غزوے میں موجود رہے۔
حضرت علی ؓ کا رنگ گندمی ،موٹی،موٹی آنکھیں،بارعب گھنی داڑھی ،سینہ مبارک
پر کثرت سے بال ،حسین وجمیل چہرہ،مسکراتے ہنستے ہوئے،زمین پر نرمی سے چلنے
والے تھے۔ آپؓ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی فاطمہ بنت ہاشم تھا۔
صحیح بخاری کے مطابق حضور ﷺ نے خیبر کے دن ارشاد فرمایا کہ شخص کو عطاء
کروں گا جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے۔اﷲ اور اس کے رسولﷺ
بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیبر فتح کروائے گا جب رات
گذر گئی جس کی صبح خیبر فتح ہونا تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ علیؓ کہاں
ہے؟صحابہؓ نے عرض کی یارسول اﷲ ﷺ وہ لشکر کے پرلے کنارے پر ہیں اور ان کی
آنکھوں میں تکلیف ہے آپﷺ نے انہیں بلایا اور آپؓ کی آنکھوں میں لعب مبارک
لگایا تو آپؓ کی آنکھیں ایسی تندرست ہوگئیں گویا کوئی تکلیف ان میں تھی ہی
نہیں ۔آپؓ نے ان سے فرمایا سیدھے کھڑے ہوجاؤ ۔واﷲ تمہارے ذریعہ سے اﷲ تعالیٰ
اگر ایک شخص کو ہدایت دے دے تو تمہارے لئے یہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہے لہٰذا
اﷲ تعالیٰ نے خیبر کی فتح حضرت علیؓ کے ہاتھوں مسلمانوں کو نصیب فرمائی۔
جنگ نہروان کے بعد تین خارجیوں نے اسلام کے تین عظیم سپوتوں ،اہم ترین
شخصیات سیدنا علی المرتضیٰؓ ،سیدنا امیرالمومنین معاویہ ؓ اورحضرت عمرو بن
العاص ؓ کو شہید کرنے کا پروگرام بنایا ان میں سے ایک عبدالرحمان بن
عمرو،عوف بن ملجم الحمیدی ثم الکندی (لعین) نے شیر خدا حضرت سیدنا علی
حیدکرارؓ پر حملہ کرنے کا ذمہ لیا ۔چنانچہ بروز اتوار 17 رمضان المبارک 40
ہجری بمطابق 27 جنوری 661 ء کو جب آپؓ صبح کی نماز کیلئے گھر سے نکلے تو اس
بد بخت نے آپؓ پر زہر آلود خنجر سے وار کیا اور آپؓ کے قاتل کو گرفتار بھی
کیا گیا ،آپؓ نے اسی سال21 رمضان کو جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ ؓ کی نماز
جنازہ آپؓ کے بڑے صاحبزادے سیدنا حسنؓ بن علیؓ نے پڑھائی ۔آپؓ کی مدت خلافت
4 سال چھ ماہ اور کچھ دن تک رہی ۔حضرت علیؓ کی شہادت کی خبر جب سیدنا
امیرالمومنین معاویہ ؓ کو ملی تو ان کا دل بھر آیا اور اس موقعہ پر سیدنا
معاویہ بن ابی سفیان ؓ نے فرمایا کہ حضرت علی ؓ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے
ساتھ ہی علم فقہ بھی رخصت ہوگیا۔٭٭٭٭ |