تحریر کنندہ : بشری' خان
زندگی کا دائرہ بھی کس قدر عجیب ہے.پتہ ہی نہیں چلتا کہ انسان کب اتنا بڑا
ہوگیا کہ کل جو باتیں یا حرکتیں کرنے پراُسے اپنے بڑوں سے ڈانٹ پڑھتی تھی
آج ان ہی باتوں پر وہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے.. یہ زندگی ہے...
معاشرہ اس قدر وسیع ہو گیا ہے کہ اس تیز رفتار دوڑ میں انسان کو احساس ہی
نہیں ہوتا کہ وہ اپنوں کو کسقدر پیچھے چھوڑ آیا ہے یا پھر کیا اسکے لیے
ممکن ہے کہ وہ واپس لوٹ سکے...اس مصروف دور میں پھر اس کے پاس ایک ہی راستہ
رہ جاتا ہے کہ وہ ایسے دن بنائے جس دن کو وہ کسی ایک "اپنے" کے نام کرسکے...
ہر موقع پر الگ دن جیسے پھلوں سے سجی دکان ہو.. جو جی چاہا اٹھا لیا جس
موسم کا چاہا وہ کھا لیا.. اسکو فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ سوچ سکے کہ وہ جن
کو پیچھے چھوڑ آیا ہے، آیا ا ن کے پاس اتنا وقت ہوگا یا اسکی اتنی اہمیت
باقی ہوگی کہ اسکو خوش آمدید کہا جائے... اس مادی دور میں بھاگتے بھاگتے وہ
اتنا تھک جاتا ہے کہ اس کو رک کر ہانپنے یا سستانے کا بھی ہوش نہیں رہتا..
وہ یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا کہ وہ جس راستے پر چل رہا ہے اسکی کوئی
منزل بھی ہے یا نہیں... بے نام و نشان راہوں پر چلتے چلتے مختلف بیماریاں
اسے جونک کی طرح چمٹ جاتی ہیں جو اسے مار کر ہی دم لیتی ہیں... کیا کبھی ہم
نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے..
انسان ایساکیوں ھو گیا ؟ کیوں اسے فرق نہیں پڑتا ؟ کیوں اسکو صرف اپنی ہی
فکر ہے؟سائنسی دور کی ہر سہولت ھونے کے باوجود انسان بانٹے کے لیے کیوں
تیارنہیں... ابتدائے زمانے کے لوگ جن کے پاس بہت کچھ نہیں تھا اسکے باوجود
وہ ایک دوسرے کے لیے سب کچھ تیاگنے کے لیے تیار تھے...پھر ہم میں اسقدر بے
حسی کیوں ہے؟؟ سہولیات نے جہاں زندگی کو آسان بنایا ہے وہیں لوگوں میں بے
حسی، خود غرضی اور لالچ جیسی برائیوں نے معاشرے میں اپنا ڈیرہ جما لیا ہے..
دنیا ایک سرائے ہے اور سرائے میں ہر شخص صرف اپنی ضرورت کے لحاظ سے سامان
لیکر آتا ہے.. لیکن ہم انسان اسی کو اصلی گھر سمجھ کے بس کچھ نا کچھ جمع
کرنے میں لگے رہتے ہیں جیسے کوئی ریس ہو جسے جیتنا ضروری ہو..
خیر بات نکلے گی تو دور تک جائیگی .نتیجہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنی مذہبی اقدار
سے جتنا دور بھاگیں گے اتنا ہی معاشرہ اندھیروں میں ڈوبتا چلا جائے گا...اﷲ
پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو...آمین |