اُمت مسلمہ کی خوشحالی کی عید کب آئے گی؟

عید الفطر امت مسلمہ کا عظیم تہوار ہے۔ یہ مسلمانوں کو سال سے زیادہ انتظار نہیں کرواتی بلکہ بڑی پابندی سے اپنی برکتوں رحمتوں اور سعادتوں کے ہمراہ جلوہ گر ہوتی ہے اس کے پلٹ پلٹ کے آنے کی وجہ سے ہی اسے عید کہا جاتا ہے۔ یہ اﷲ تعالی کی طرف سے بندوں کی ضیافت اور مہمانی کا دن ہے۔ حدیث شریف میں ہے اس دن کو آسمانوں پر "یوم الجوائز" یعنی "یوم تقسیم انعامات" کہا جاتا ہے۔ اس میں نمازیوں اور روزے داروں کو انعامات اور اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔

ہاں یہی وہ دن ہے جب رب العرش عید گاہوں اور مساجد میں نمازِ عید کے لئے آنے والے نمازیوں کے بارے میں فرشتوں سے پوچھتا ہے فرشتو! اس مزدور سے کیا سلوک کرنا چاہئے جو اپنا کام مکمل کر چکا ہو؟ فرشتے کہتے ہیں اس کی جزا یہی ہے کہ اس کی مزدوری اسے دے دی جائے تو خالقِ کائنات اپنی عزت و جلال اور بلند شان کی قسم اٹھاکے کہتا ہے کہ میں نے انہیں بخش دیا اور گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا۔یہ دعاؤں اور التجاؤں کا دن ہے، یہ خوف اور امید کی درمیانی کیفیت میں گزارنے کا دن ہے،خوف اس بات کا کہ میری مہینے کی محنت، بھوک پیاس سے رکھا ہوا روزہ، نمازیں، تراویح اور صدقات و خیرات کہیں رد نہ کر دئیے جائیں، امید اس کی کہ اﷲ تعالیٰ انہیں قبول کرے اور بہتر درجے میں قبول کر کے بہترین جزا عطا فرمائے۔

یہ کھانے پینے کا دن تو ہے مگر لہوو لعب کا دن نہیں ہے۔ یہ نہانے دھونے، نئے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کا دن توہے مگر یہ عریانی فحاشی، ڈھول ڈھمکےّ، میوزک اور گانے باجے کا دن نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے شریعت کا تقاضا ہے کہ پورا مہینہ بند رہنے والے شیطان کے کھلنے پر مقابلہ کے پہلے دن یہ نظر آنا چاہیئے کہ رمضان کے موسم تقوی سے روحانی قوت پانے والے شیطان پر غالب ہیں نہ کہ شیطان ان پر غالب آ گیا ہے۔

عید اسکی ہے رمضان سے جس نے فیض پالیا، عید اس کی جس نے ماہِ صیام سے قربِ خداوندی کا مقام پا لیا، عید اس کی ہے روزے کی تربیت سے جس نے اپنی انسانیت کو سنوار لیا، عید اس کی ہے جس کو رمضان سے رب کی حضوری اور گناہوں سے دوری ملی، عید اسکی ہے جس کی گندی عادات کا خاتمہ ہوا، گناہ بخشے گئے اور رب راضی ہو گیا۔

رخصت ہونے والے رمضان کو اسلامی ممالک کی عجیب و غریب افسوس ناک اور خطر ناک خبروں کا سامنا ہے،یمن کے حوثیوں اور سعودی اتحادیوں میں آتش و آہن کا روح فرسا کھیل رمضان بھر میں جاری رہا۔ سعودی مفتی اعظم نے فتویٰ دیا کہ یمن کے محاذ جنگ پر روزہ رکھنے میں اگر سعودی فوجی دشواری محسوس کریں تو روزہ توڑ سکتے ہیں ۔عراق کے ضلع دیالی کے شہر حمرین میں داعش نے مخالفین کو اڑانے کے لیے قرآنی نسخوں میں بارودبھر کے چلا دیا۔

شام کے ضلع دیرزور کے شہر میادین میں ،داعش کی مذہبی پولیس نے روزہ نہ رکھنے والے اشخاص کو مکمل دن کے لیے پولیس ہیڈ کوارٹر کی دیوار پہ زندہ سولی پہ لٹکایا گیا اور انہیں ستر ستر کوڑے مارے گئے۔ اخوان المسلمون کے مفتی محمدعبد المقصود نے فتوی دیا کہ
"لَایَجُوْزُ الْاِفْطَارُ مَعَ الْمُؤَیِّدِیْنَ لِرَئِیْسِ عَبْدِ الْفَتَّاحِ السِّیْسِیْ حَتّٰی لَوْ کَانَ مِنَ الْاَقَارِبِ"
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کے کسی حمائتی کے ساتھ بیٹھ کر روزہ کھولنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ۔

دہشت گردی میں ملوث ہونے کی وجہ سے تیونس کے وزیر اعظم نے مساجد بند کرنے کا حکم دیا، کویت میں دہشت گردی کے خطرے کی وجہ سے مساجد میں اعتکاف بیٹھنے پر پابندی لگا دی گئی، نائیجیریا کی ریاست بور نو کے گاؤں ملاری میں ظہر کی نماز میں 15سالہ لڑکی نے خود کش دھماکہ کر کے نمازیوں کو خون میں نہلادیا ۔

ایسے پس منظر میں ایسے عظیم تہوار کے انوار پر غبار سا پڑ گیا ہے ۔رمضان کی جزا اور نتیجہ عید کی شکل میں ملتاہے رمضان صبر ،ایثار اور ہمدردی کا مہینہ ہے اس میں لڑائی جھگڑا اتنا ناپسند قرادیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں کوئی گالی دے یا لڑائی کرے تو تم اسے صرف اتنا جواب دو کہ میں نے روزہ رکھا ہے ۔اس رمضان میں علاقائی ،ملکی اور عالمی سطح پر دیکھا جائے تو مجموعی طورپر رمضان اور مسلمان میں بڑی دوری نظر آرہی ہے جو قوم رمضان کے تقاضوں سے بعید ہو اس کی عید کا کیا مطلب بنے گا ؟جب افطاریاں بے قراریاں بن جائیں ،سحریاں اندھیریاں ہو جائیں تو عید ایک نوید کیسے قرار پائے گی ۔عید کا چاند تو خوشیوں کا پیغام لایا ہے لیکن کیا امت مسلمہ کا زخمی ضمیر ان خوشیوں کا ادراک بھی کر پائے گا؟ دیسی گھی کی غذائیت اور توانائی تو تسلیم شدہ مگر کیا جاں بلب مریض کا نظام انہضام بھی اس سے غذائیت کشید کر پاتا ہے۔کیا عید کے نئے نئے کپڑے ملت اسلامیہ کے چُور چُور بدن پر سج جائیں گے؟

ملت اسلامیہ غیروں کی سازشوں کا نشانہ بن چکی ،نام نہاد جہادیوں نے تمام بلاد اسلامیہ کو لہولہان کر رکھا ہے رمضان المبارک میں بھی جلے کٹے بدن ،لاشوں کے انبا ر ،بارود کی بدبو ،دھویں کے بادل ،کھنڈرات میں بدلے مکانات ،آنسوؤں آہوں اور سسکیوں کا عالم، کہیں بوکوحرام نے جینا حرام کیا، تو کہیں داعش نے ظلم و ستم کی افزائش کی، کہیں القاعدہ ،کہیں طالبان ،الحفیظ الامان۔

کویت میں مسجد الصادق میں خود کش حملہ ،تیونس میں سیاحوں کے ہوٹلوں پر حملہ ،افغانستان میں پارلیمنٹ پر حملہ، عین العرب میں داعش کے ہاتھوں کُر دوں کا قتلِ عام، عراق کی گلی گلی میں خون، شام کی ہرشام خون آشام ،پاکستان میں غیر اعلانیہ حالت جنگ ،یمن رمضان میں بھی بے امن، مصر کے جزیرۂ سینا میں حشر، دوسری طرف القدس میں فلسطینیوں پر یہودی ظلم و ستم ،کشمیریوں پر بھارتی فوج کا تشدد، برما میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار، اتنی آفتوں، مصیبتوں، ناامیدیوں، حسرتوں اور ظلمتوں میں آنے والا اکلوتا ہلال عید خود افسردگی کا شکار ہے۔مقتلوں، مدفنوں،بے بسی کے خیموں اور پنجروں میں پڑے مسلمانوں کی عید کہاں گئی، رحمتوں برکتوں،سعادتوں اور تلاوتوں کے مہینے کو یورشوں، شقاوتوں اور ہلاکتوں نے گھیر لیا، شب بیداریوں کو دل آزاریوں نے رخصت کیا۔

کتنی شب براتیں، شبْ قدریں اور عیدیں آ کے چلی گئیں مگر امت مسلمہ کی شبِ غم ڈھلنے نہیں پائی۔بار بار موسم تبدیل ہوئے مگرامت مسلمہ پہ آئی ہوئی خزاں کی رُت بدلنے نہیں پائی، گردش آفتاب یا گردش ماہتاب سے اس امت کے حالات سدھرنے نہیں پائے۔یا اﷲ اپنے حبیب لبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کے صدقے اس ہلال عید کوامت کی خوشحالی کی نوید بنادے۔آمین
Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali
About the Author: Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali Read More Articles by Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali: 14 Articles with 13267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.