آج آئیں ذرا مل کر غور کریں کہ
کیا ہم واقعی انتہا پسند ہیں یا پھر ویسے ہی باتیں بنیں ہوئیں ہیں۔ اگر
صورتِ حال اسکے برعکس ہے اور ہم انتہا پسند نہیں ہیں تو پھر ان سنگین الزام
تراشیوں اور بہتانوں کی بہتات کا ہم سے کوئی مناسب جواب کیوں نہیں بن پاتا
؟ 14-15 برسوں سے دیکھتا ، سنتا اوار پڑھتا چلا آرہا ہوں کہ اہل مغرب ہمیں
انتہا پسند گردانتے ہیں اور ہمارے معتبر سیاستدان ،علماء حضرات یہ کہتے
ہوئے بھرپور انداز میں اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ اسلام مساوات کا دین ہے
اسلام میں انتہائی پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام میں دہشت گردی کی
کوئی گنجائش نہیں ، اسلام امن اور انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے۔ وغیرہ
وغیرہ
لیکن ان جوابات کا رد عمل کیا ہوتا ہے ؟ کیا اسلام اور مسلمانوں کا وقار
اور تشخص بحال ہو جاتا ہے ؟ جی نہیں ، بلکہ بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ بول سے
زیادہ طاقت عمل میں ہوتی ہے۔ ہمارے قول و فعل میں حد درجہ تضاد پایا جاتا
ہے۔ اسلام کی تعلیمات تو برحق ہیں مگر ہمارے اعمال میں بالکل بھی جان نہیں
اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے، بڑے افسوس سے لکھ رہا ہوں کہ
ہماری تو نیتیں بھی ٹھیک نہیں۔
یہ انتہا پسندی نہیں تو اور کیا ہے کہ آج ہم نے مسجدیں بھی جدا جدارکھی
ہوئیں ہیں۔ یہ ہماری مسجد ہے اس میں نماز قبولیت کا اعلٰی درجہ پائے گی
جبکہ فلاں مسجد تو کسی دوسرے مسلک کے ماننے والوں کی ہے۔ وہاں پڑھی نماز
قبول نہیں ہوتی۔
اسلام مساوات اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے ہم فرقوں میں بٹ بٹ کر ایک
دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں ۔صرف اپنے مسلک کا پیر اور مولوی صاحب ہی
صحیح بات کرتے ہیں۔ کسی دوسرے مسلک کے علماء کو سننا تو دور کی بات دیکھنا
بھی گوارا نہیں کیاجاتا ہے۔
پھر بھی ہم یہ بات ماننے کو ہرگز بھی تیار نہیں کہ ہم انتہا پسند ہیں عجیب
لوگ ہیں ہم اللہ اور رسول ﷺ کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اپنی مقررہ
حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ اول تو کوئی اپنی غلطی پر نادم و شرمندہ ہوکر
معافی نہیں مانگتا اور اگر کسی کو احساس ہو بھی جائے اور وہ اعترافِ جرم و
گناہ کرتے ہوئے معافی مانگ لے تو بھی ہم اُسے معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
ہمارا اللہ بھلے رحمٰن و رحیم اور بخشنے والا ہے ہمارے نبیﷺ نے بھلے طائف
والوں کے لئے دعائے رحمت و ہدایت فرمائی۔
افسوس صد افسوس۔ یہ انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت نہیں تو اور کیا ہے؟ جو
ہماری جماعت میں ہے وہ حاجی ہے جو نہیں ہے وہ ضرور صراطِ مستقیم سے بھٹکا
ہوا ہے۔
زوال کے بے شمار اسباب کے علاوہ مزکورہ بالا بیماریوں کابروقت تدارک نا کیا
گیا تو پھر اللہ بھی ہماراحافظ نہیں۔ مزید تکرار کرنے کی بجائے بہتر سمجھتا
ہوں کہ بات کو سمیٹا جائے اور بہتری کیلئے دعا اور امید کرنے کے ساتھ ساتھ
عملی کوشش کا بھی آغاذ کیا جائے۔ اعترافِ جرم ، جرم کی تلافی کی طرف پہلا
قدم ہوتا ہے۔ آئیں مل کر پہلا قدم اٹھائیں، قدم قدم پھر منزل پائیں۔
ہمیں اپنے ملک و ملت اور دین کی صحیح خدمت کرنے کیلئے اپنی قدیم غلامان سوچ
کو بدلنا ہوگا۔ بیمار ذہنیت کی درستگی کا راز سیرت ِ محمدی ﷺ میں پوشیدہ
ہے۔ آپ ﷺ کی سیرتِ مطہرہ سرچشمہ رحمت و ہدایت ہے۔ آپ ﷺ نے انسانیت سے رحمت
،شفقت اور درگزر کا معاملہ فرمایا ناکہ صرف مسلمانوں سے، بلکہ آپ ﷺ نے تو
جانوروں تک کے حقوق متعین فرمائے۔
اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہم لائی لگ بنے ہوئے ہیں۔
اللہ ہمیں ہدایت سے روشناس کرے۔ ہمیں صحیح معنوں میں اسلام کی تعلیمات کو
سمجھنے کی احسن توفیق عطا فرمائے۔ آمین |