روح کی سیرابی قلب کی تازگی

ماہِ رمضان المبارک اوراس کی ستائیسویں شب یعنی شبِ قدرکی عظمت و فضیلت اوراہمیت اسلام میں ہمیشہ سے مسلّم ہے اورکیوں نہ ہو یہ رات تو گناہ گاروں کی مغفرت اورمجرموں کی جہنم سے نجات کی رات ہے،یہ رات تو بارانِ رحمتِ یزدانی ،عنایات وظہورتجلیات ِ ربانی کی رات ہے۔یہ رات توذکروفکر‘تسبیح وتلاوت‘ درود وسلام ‘توبہ و استغفار‘عبادت و ریاضت اوراحتسابِ عمل کی ہے۔

اس مبارک و مقدس رات کے بارے میں قرآنِ مجید‘فرقانِ حمیدمیں ارشادخداوندی ہے:’’بے شک ہم نے اس (قرآن)کوشبِ قدر میں اتاراہے‘اورآپ کیا سمجھتے ہیں کہ شبِ قدر کیا ہے؟شب ِقدرہزارمہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات)میں روح القدس(جبرئیل روح الامین) اورفرشتے (ہر کام کے انتظام کیلئے) اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوع صبح تک (امان اور) سلامتی ہے(سورۃ القدر)

اس سورۃ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے کہیں بہتروافضل ہے۔یہ اس امت محمدیہ پر اللہ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے امت کو مختصر سی عمر میں زیادہ سے زیادہ اجر وثواب حاصل کرنے کیلئے اتنی عظیم رات عطا فرمائی۔شبِ قدر جو بہت ہی برکتوں‘رحمتوں ‘نعمتوں اور سعادتوں کی رات ہے، جس کو اس عظیم رات کی معرفت اور عبادت وریاضت نصیب ہوجائے اوروہ اس رات کوعبادت وریاضت میں گزار دے تو گویا اس نے تراسی سال اورچارمہینوں سے بھی زیادہ زمانہ عبادت وریاضت گزارا‘ اور اس زیادتی کا بھی حقیقی حال معلوم نہیں کہ ہزار مہینوں سے کتنی افضل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بہت ہی بڑا انعام ہے کہ اس نے امتِ محمدیہ کوشبَ قدر کی شکل میں ایک بہت عظیم اوربے پایاں نعمت عطا فرمائی ہے۔

’’لیلتہ القدر‘‘کی عظمت و فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی قدرو منزلت میں قرانِ کریم میں ایک پوری سورۃ’’سورۃ القدر‘‘کے نام سے نازل کی گئی۔اس رات کو ’’شبِ قدر‘‘ اس لئے کہتے ہیں کہ اس شب میں سال بھر کے احکام نافذکئے جاتے ہیں اورفرشتوں کو سال بھر کے وظائف اورخدمات پر مامور کیا جاتا ہے اوریہ بھی منقول ہے کہ اس رات کو’’شبِ قدر‘‘اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات میں ایک بڑی قدرومنزلت والی کتاب امت کیلئے نازل فرمائی‘اوریہ بھی کہا گیا ہے چونکہ اس شب میں اعمالِ صالحہ قبول ہوتے ہیں اور بارگاہ ِربّ العزت میں ان کی بڑی قدر کی جاتی ہے اس لئے اسے ’’شبِ قدر‘‘کہتے ہیں۔
یوں تو کوئی لمحہ اس کی عطا سے خالی نہیں ‘اگر اللہ کی عطا نہ ہو تو سار اعالم ویران ہوجائے مگر اس کی نوازشوں اورانعام واکرام کاجو انداز’’شبِ قدر‘‘میں ہوتا ہے وہ کسی اوررات میں نظر نہیں آتا۔اس رات میں اس نے اپنامقدس کلام اتارا‘اوراس نعمت سے کتنی ہی نعمتوں کے دروازے کھلے ہوں گے۔اس رات کے عبادت گزاروں پرغروبِ آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک نوربرستا ہے‘رحمتیں ہزار گنابڑھ جاتی ہیں۔ یہ رات اپنی قدر وقیمت کے لحاظ سے ‘اس کام کے لحاظ سے جو اس رات انجام پایا‘ان خزانوں کے لحاظ سے جو اس رات میں تقسیم کئے جاتے اورحاصل کئے جا سکتے ہیں‘ہزارمہینوں سے بہتر ہے‘جو اس رات عبادت کرے‘اس کو گناہوں کی بخشش کی بشارت دی گئی ہے۔ ہررات کی طرح اس رات میں بھی وہ گھڑی ہے جس میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں اوردین و دنیا کی جو خیر وبھلائی مانگی جائے ‘وہ عطا کی جاتی ہے۔

اس عظیم الشان رات کی عظمت و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’جب شبِ قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرئیلؑ امین فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ زمین پراترتے ہیں اور ملائکہ کا یہ گروہ ہراس بندے کیلئے دعائے مغفرت اورالتجائے رحمت کرتا ہے‘جو کھڑے یا بیٹھے ہوئے ا للہ کاذکر اورعبادت میں مشغول ہوتا ہے۔جب کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ فرشتے ان بندوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔‘‘کتنا خوش قسمت ‘خوش نصیب اور بلند اقبال ہے وہ بندہ جو اس رات کو اپنے پروردگار کی یاد میں بسر کرتا ہے۔یہ وہ رات ہے جو صاحبانِ ایمان کیلئے مغفرت ورحمت کا پیغام لے کرآتی ہے۔وہ رات جو رزق مانگنے والوں کو رزق‘عافیت چاہنے والوں کو عافیت‘صحت کی تمنا کرنے والے کو تندرستی‘ خیر کے بھکاریوں کو خیر‘ مغفرت کے متلاشیوں کو بخشش عطا کرتی ہے۔

یہ وہ رات ہے جوسراسرامن کی پیغامبراورسراپا سلامتی ہی سلامتی ہے۔وہ لوگ کتنے سعادت مند‘خوش نصیب اورخوش قسمت ہیں جو اس مبارک رات کواللہ وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی کرتے ہیںاوررزقِ حلال مانگ کر خزانہ غیب سے مالامال ہوتے ہیں۔بیماریوں اور مصیبتوں سے پناہ مانگ کر ان سے خلاصی حاصل کرتے ہیں۔اس رات اللہ جل شانہ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے عام معافی کااعلان ہوتا ہے۔یہ روح پروراورایمان افروزکیفیت غروبِ آفتاب سے طلوعِ فجر تک برابر جاری رہتی ہے۔

اس عظیم الشان رات کے بارے میں شبِ قدر کے افضل ترین اعمال میں غروبِ آفتاب سے لے کر صبح صادق تک رات بھر عبادت وریاضت کرنا‘نوافل ادا کرنا‘قرآنِ مجیدکی تلاوت کرنا‘صدقہ وخیرات کرنا‘ذکر اذکار کرنا‘اپنے گناہوں سے توبہ کرنا‘اپنے لئے‘اپنے ماں باپ کیلئے ‘اپنے عزیزواقارب کیلئے‘اپنے اساتذہ کیلئے اوراپنے تمام مسلمانوں کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی دعائیں کرنا‘فراخی رزق‘امن و سلامتی اوردین و دنیاکی خیراور بھلائیاں مانگنااورحضور رسول اکرم پر ہدیہ درودوسلام بھیجناوغیرہ خصوصیت سے شامل ہیں۔ چونکہ یہ رات بڑی بابرکت اور مقبولیت کی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی رضااوراس کے انوارو تجلیات کے حصول کیلئے جس قدر ہو سکے ‘اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر اور گڑ گڑا کراپنے گناہوں سے توبہ کی جائے۔

’’غنیہ الطالبین‘‘میں درج ہے کہ لیلتہ القدرکی علامت یہ ہے کہ یہ رات بڑی معتدل ہوتی ہے اورآنے والی صبح کاسورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی شعاعیں نہیں ہوتی اوروہ ایک ’’تھال‘‘کی طرح ہوتا ہے اوراللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوںمیں سے جن اہلِ دل‘اولیائے کرام اور عبادت گزار لوگوں کیلئے چاہتا ہے‘ ان کے مراتب‘احوال اورمنازل‘قرب کے اعتبار سے ان پر اس رات کے انوار وتجلیات اورعجائبات منکشف فرمادیتا ہے۔

دعا ہے کہ اس مقدس رات کوہماری مناجات اوربے شمارقربانیوں کے صلے میں اللہ کاجوانعام پاکستان کی شکل میں ہمیں عطاہوا,ہم اپنے رب سے ایفائے عہد کرتے ہوئے اس میں قرآن کونافذکرکے اس کو’’ریاستِ مدینہ ثانی‘‘بناسکیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو شبِ قدر کی فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے اورہماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے ثم آمین
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.