حضرت سخی سلطان باھو اور اسم اللہ ذات
(Hamid Jamil, Gujranwala)
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک
سو چالیس کُتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہر تصنیف اسمِ اللہ ذات کی شرح و تفسیر
ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے اِسرار و رموز کو کھول کر جتناآپ رحمتہ اللہ علیہ نے
اپنی تصنیفات میں بیان فرمایا ہے اس سے پہلے کوئی بھی ایسا نہ کر سکا۔ آپ
رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خیال خواندن چندیں کتب چراست ترا
الف بس است اگر فہم این اداست ترا
ترجمہ: تجھ پر اس قدر کتابیں پڑھنے کی دُھن کیوں سوار رہتی ہے اگر تُو صاحبِ
فہم ہے تو تیرے لیے علمِ الف (اسمِ اللہ ذات) ہی کافی ہے۔ (کلید التوحید
کلاں)
اسم اللہ راہبر است در ہر مقام
از اسم اللہ یافتند فقرش تمام
ترجمہ: اسمِ اللہ ذات طالبانِ مولیٰ کی ہر مقام پر راہنمائی کرتا ہے اور
اسمِ اللہ ذات سے ہی وہ کامل فقر کے مراتب پر پہنچتے ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
اسم اللہ بس گراں اس بس عظیم
ایں حقیقت یافتہ نبی کریم
ترجمہ:اسمِ اللہ ذات نہایت بھاری و عظیم امانت ہے اس کی حقیقت (کنہہ) کو
صرف حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہی جانتے ہیں۔ (کلید التوحیدکلاں)
اسم اللہ ذات ''عین اللہ پاک'' کی ذات ہے۔ (عین الفقر)
تصورِ ''اسمِ اللہ ذات '' کی شان میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو
رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سن! توریت، زبور، انجیل اور اُم الکتب یعنی فرقان یہ چاروں کتابیں محض اسمِ
‘‘اللہ ‘‘ کی شرح ہیں۔ اسمِ اللہ کیا چیز ہے؟ اسمِ اللہ عین ذات پاک ہے جو
بے چون و بے چگون اور بے شبہ و بے نمون ہے اور جس کی شان میں آیا ہے: قل ھو
اللہ احد ۔جو شخص اسم اللہ ذات کو پڑھ کر اس کا حافظ ہو جاتا ہے وہ اللہ
تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے پڑھنے اور اس کے ذکر سے وہ
علمِ لدّنی کھلتا ہے کہ جس کی نشاندہی اس فرمانِ حق تعالیٰ میں کی گئی ہے:
علم ادم الاسماء کلھا (البقرہ۔31)ترجمہ: ''اور آدم علیہ السلام کو کُل
اسماء کا علم سکھا دیا گیا۔'' فرمانِ حق تعالیٰ ہے : مما لم یزکر اسم اللہ
علیہ وانہ لفسق (ترجمہ: جس چیز پر اسمِ اللہ نہ پڑھا جائے وہ چیز ناپاک ہے)
یاد رکھ کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا عرش و کرسی اور لوح و قلم سے گزر
کر حضورِ پروردگار میں قابَ قوسین کے مقام پر پہنچنا اور اللہ تعالیٰ سے
بلاحجاب کلام کرنا محض اسمِ اللہ کی برکت سے ہوا کہ اسم اللہ دونوں جہان کی
چابی ہے۔ ساتوں طبقاتِ زمین اور ساتوں طبقاتِ آسمان جو بلاستون ایستادہ ہیں
تو یہ محض اسم اللہ ہی کی برکت ہے۔ جو پیغمبر بھی مرتبۂ پیغمبری پر پہنچا
اور کفار پر فتح حاصل کر کے ان کے شر سے مامون ہوا تو یہ بھی محض اسم اللہ
ہی کی برکت تھی کہ ان کا نعرہ ہمیشہ یہی ہوا کرتا تھا'' اللہ ہی ہمارا معین
و مددگار ہے۔'' بندے اور مولیٰ کے درمیان رابطے کا وسیلہ یہی اسمِ اللہ ہی
تو ہے۔ تمام اولیاء اللہ غوث و قطب اہلِ اللہ کو ذکر فکر الہام مذکور غرقِ
توحید مراقبہ و کشف و کرامات اورعلمِ لدّنی کے جتنے بھی مراتب نصیب ہوتے
ہیں اسمِ اللہ ہی کی برکت سے ہوتے ہیں کہ اسم اللہ سے وہ علمِ لدّنی کھلتا
ہے کہ جس کے پڑھ لینے کے بعد کسی اور علم کے پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی۔
ہر کراں بہ اسم اللہ شد قرار
ہر چہ باشد غیر اللہ زاں فرار
ترجمہ: جس نے اسمِ j کے ساتھ قرار پکڑا وہ غیر اللہ کے ہر تعلق سے نجات پا
گیا۔ (عین الفقر)
سُن! اسمائے صفات کے ذکر سے استدراج پیدا ہوتا ہے لیکن اسمِ اللہ ذات کے
ذکر میں تفاوت و تجاوزِ استدراج ہرگز نہیں ہے کہ اسم اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ
کے چار حروف ہیں ۔ ‘‘ ا ۔ ل ۔ ل ۔ ہ ‘‘ جب اسم اللہ سے ا جدا کیا جائے تو
یہ اسمِ للہ رہ جاتا ہے۔ جب ا کے بعدپہلا ''ل ‘‘ بھی جدا ہو جائے تو یہ اسمِ
'' لہ ‘‘ رہ جاتا ہے اور جب دوسرا ‘‘ ل ‘‘ بھی جدا ہو جائے تو یہ ‘‘ ھو ‘‘
رہ جاتا ہے اور یہ چاروں اسمائے اعظم اللہ للہ لہ ھو اسم اللہ ذات ہیں۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ''اللہ'' (اسمِ اللہ ذات) مومنوں کا ایسا دوست ہے جو انہیں ظلمات سے
نکال کر نورِ توحید میں لے آتا ہے( البقرہ۔257 )
فرمانِ حق تعالیٰ ہے :
ترجمہ: نہیں ہے کوئی معبود سوائے '' ھو ‘‘ (ذاتِ حق تعالیٰ) کے، پس اسی کو
ہی اپنا وکیل بناؤ( المزمل۔9 )
قرآنِ مجید میں چار ہزار مرتبہ اسمِ '' اللہ '' آیا ہے جس کی برکت سے سارا
قرآن ہی اسمِ '' اللہ ' ہے۔ مرشدِ کامل وہ ہے جو اسمِ '' محمد ‘‘ اور اسم
اللہ کی راہ جانتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا اور طالبِ صادق وہ ہے
جو اللہ تعالیٰ کی مقدس اور پاک ذات کے علاوہ اور کوئی طلب نہیں رکھتا۔
دادہ خود سپہر بشانہ
اسم اللہ جاوداں ماند
ترجمہ: ''آسمان اُس کا اپنا بنایا ہوا ہے وہ اسے سمیٹ لے گا لیکن اسمِ ''
اللہ ' ہمیشہ قائم رہے گا۔'' (عین الفقر)
تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس |
|