اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک جن کی داخلہ سے لے کر خارجہ اور دفاع تک
ہر پالیسی کا صرف ایک ہی مرکزی نکتہ ہے اور وہ ہے اسلام اور مسلمان کی
مخالفت بلکہ ان کی تباہی جس کے لیے وہ ہر قسم کی تیاری مکمل رکھتے ہیں اور
در پردہ اور بظاہر ہر قسم کی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ہندو ذہنیت جو بغل
میں چھری منہ میں رام رام کی پالیسی پر رکھتی ہے نے اب تک تو فلسطین کے
ساتھ یکجہتی کا ڈھنڈورا پیٹا لیکن آخر ان کے صبر نے جواب دے دیا اور وہ کھل
کر اسرائیل کے ساتھ آکھڑے ہوئے ۔ گذشتہ 23سال سے ان دونوں ممالک میں سفارتی
تعلقات استوار ہیں اور دفاعی امور میں ایک دوسرے کے دست راست ہیں ۔بھارت
اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑاخریدار ہے۔ بھارت اورسرائیل کے تعلقات کچھ نئے
نہیں بھارت نے اسرائیل کو اس کے قیام کے بعد جلد ہی یعنی 1950 میں تسلیم
کرلیا تھا اور ان کے خفیہ تعلقات قائم تھے تاہم سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت
یونین کے ٹوٹنے کے بعدبھارت نے ایک دم سے پینترا بدلا اور امریکہ بہادر کو
خوش کرنے کے لیے اسرائیل سے اپنے تعلقات ظاہر بھی کر دیئے اور بڑھائے بھی
اور نوے کی دہائی میں کئی مشترکہ منصوبے بھی بنائے گئے۔1992میں بھارت اور
اسرائیل کے مابین دوسو ملین کی تجارت ہوئی اور 2013میں بھارت اسرائیل کا
دسواں بڑا شریک تجارت ملک تھا اور یہ تعاون وتجارت دفا عی سازوسامان سے لے
بائیوٹیکنالوجی تک میں تھا۔ اسی دوران دونوں مذاہب نے بھی تعاون بڑھانے پر
اتفاق کیا اوراسرائیل کے چیف ربی نے بھارت کا دورہ کیا۔ اس وقت بھی یہ سب
کچھ جاری ہے لیکن حالیہ سالوں میں اس میں کئی گنا اضافہ ہوا اور ایسا ہونا
قدرتی امر تھا کیونکہ اب تو بھارت میں حکومت بھی ایک انتہا پسند ہندو جماعت
کے مزید انتہا پسند وزیر اعظم مودی کی ہے لہٰذا حالات مزید خراب ہوتے جارہے
ہیں دوسری طرف اسرائیل ہے جس نے کبھی انسانی حقوق کی پاسداری کاسوچا بھی
نہیں سب سے پہلے تو اس نے ایک قوم کو اس کی زمین سے بے دخل کیا اور خود اس
کا مالک بن بیٹھا فلسطینیوں کو کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا اور اب وہاں
بھی جب چاہتا ہے ان بے خانماں لوگوں پر ز مین تنگ کردیتا ہے یہی حال بھارت
کشمیر میں کشمیریوں کا کرتا ہے اور پھر ان کو اجتماعی قبروں میں دفنا دیتا
ہے اور انہی تمام ظالمانہ منصوبوں کو مزید موئثربنانے کے لیے دونوں وزرائے
اعظم نے 2014میں ستمبر میں نیویارک کے ہوٹل میں ملاقات کی اور اسرائیل کے
وزیراعظم نیتھن یاہو نے بھارت کے وزیراعظم نریندرامودی کو اپنے ملک کے دورے
پر مدعو کرلیا اور اس دعوت کو انتہائی خوشی کے ساتھ قبول کرلیا گیا اس موقع
پر یا ہونے دونوں قدیم تہذیبوں کا حوالہ دے کر کہا کہ ہم مل کر کام کریں گے
اور جواباًمودی نے بھارت میں تاریخی یہودی کمیونٹی کا ذکر کیا اور بتایا کہ
بھارت وہ واحد ملک ہے جہاں کبھی یہودیوں کو تکلیف نہیں دی گئی۔ وہ بھارت
جہاں اس کے دوسرے بڑے مذہب کے لوگ یعنی مسلمان جو کروڑوں میں ہیں حتیٰ کہ
مسلمان ممالک سے بھی بڑی آبادی ہیں کا خیال نہیں رکھا جاتا لیکن ایک اندازے
کے مطابق صرف پانچ ہزاریہودی اہم ہیں اور ان کو کبھی تکلیف نہیں ہونے دی
گئی تو اس کا کچھ مقصد تو ہوگا اور اسی مقصد کو یہودوہنود کا گٹھ جوڑ کہتے
ہیں اور اسی کو مضبوط کرنے کے لیے مودی کا دورۂ اسرائیل اس سال جولائی یعنی
اسی ماہ طے پایا ہے اور وہ پہلا بھارتی وزیراعظم ہے جو اسرائیل کا دورہ کرے
گا۔ بھارت کے فلسطین کے بارے میں رویے میں خلوص پہلے بھی نہیں تھا لیکن اب
تو اس نے کھل کر اس کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے بھارت کی سشما سوراج نے
کہا کہ اس دورے سے پہلے ایک وفد اسرائیل جائے گاجو اہم امور طے کرے گا یہ
وفد اپنا کام کر چکا اس لیے اب کسی بھی دن مودی یہ تاریخ رقم کرے گا کہ
پہلا بھارتی وزیر اعظم ہے جو اسرائیل کا دورہ کرے گا ۔ سوراج کے مطابق وہ
خود بھی اسرائیل جائے گی اور فلسطینی دہشت گردوں سے بھی ملاقات کرے گی یعنی
اب فلسطینیو ں کا نام بھی دہشت گرد رکھ دیا گیا بھارت نے غزہ کے مسلمانوں
پر مظالم کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پر خاموشی اختیار کی۔ موددی کے
اس دورے سے نہ صرف بھارت کے مسلمان پریشان ہیں بلکہ وہ عرب جو بھارت کی
دوستی کا دم بھرتے تھے وہ بھی بھارت کے اس رویے سے پریشان ہیں اور ان پر
ہندو ذہنیت کی اصلیت کھل رہی ہے۔ حتیٰ کہ فلسطینی بھی یہ سمجھتے تھے کہ
بھارت ان کا ایک بہت بڑا حامی ہے اسی حامی نے اب ان کے دشمن سے نہ صرف گٹھ
جوڑ شروع کرلیا ہے بلکہ یقیناان کے خلاف منصوبہ بندی میں بھی اس کے ساتھ
شامل ہوگا۔ عرب ممالک کو بھی اس بات کا ادراک ہو جانا چاہیے کہ بھارت جیسے
ممالک اسلام کے دشمن ہیں اور اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں میں شریک ہیں
بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس کے منصوبہ ساز بھی ہیں اور مالی معاون بھی۔
بھارت امریکہ اسرائیل تکون کی جب بات کی جاتی ہے تو ہمارے کچھ چغادری صحافی
اور تجزیہ کار ایسی بات کرنے والوں کا تمسخرہ اڑاتے ہیں۔ کیا یہ کھلم کھلا
اسلام دشمنی کا ثبوت نہیں کہ دو ایسے ممالک آپس میں مل جائیں جن کا بنیادی
نظریہ اسلام کے خلاف یکجا ہو کر کام کرنا ہو۔ مودی اور یاہو جب مل کر
بیٹھیں گے تو عام سی فہم والا شخص بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان کی ملاقات
اور گفتگو کا محور فلسطین اور کشمیر ہوں گے اور اس معاملے میں ایک دوسرے کے
ساتھ تعاون، چاہے بند کمروں سے نکل کر وہ کچھ بھی بیان دیں۔ اس وقت میں
مسلمان ممالک اور عام مسلمانوں کی بھی آنکھیں کھل جانی چاہیے کہ ان کا دشمن
مزید متحد اور متحرک ہوگیا ہے لہٰذا انہیں بھی ان کا توڑ کرنے کے لیے متحرک
ہو جانا چاہیے اور کیا اس دورے کے بعد ایران کو مودی کو اپنے ملک میں خوش
آمدید کہنا چاہیے کیونکہ پروگرام کے مطابق اُسے ایران بھی جانا ہے ہو سکتا
ہے وہاں پاکستان کے مقابلے میں مزید کچھ منصوبوں پر بھارت کے ساتھ تعاون کے
معاہدوں پر دستخط ہوں۔
بھارت اسرائیل امریکہ گناہ گار ہوں گے لیکن کیازیادہ گناہ گارمسلمان نہیں
جو اپنے دشمنوں اور ان کے منصوبوں سے باخبر ہوکربھی ان کے خلاف متحد نہیں
ہو سکتے کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں اور کیا یہ ہمارے کسی گناہ کی
سزانہیں۔ |