|
تحریر: عمران طاہر رندھاوا
ریاست کے لازمی عناصر ماہر سیاسیات 4بتاتے ہیں جن میں سب سے پہلے آبادی ،علاقہ
، حکومت اور اقتدار اعلی ہیں ۔ یہ چاروں عناصر کسی بھی ریاست کے لیے بہت
ضروری ہے تاکہ وہ ریاست وہ خاص عوامی طبقہ دنیا کے نقشے پر اپنے مخصوص نام
سے جانے جا سکیں۔ ریاست کے لیے سب سے ضروری جُز آبادی ہے اگر آبادی ہی نہ
ہو تو حکومت ، اقتدار اور علاقہ وغیرہ کسی اہمیت کے حامل نہیں ٹھہرتے
کیونکہ آبادی ہی سے حکومت بنے گی،پھر خاص شخصیات کو اقتدار دیا جاتا ہے اور
یوں ایک ریاست کا نظام چلتا ہے مگر کسی بھی ریاست کے لیے ایک مخصوص علاقہ
کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ گویا یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ
آبادی سے باقی امور نمٹائے جائیں گے۔11جولائی کو دنیا بھر میں پاپولیشن ڈئے
منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں شعور بیداری پیدا کرنا ہے
کہ دنیا میں آبادی کے بڑھنے کے کیا نقصانات ہیں ؟آبادی کی زیادتی سے کونسی
پیچیدگیاں اور پریشانیاں کسی بھی سٹیٹ کے ماتھے کا جھڑمٹ بن سکتی ہیں ۔آبادی
سے جہاں ملک کو مختلف بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہاں پر ماں اور
بچے کی صحت بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتی ۔اگر اس وقت دنیا کی کل آبادی کی
بات کی جائے تو یونیٹڈ نیشن ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل آفیئرز کے
مطابق کل آبادی7.325بلین ہے۔دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی شاپنگ مال کا آپ
رخ کر لیں تو جو چیز آپ خریدیں گے اُس پر میڈ اِن چائنہ لکھا ہوتا ہے اس
طرح اگر آبادی کی بات کی جائے تو چائنہ آبادی کے میدان میں بھی دنیا میں سب
سے آگے ہے ہے انٹرنیٹ ورلڈ ڈٰیٹاڈاٹ کام کے مطابق چائنہ کی کل آبادی
1ارب36کروڑ15لاکھ12ہزار5سو چالیس ہے۔انڈیا کی اگر بات کریں تو 1ارب25کروڑکم
وبیش17لاکھ ہے۔اسطرح امریکہ ، انڈونیشیا، برازیل اور پھر پاکستان کا نمبر
آتاہے۔ پاکستان عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔پاکستان کی اسوقت کل
آبادی 19کروڑ99لاکھ85ہزار847ہے۔جبکہ آخری مرتبہ1998میں جب مردم شماری ہوئی
تو اُسوقت پاکستانی شماریاتی ادارے کے مطابق13 کروڑ
23لاکھ52ہزار280تھی۔دنیا کی آبادی میں پاکستان 2.57فیصدحصہ ڈال رہاہے۔
پاکستان کی 38فیصد آبادی شہری جبکہ62 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔
بڑھتی آبادی اب معمہ بنتی جارہی ہے کیونکہ حکومت کو اس آبادی کے لیے صحت کی
سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اسپتال، تعلیم کے لیے اسکولز،انڈسڑی، نوکریاں حتی
کے خوارک بھی ارینج کرنی پڑے گی چند ایک بنیادی چیزیں میں نے اپکے سامنے
رکھی ہیں جو کہ ضروری ہیں اسکے علاہ بہت سے مسائل ہیں جو آبادی کی زیادتی
سے جنم لیں گے۔اگر ہم صحت کی بات کریں تو دنیا میں یونا ٹیڈ نیشن پاپولیشن
فنڈ(UNFPA)کے مطابق 69ممالک ایسے ہیں جہاں پر ماں کو دوران حمل جو خوارک جو
کیئر(احتیاط) اور ضروری چیزیں دستیاب نہیں ہوتی جن میں پاکستان بھی شامل
ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ800خواتین موت کے منہ چلی جاتی ہیں۔
دنیا میں ص اسوقت صرف42فیصد مڈ وائی فری ((Midwiferyڈاکٹرز ہیں جو 73ممالک
میں کام کر رہی ہیں۔دنیا کے باقی ممالک میں جو انتظاماات ہیں وہ خاطر خواہ
نہیں ہیں جسکی وجہ سے خواتین میں بہت سے مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں جسکی
بڑی وجہ محکمہ ہیلتھ کی لاپروایاں اور عطائی ڈاکٹر ہیں۔اسکے علاوہ بچوں کی
جلد شادی کر دینے اور مناسب فیملی پلاننگ نہ ہونے کے سبب پاپولیشن میں
اضافہ ہورہا ہے۔ترقی پذیر ممالک میں روزانہ 20ہزار خواتین جنکی عمریں 18سال
سے کم ہیں بچوں کو جنم دے رہی ہیں جس سے سالانہ 7.3ملین آبادی بڑھ رہی
ہے۔جسکی بڑی وجہ شعور کی کمی ہونا ہے اور اگر شعور ہو بھی تو نہ چاہتے ہوئے
بھی وہ ننھے مہمان کو دعوت دے ڈالتے ہیں۔ جس سے نہ صرف آبادی میں اضافہ
ہورہا ہے بلکہ یوں ماں اور بچے دونوں کی زندگی داؤ پر ہوتی ہے۔تو یہاں پر
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی ریاست کو اپنے شہریوں کو تمام بنیادی
سہولتیں فراہم کرنے کے لیے کسی ریاست کی آبادی کتنی ہونی چاہیے جہاں پر
تعلیم، صحت، گھر، خوارک، کے ساتھ ساتھ امن اومان بھی بہتر ہو سکے؟ یونانی
مفکر ارسطو اس بارے میں دو اصول بتاتے ہیں کہ ایک یہ کہ آبادی اتنی ضرور
ہونی چاہیے کہ ایک خود کفیل معاشرہ تشکیل ہوسکے دوئم یہ کہ آبادی اتنی
زیادہ بھی نہ ہو کہ امن وامان کی صورتحال قائم نہ ہوسکے۔افلاطون ایک مثالی
ریاست کی تعداد5040مقرر کرتا ہے جبکہ فرانسی روسو10ہزار آبادی کو مثالی
قرار دیتا ہے۔اور شاہ ولی اﷲ کہتے ہیں کہ آبادی کم ازکم اتنی ہو جس میں
تمام پیشوں سے افراد منسلک ہوں تاکہ معاشرہ خود کفیل ہو ۔اگر ان اسکالز کی
بات کو مدنظر رکھا جائے تو پھر بڑھتی آبادی نے تو تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں
آج آبادی کا تعین کرنا ہی مشکل ہوچکا ہے۔ارسطو مزید لکھتے ہیں کہ ریاست وہ
ہے جس کے ایک سرے سے کھڑے ہوکر دوسرا سرا دیکھا جاسکے۔میرے مطابق آبادی کم
سے کم اتنی ضرور ہوکہ آپ کے ملکی وسائل اور آبادی میں توازن برقرار رہے اور
آئے دن غذائی قلت چینی بحران ، آٹا بحران،صحت کی ناقص صورتحال، بے
روزگاری،قتل وغارت میں مزید اضافہ اس بات کا شاخسانہ ہے کہ ہمارے وسائل
اتنے نہیں جتنی ہماری آبادی ہے! اگر ضروریات پوری نہیں ہونگی تو یقینا
ناجائز راستہ اختیار کر نا پڑئے گا جس سے امن وامان کی صورتحال خراب ہوگی ۔لہذا
ہر شخص کو چاہیے کے جتنے اُسکے وسائل ہیں اتنے ہی وہ پاؤں پھیلائے۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونکس میڈیا اس ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے
کنبہ چھوٹا رکھنے کی بھرپور مہم چلائیں ۔سیمینار ،واک کا انعقاد کیا جائے
اور پمفلٹ تقسیم کرکے لوگوں میں پاپولیشن کنٹرول کرنے کی اہمیت اجاگر کی
جائے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ |