ورلڈ ہاکی لیگ میں پاکستان ٹیم کی شرمناک کارکردگی کے بعد
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اولمپک گیمز میں تین مرتبہ گولڈ
میڈل لانیوالی ٹیم آج اولمپکس میں شرکت سے بھی محروم ہوگئی ہے، ہاکی کو اس
مقام تک پہنچانے کے ذمہ دار پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت اور مسلم لیگ (ن)
کی موجودہ حکومت ہیں۔ آج پاکستانی ہاکی ٹیم اپنی تاریخ میں پہلی بار ورلڈ
کپ کے بعد اب اولمپکس میں بھی شرکت سے محروم ہوگئی ہے اور اسوقت اس کے ذمہ
دار وزیراعظم نواز شریف اور اُنکے مقرر کردہ کھیلوں کے انچارج ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے پاس ہاکی آفیشل سے ملنے کا ٹائم ہی نہیں ہوتا
کیونکہ وہ ہاکی کو زندہ رکھنے کےلیے پیسے مانگ رہے ہوتے ہیں، جبکہ بین
الصوبائی رابطے کے وزیر اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے حکام بھی کھلاڑیوں سے
ملنے میں اپنی توہین محسوس کررہے ہوتے ہیں۔یہ یاد رہے کہ ہاکی ہمارا قومی
کھیل ہے۔ اس بدترین ناکامی کے بعد قومی کھیل کے چیف پیٹرن وزیراعظم نواز
شریف کو شاید اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا ہے۔ نواز شریف نے گرین شرٹس کی
کاردگری کو شرمندگی کا باعث قرار دیتے ہوئے ہاکی فیڈریشن اور وزارت کھیل سے
وضاحت طلب کرلی ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی قومی ہاکی کھیل کی ترقی کے لیئے
سفارشات دی جائیں اور ہاکی ٹیم کی شکست کی وجوہات بتائی جائیں کہ اولمپک
گیمز سےقومی ہاکی ٹیم کیسے باہر ہوگئی؟۔
واہ بھولے بادشاہ نواز شریف صاحب آپ کو یہ نہیں معلوم کہ اولمپک گیمز
سےقومی ہاکی ٹیم کیسے باہر ہوگئی اور آپ قومی کھیل کے چیف پیٹرن بننے ہوئے
ہیں، اگرآپ تھوڑا سا وقت نکال کر ہاکی کی طرف توجہ دیتے تو ایسا ہر گز نہ
ہوتا اور نہ ہی پاکستانی ہاکی ٹیم کو انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت کےلیے
فیڈریشن کو مخیر حضرات سے ’بھیک‘ مانگنی پڑتی اور کھلاڑی ڈیلی الاؤنسز تک
سے محروم رہتے۔ ماضی قریب میں پاکستان کوایک مہذب اور پرامن ملک کے طور پر
متعارف کرانے میں کھیلوں کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسکوش
اور ہاکی پر ہمارا راج تھا، ہماری کرکٹ ٹیم کو دنیا کی اچھی ٹیموں میں شمار
کیا جاتا تھا۔ جب سے پاکستانی معاشرئے میں کرپشن، سفارش اور دوسری برایئوں
میں اضافہ ہوا ہے اور سارئے پاکستانی معاشرئے پر اسکا برااثر پڑاہے وہاں
کھیل بھی ان برایئوں سے نہ بچ سکے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نےہاکی کی چیمپئنز
ٹرافی کی بنیاد 1978ء میں رکھی تھی، ایک وقت تھا جب ہاکی کے سارئے اعزاز
ہمارئے پاس تھے۔ دنیا کی ہر اچھی ٹیم نے ہم سے شکست کھائی تھی، لیکن آج
ہاکی کا برا حال ہے۔ پاکستانی ہاکی ٹیم اپنی تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے
بعد اب اولمپکس میں بھی شرکت سے محروم ہوگئی ہے۔ ہاکی کو اس حال پر پہنچانے
کے ذمہ داران کی برطرفی کا مطالبہ تو دور، وہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور قاسم ضیا
نے سنبھالی اور انھیں یہ عہدہ پارٹی اور حکومت سے وفاداری کی بنیاد پرملا۔
قاسم ضیا کے ادوار میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کو حکومت سے بے حساب پیسے ملتے
رہے جنھیں ہاکی کے نام پر خرچ کرنے کا دعویٰ کیا جاتا رہا۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت گئی تو پاکستان ہاکی فیڈریشن میں بھی مسلم لیگ (ن) کے اثرات ظاہر
ہوگئے۔قاسم ضیا کے دور میں ٹیم کے ہیڈ کوچ بنائے جانے والے اختر رسول 2013ء
میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے نئے صدر اور رانا مجاہد سیکریٹری منتخب ہوگئے
ہیں۔ اختر رسول دوسری مرتبہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے۔ اگست 1997ء
میں ان کی زیرِ صدارت پاکستانی ٹیم پہلی بار چیمپیئنز ٹرافی کے لیے
کوالیفائی نہ کرسکی جبکہ قومی جونیئر ٹیم بھی جونیئر ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی
تھی۔ اختررسول بحیثیت کوچ بھی مطلوبہ نتائج دینے میں بری طرح ناکام رہے جس
کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم پہلی مرتبہ عالمی کپ کے لیے
کوالیفائی نہ کرسکی۔خبروں کے مطابق حکومت نے ہاکی ٹیم کی شکست کا ملبہ صدر
پی ایچ ایف اختر رسول پر ڈال کر انہیں عہدے سے ہٹانے کا اصولی فیصلہ کرلیا
گیا ہے۔
ماضی میں ٹیم کی خراب کارکردگی کا رونا روتے ہوئے کم ازکم اس بات کی تو
ڈھارس تھی کہ ٹیم کم از کم باہر جاکر کھیلتی تو ہے لیکن اب تو ورلڈ کپ اور
اولمپکس میں شرکت کی محرومی نے پاکستانی ہاکی کو اس کی تاریخ کے پست ترین
مقام پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستانی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور اپنے دور کے
شہرۂ آفاق فارورڈ شہباز احمد نے ورلڈ کپ کے بعد اب اولمپکس سے بھی پاکستانی
ہاکی ٹیم کے پہلی بار باہر ہونے کو پاکستانی ہاکی کا بدترین دن قرار دیا
ہے۔ شہباز احمد نے بی بی سی اردو سروس کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سیاسی
اثر و رسوخ کے حامل پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ارباب اختیار نے پاکستان کی
ہاکی کو اس کے انتہائی پست ترین مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ شہباز احمد نے جو
1994ء کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان تھے، کہا کہ وہ یہ بات وثوق سے
کہہ سکتے ہیں کہ انھی کھلاڑیوں کی مدد سے پاکستانی ٹیم اولمپکس میں
کوالیفائی کرسکتی تھی، لیکن بیلجیئم جانے سے چند روز پہلے ہی کوچنگ اسٹاف
تبدیل کر دیا گیا۔شہباز احمد کا کہنا تھا کہ فیڈریشن کے عہدیداران جس طرح
مزے لوٹ رہے ہیں اس نے کھلاڑیوں کو سخت مایوس کیاہے اور وہ بھی اب یہ سوچ
رہے ہیں کہ ٹیم میں آئیں یا کسی بیرونی لیگ سے معاہدہ کر لیں۔
پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان محمد عمران نے بیلجیئم سے وطن واپسی پر ایک
انٹرویو میں کہا کہ آئرلینڈ اور فرانس جیسی ٹیموں کی تیاری بھی پاکستانی
ٹیم سے اچھی تھی جبکہ پاکستانی کھلاڑی اس سے محروم رہے۔ پاکستانی ہاکی ٹیم
کے کپتان محمد عمران نے اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ میں شکست کا سبب کھلاڑیوں
کو نہ دی جانے والی سہولتوں کو قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کو
ٹریننگ کے دوران ضروری سہولتیں نہیں ملیں۔ کیمپ میں کھجور اور روح افزا اور
نان چنے کھلاکر آپ کھلاڑیوں سے توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ورلڈ چیمپئن کا
مقابلہ کریں۔ کھلاڑیوں کے پاس ملازمتیں نہیں ہیں انہیں ڈیلی الاؤنس تک نہیں
ملتا اس کے باوجود کھلاڑی اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنےگئے اور ہر میچ
میں سخت محنت کی تاہم نتائج پاکستانی ٹیم کے حق میں نہیں گئے۔
پاکستانی ہاکی ٹیم کے کوچ کے شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ وہ کوچ کے عہدے پر
مزید نہیں رہنا چاہتے۔ شہناز شیخ نے کہا ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کی ناقص
کارکردگی کی ذمہ دار پاکستان ہاکی فیڈریشن ہے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر
میڈیا سے بات کرتے ہوئے قومی ہاکی ٹیم کے کوچ شہنازشیخ نے کہا کہ ٹیم کو
نفسیاتی اور معاشی بحران کا سامنا ہے، ہاکی پلیئرزکو نا کنٹریکٹ ملتا ہے
اورنا ہی اُن کے معاشی مسائل کاکوئی حل ہے، انہیں اور ہاکی کھلاڑیوں کوڈیلی
الاونس بھی نہیں دیا جاتا،قومی کھلاڑی اگرہاکی لیگ نہ کھلیں تو بھوکے
مرجائیں، سب کو چاہیے کہ ٹیم کے حق میں بات کی جائے، انھوں نے کہا کہ
کھلاڑی اور کوچ آٹھ ماہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں اور وہ خود ڈیڑھ سال سے
بغیر پیسے کے کام کر رہے ہیں، آسٹریلیا میں ڈیلی الاؤنس کا نصف ملا جبکہ
کوریا میں ایک پیسہ بھی ڈیلی الاؤنس کی مد میں نہیں دیا گیا۔‘ حکومت نے 6
سے 8 ماہ پہلے نوٹس لیا ہوتا تو آج نتائج مختلف ہوتے، وزیراعظم کو چاہیے کہ
تمام اولمپینز کو بٹھا کرحل نکالیں 6 سال سے بہت تماشا ہورہاہے اب اس کاحل
نکالنا ہے۔شہناز شیخ کا مزید کہنا تھا کہ اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ کے لیے
ٹیم کو تیاری کے لیے جو سہولتیں چاہیے تھیں وہ نہیں ملیں۔اُن کا کہنا تھاکہ
انھوں نے فیڈریشن سے کہا تھا کہ ٹیم کو کوالیفائنگ راؤنڈ سے تین ہفتے پہلے
بیلجیئم بھیجا جائے لیکن ٹیم ایونٹ شروع ہونے سے صرف چار دن پہلے وہاں
پہنچی۔ شہناز شیخ نے بتایا کہ وہ قومی ہاکی کی بہتری کے خیال سے فیڈریشن
میں شامل ہوئے تھے لیکن اصلاح الدین اور انھوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا
تھا کہ وہ چند ماہ میں ہی ٹیم کو بلندی پر لے جائیں گے۔
پاکستان کا قومی کھیل اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے اس کا چرچا بھارت میں
بھی ہوا اور کچھ عرصہ پہلے بھارتی ہاکی نے پاکستانی ہاکی کو مالی مدد کی
پیشکش کی تھی۔ اس بھارتی پیشکش کو تو مسترد کر دیا گیا تاہم پاکستان کے
عوام کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی ٹیم جو ساڑھے چار دہائیوں تک کپ
کی قائد ٹیم رہی ہے اسکا ورلڈ کپ کے لئےنااہل قرار دیا جانا ملک میں ہاکی
کے تمام پرستاروں کے لئے ایک دہچکہ تھا۔ اور اب اولمپکس سے بھی پاکستانی
ہاکی ٹیم کے باہر ہونے پر ہاکی کے پرستاروں کا مؤقف ہے کہ پاکستان ہاکی
فیڈریشن کی انتظامیہ نے ٹیم کو وہ سہولیات مہیا نہیں کیں جو اسے کوالیفائی
کرنے میں مدد دیتیں ۔ وزیراعظم نے قومی کھیل کے فروغ کے لیے سفارشات بھی
طلب کیں ہیں۔ وزیر اعظم صاحب سب سے پہلے تو ہاکی ٹیم کومعاشی بحران سے نکال
دیں، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے فنڈز جلد از جلد جاری کیے جایں لیکن ان سب سے
پہلے پاکستان ہاکی فیڈریشن کو کرپٹ لوگوں سے نجات دلایں اور فیڈریشن کو
ایسے لوگوں کے حوالے کیا جائے جو واقعی ہاکی ترقی چاہتے ہوں نہ کہ اپنی جیب
بھرنا چاہتے ہوں۔ ہاکی ٹیم کے ہر کھلاڑی کو معاشی مسائل سے آزاد رکھنے
کےلیے اُنکی ملازمت کا بندوبست کیا جائے۔ نواز شریف صاحب جو بچے بھوکے رہنے
کے باوجود لڑتے رہے ہیں اگر آپ اُنکو وہ تمام مراعات دینگے جو اُنکا حق ہے
اور ماضی کے کھلاڑیوں کو ملتی رہیں ہیں جواب میں یہ آپکو پھر سےکپ لاکر
دینگے، "پاکستان ہاکی اولمپک سے باہر" اس داغ کو مٹاکر پاکستان کا نام روشن
کرینگے۔ اور اگرآپ نے ایسا نہ کیا تو جو حشر اسکوش کا ہوا ہے وہی ہاکی کا
ہوگا۔ بال اب آپکے کورٹ میں ہے۔
|