کراچی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ

کیا کراچی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہ سوال شدت سے سر اٹھائے ہوئے ہے۔ کراچی میں ایک عرصے کے تعطل کے بعد اچانک شروع ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے اس سوال کی شدت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔۷۰۰۲ تا ۹۰۰۲ تک جب پورے ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی تھیں۔ کراچی کے دامن میں کوئی ایسی چنگاری نہ تھی۔ لیکن ۹۰۰۲ کے جاتے جاتے، ۷۲ دسمبر کو یوم عاشور کے موقع پر ہونے والے دھماکے نے کراچی کو بھی ملک کے دوسرے غیر محفوظ کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر چہلم کے موقع پر ہونے والے دھماکوں نے پوری کردی۔ فروری ۰۱۰۲ میں چہلم کے موقع پر ہونے والے دھماکے نے ان حلقوں کے شبہات کو یقین میں بدل دیا کہ کراچی میں دہشت گرد پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس کی تصدیق حال ہی میں ملا برادر اور ملا عمر کے داماد کی گرفتاری سے بھی ہوتی ہے۔ کراچی میں ہزاروں مدرسے ہیں۔ جن کے بارے میں ماضی میں یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ جہاد کے لئے یہاں سے طالب باہر بھیجے جاتے ہیں۔ کراچی بہت سے لسانی،مذہبی، سماجی، معاشی گروہوں، اور جرئم پیشہ افراد کے منظم گروہوں کا بھی مرکز ہے۔ جو مشتعل، پڑھے لکھے، بے روزگار نوجوانوں کو ان گروہوں سے وابستگی کو جنم دیتا ہے۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے وقعات میں اضافہ فاٹا میں آپریشن شروع ہونے کے بعد ہوا ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ کراچی میں ان وقعات کی ذمہ داری کراچی کے شہریوں پر عائد ہوتی ہے۔ جو اپنے پڑوسیوں سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ افراد اس کا حل محلہ کمیٹیوں کے فعال کردار میں تلاش کرتے ہیں۔ جو سیاسی اثر سے پاک ہوں۔ کراچی میں فاٹا کے آپریشن کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جس کو چیک کرنے کی ذمہ داری قانون نافد کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ کراچی میں جائیداد کی خریداری کو مانیٹر ہونا چاہئے۔ یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ کراچی میں گزشتہ دو برسوں میں دہشت گردی کے واقعات نے کیوں جنم نہیں لیا۔ اس کے اسباب یہ بتائے جاتے ہیں کہ پہلے کراچی کا امن امان دہشت گردوں کی ضرورت تھا۔ جو کاروائی کے بعد یہاں پناہ لیتے، یا زخمی ہونے پر علاج کرانے کراچی آجاتے تھے۔

بہت سے افراد کراچی کے واقعات کو عالمی تناطر میں دیکھتے ہیں۔ علاقائی سیاسی زمینی حقائق جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، تیس سال پہلے اس کھیل کا آغاز ہوا تھا۔ دنیا کے معاملات میں اب وسط ایشیا، مشرق وسط کے بعض ممالک اور جنوبی ایشیاء کا تکون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے اہم ترین معاملات، ایرانی ایٹمی پاور کی خواہشات، چین میں مسلمانوں کو کچلنے کی مہم، بھارت کی علاقائی بالادستی کی خواہش اور پاکستان کی داخلی سلامتی، وسط ایشیا میں تیل اور گیس کے ذخائر اور امریکہ کی علاقے میں دلچسپی ایسے معاملات ہیں۔ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ القاعدہ اپنے وجود سے محروم ہے۔ لیکن کسی نہ کسی سطح پر اس کی ذہانت دخل انداز ہے۔ امریکہ کی پاک افغان پالیسی میں بھارت بھی داخل ہوگیا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ یہاں تک کہ افغانستان کی وزارت تعلیم کو بھارت چلا رہا ہے۔ را کے چھ ایجنٹ افغانستان میں حالیہ خود کش حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جو بھارت کی مداخلت کا کھلا ثبوت ہیں۔ روس، چین، افغانستان، بھارت، سعودی عرب سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ کابل کا راستہ کشمیر سے براہ راست ہونا چاہئے۔ اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ اور آئیندہ برسوں میں اسرائیل کے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے افراد اس خیال کے بھی حامی نظر آتے ہیں کہ موجودہ دہشت گردی بغیر سرمائے کے ناممکن ہے۔ اور اب دہشت گردی ایک کاروبار ہے۔ کراچی میں ہونے والی لوٹ مار، اغوا، ڈکیتی کی وارداتوں کے پیچھے بھی دہشت گردوں کی کاروائی نظر آتی ہیں۔ جو آج کا فنڈز جمع کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اس وسیع تر صورتحال میں کراچی میں دہشت گردی کی وارداتوں پر گہری نظر رکھنے، اور کراچی کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے ایک مربوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419244 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More