محقیق کے اوصاف
(Hafiz Irfan Ullah Warsi, Bahawalpur)
محقیق کی تعریف:
اس سے مراد ایسا شخص جو(تحقیق کرے) بات کو دلیل سے ثابت کرے۔(۱)
اَوْصاف کی تعریف:
اس سے مراد ہوتا ہے کیسی بھی شخص کی خوبیاں یا اچھائیاں۔ اوریہ وصف کی جمع
ہے۔ (۲)
محقیق کے اوصاف:
تحقیق کا کام چونکہ مُحقیق کو ہی سر انجام دینا ہوتا ہے اس لیے ایک اچھے
مُحقیق کے اندر مندرجہ ذیل اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔
۱۔ صادق ہوناچاہیے:
ایک مُحقیق کے لیے ضروری ہے کہ وہ راست گو ہو ۔ کیونکہ تحقیق کوسچ سے نسبت
ہے۔ ایسی لیے ایک محقیق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں سچائی کو
بیان کرئے ۔
۲۔ تعصیب سے پاک ہونا:
مُحقیق کوتعصیب سے پاک ہونا چاہیے ۔ تحقیق کے دوران جوحقیقت سامنے آئے
محقیق کو چاہیے کہ وہ اس کو ظاہر کرئے خواہ وہ اس کے اپنے مذہب،قوم،زبان
اورفرقے وغیرہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ (۳)
۳۔ ہٹ دھرم اور ضدی نہ ہونا:
محقیق کے اوصاف میں یہ بھی بات آتی ہے کہ وہ ہٹ دھرم اور ضدی نہ ہو ۔ اور
اگر اس کی تحقیق کے معیار کے خلاف کو ئی دلائل مل جائیں تو اس کو سچے دل سے
قبول کرئے۔ یہ نہیں کہ ہٹ دھرمی اورضدی ہونے کا مظاہرہ کرئے۔
۴۔ تحقیق کو دنیاوی مقاصد کے حصول کاذریعہ نابنانا:
محقیق کو چاہیے کہ وہ اپنی تحقیق کو دنیاوی اغراض ومقاصد کے حصول کا ذریعہ
نا بنائے۔ یہ خیال نہیں ہونا چاہیے کہ میں اس تحقیق سے بہت ساری دولت یا
شہورت حاصل کرلوں گا۔ یا میری اس تحقیق سے میری دنیاوی زندگی کی ضروریات
پوری ہو جائیں گی،اور پھر اس کے بعد میں بیٹھ کر کھاؤں گا۔ یہ سب خواہشیں
فطری ہوتی ہیں مگر ان خواہیشوں کے سائے میں کی ہوئی تحقیق اتنی فائدہ مند
نہیں ہوتی جتنی کہ بے غرض تحقیق ۔(۴)
۵۔ محنتی ہونا چاہیے:
محقیق کے اوصاف میں اس بات کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ اس کو محنتی اور
اپنی تحقیق سے دلچسپی ہونی چاہیے۔
۶۔ صبرکرنے والا ہونا چاہیے:
محقیق کو فضیلت صبر سے واقف ہونا چاہیے۔ اور ہرحال میں صبر کا دامن تھامے
رکھنا چاہیے۔ کیونکہ تحقیق میں پیش آنے والی مشکلات کا صرف صبر ہی سے
مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
۷۔ جلدبازی سے اجتناب کرنا چاہیے:
ایک محقیق کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تحقیق کے مسائل کے حل کے لئے
جلد بازی سے اجتناب کرئے۔ لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ وہ اپنی تحقیق کو طول
دے دے۔ اور مقررہ وقت میں اپنی تحقیق کو مکمل نہ کرئے۔
۸۔ جذباتی اسلوب کی گرفت نہیں ہونی چاہیے:
ایک محقیق کو اپنی تحقیق میں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ جو بات اس
کو پسند ہو وہ اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرئے اور جو نا پسند ہو اس کو بالکل
کمزور قراردے دے۔ اورمحقیق کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی عادت سے بھی
اجتناب کرنے چاہیے۔
۹۔ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنا:
محقیق کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحقیقی عمل کے دوران اخلاقی جرأت کا مظاہرہ
کرے۔ کسی کے خوف سے سچ کہنے سے باز نا آئے۔
۱۰۔ وسعت مطالعہ:
محقیق کو چاہیے کہ وہ مطالعہ میں وسعت پیدا کرے۔ اپنے مخصوص مضمون کے علاوہ
اسے متعلقہ مضامین کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔
۱۱۔ پرکھنے والا ہونا:
وسیع مطالعہ کے ساتھ ساتھ محقق کو کسی حد تک مثبت تنقید کرنے والا ہونا
چاہیے۔ تحقیقی عمل میں جہاں بھی تنقید کی ضرورت پڑے توجانبدارانہ تنقید کرے
اور خوبیوں اورخامیوں دونوں کو سامنے لیے آئے۔ (۵)
محقیق کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے اصول:
فن تحقیق کے ماہرین نے محقیق کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے درج ذیل دس
اصولوں کو مقرر کیا ہے ،جن پر پورا اترنا ہر محقیق کو ضروری ہوتا ہے۔
۱۔ تحقیقی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت:
کوئی بھی شخص اس وقت تک محقیق نہیں ہوسکتا جب تک اس کے اندر یہ صلاحیت
موجود نہ ہو کہ وہ تحقیقی مسائل کو احسن طریقے سے حل کرسکے۔
۲۔ جدت کا سہارا لینا:
محقیق کو چاہیے کہ وہ اپنی تحقیق میں ہمیشہ نئی جدت کا سہارا لیے تاکہ
تحقیقی عمل میں معاشرے میں ہونے والی نئی ایجادات سے بھی استفادہ کیا
جاسکئے۔
۳۔ قوی حافظہ:
محقیق کا حافظہ اتنا قوی ہونا چاہیے کہ وہ حقائق کو وسیع طور پر وقت ضرورت
بیان کرسکئے حوالہ جات اور دلائل کے ساتھ۔
۴۔ چست ہونا چاہیے:
محقیق کو ہمیشہ تحقیقی عمل میں چستی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ یہ ناہو کہ
دوران تحقیق وہ سست ہو جائے اور جس کی بدولت تحقیقی عمل مسائل کا شکار ہو
جائے۔
۵۔ اچھی صحت کا حامل ہوناچاہیے:
تحقیق کے عمل کا خاص تعلق محقیق کی صحت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی
محقیق اپنی تحقیق کو اس وقت کر سرانجام نہیں دیئے سکتا جب اس کی صحت اچھی
نہ ہو، اور وہ موسمی حالات کو بھی براداشت کرنا جانتا ہو۔
۶۔ کاوشی رُحجان کا مالک ہونا:
کوئی بھی شخص اس وقت تک محقیق نہیں بن سکتاجب تک اس کارحجان کاوشی نا ہو۔
۷۔ اشتراک کامالک ہونا:
کسی بھی شخص کو محقیق بنے کے لیے اشتراک کا مالک ہونا بھی ضروری ہوتاہے۔
ورنہ تحقیق کا عمل متاثر ہوجاتا ہے۔
۸۔ اچھے اخلاق کامالک ہونا:
کوئی بھی شخص اس وقت تک اپنی تحقیق کو پایاتکمیل تک نہیں پہنچاسکتا جب تک
کہ اس کا اخلاق اچھا نا ہو۔ کیونکہ تحقیقی عمل میں بہت سارئے مسائل اچھے
اخلاق کی وجہ سے خود باخود حل ہوجاتے ہیں۔ ایسی کی بدولت تحقیق کا عمل تیزی
سے آگئے بڑھتا ہے۔
۹۔ تندرستی کا حامل ہونا:
کوئی بھی شخص اپنی تحقیق کو اس وقت تک پایا تکمیل تک نہیں پہنچاسکتا جب تک
وہ خود اچھی تندرستی کا مالک نہ ہو۔ اور اس کے جسمانی عضلات،قوت حیات
اورقوت برداشت درست سمت میں کام کرتے ہوں۔
۱۰۔ تحقیقی کام میں دلچسپی لینا:
محقیق کو تحقیقی کا م میں دلچسپی لینی چاہیے تاکہ تحقیق کا کام اپنے مقررہ
وقت میں پایا تکمیل تک پہنچ جائے۔ (۶)
نگران مقالہ کے اُوصاف:
جہاں ماہرین تحقیق نے محقیق کے اوصاف اور محقیق بنے کے کچھ اصول مرتب کیئے
ہیں وہاں نگران مقالہ کے اُوصاف کو بھی بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے ۔
اوراس بات پر خوصی توجہ دلائی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص اُس وقت تک نگران
مقالہ کے منصب پر فائز ہونے کا حقدار نہیں جب تک کہ اُس کے اندر مندرجہ ذیل
خصوصیات نہ ہوں۔
۱۔ اعلیٰ سیرت وکردارکا حامل ہونا:
نگران مقالہ کی شخصیت محقیقین کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے نگران
مقالہ کا انداز گفتگو،نشت وبرخاست اور اخلاق وعادات عمدہ ہوں وہ بے لوث
خدمت اور محبت وشفقت کی صفات کا حامل ہو۔
۲۔ مذہبی تعلیمات سے واقف ہونا:
نگران مقالہ کی شخصیت میں اس رُحجان کا بھی پایا جانا لازمی ہے کہ اگر اس
کے زیرِ سایہ مُحقیقین میں کوئی مُحقیق اس کے مذہب سے تعلق نہیں رکھتا تو
وہ اس مُحقیق کو بھی اُتنی اہمت دے جتنی کہ وہ دوسرے مُحقیقین کو دیتا ہے۔
۳۔ طلباء کی نفسیات کا علم ہونا:
نگران مقالہ کو مُحقیقین کی نفسیات سے مکمل آگاہی حاصل ہونی چاہیے۔مُحقیقین
کے رویے اور کردار میں تبدیلی لانے کے لئے ہرنگران مقالہ کو مُحقیقین کی
دلچسپیوں اور غیردلچسپیوں سے واقف ہو۔ مُحقیقین کی نفسیات سے آگاہی ،ان کے
فطری رحجانات اور تفریحی مشاغل سے واقفیت کے بغیر ممکن نہیں ۔
۴۔ پیشہ ورانہ تربیت کا حامل ہونا:
موثر مقالہ نگاری کے لئے نگران مقالہ کو اپنے مضمون میں مہارت حاصل کرنا
ضروری ہے۔ موثر مقالہ نگاری اور مُفیدتحقیقی نتائج کے حصول کے لئے ضروری ہے
کہ نگران مقالہ کو پیشہ ورانہ تربیت بھی حاصل ہواور وہ نئی نئی تحقیقات سے
بھی مستفید ہو۔
۵۔ قول وفعل میں مطابقت کا حامل ہونا:
نگران مقالہ عالم باعمل ہواور اسکے قول وفعل میں یکسانیت پائی جاتی ہو ۔
کیونکہ نگران مقالہ اپنے زیرِ سایہ مُحقیقین کی کردارسازی کا فرض نہایت
عمدگی سے اس وقت پورا کرسکتا ہے جب اس کے قول وفعل میں مطابقت ہو۔
۶۔ شفقت وہمدردی کا حامل ہونا:
نگران مقالہ اپنے زیرِ سایہ مُحقیقین سے محبت وشفقت اور ہمدردی سے پیش آنے
والا ہو اورحکمت ودانائی کے ساتھ تعلیم دینے اورتحقیق کرنے کا فن جانتا ہو۔
۷۔ اختلافی مسائل بیان کرنے سے اجتناب کاحامل ہونا:
نگران مقالہ کافرض ہے کہ اپنے زیرِ سایہ مُحقیقین کے مسالک کااحترام کرئے
اور اختلافی مسائل کو بیان نہ کرئے اور کسی مسلک یافرقے پر تنقید نہ کرئے
خواہ وہ مثبت تنقید ہو یامنفی ۔ کیونکہ اس سے کسی مخصوص فرقے سے وابستہ
مُحقیقین کی دل شکنی ہوگی۔
۸۔ جدیدطریقہ ہائے مقالہ نگاری سے آگاہی کاحامل ہونا:
نگران مقالہ کو مکمل جدیدطریقہ ہائے تدریس سے آگاہی حاصل ہونے چاہیے۔کیونکہ
تحقیقی عمل میں کیسی بھی قسم کی مشکلات کو حل کرنے میں آسانی ہوسکئے۔ تاکہ
تحقیق کا عمل جدید تقاضوں سے بھی آراستہ ہو۔
۹۔ تعصب سے بالاتر ہونا:
ہمارے ملک کے مختلف صوبوں میں مختلف عقیدوں ،رنگ ونسل،مختلف زبانیں بولنے
والے ،مختلف سیاسی نظریے رکھنے والے لوگ بستے ہیں جن کی قدرمشترک اسلام ہے
اس لئے نگران مقالہ کو تحقیق کے دوران ہر قسم کی لسانی،سیاسی اورذہنی تعصب
سے بالاتر ہوکر تحقیق کے فرائض سرانجام دینے چاہیں۔
۱۰۔ عمدہ اخلاق کا حامل ہونا:
نگران مقالہ کو عمدہ اخلاق کا مالک ہونا بھی ضروری ہے ۔ کیونکہ مُحقیقین
اپنے نگران مقالہ کے حُسن اخلاق سے متاثر ہو کر اپنی زندگی میں بھی تبدیلی
لاسکتے ہیں۔ (۷)
نگران مقالہ کے فرائض اور مُحقیقین کی کردارسازی:
ماہرین اصول تحقیق نے تحقیقی عمل کو بہتر بنانے کے لیے نگران مقالہ کے
فرائض اور محقیقین کے کردار سازی کے بھی کچھ اصول مرتب کیے ہیں جن میں سے
چند درجہ ذیل یہ ہیں:
۱۔ وقت کی پابندی:
وقت کی پابندی انسان کو زندگی کے ہرمیدان میں کامیاب بناتی ہے۔ وقت کی
پابندی سے تحقیقی عمل اکتاہٹ اوربوریت دونوں سے بچ سکتا ہے۔
۲۔ عملی نمونہ:
نگران مقالہ کو اپنا عملی نمونہ اپنے زیرِسایہ طلباء یا محقیقین کے سامنے
پیش کرنا ہوگا اس غرض کے لئے خود اسے تحقیقی عوامل کی پابندی کرنا ہوگی۔
تاکہ اس کے تمام اقوال وافعال اورحرکات وسکنات سے تقویٰ اورپرہیز گاری ظاہر
ہو۔
۳۔ تحقیق کی تیاری:
کیسی بھی موضوع پر تحقیق کرنے کے لیے اس کے تمام مثبت اور منفی پہلوں کا
جائزہ لینا چاہیے اور محقیقین کو پہلے سے اس کے بارے میں ذہنی طورپرتیار
کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ تحقیقی عمل میں پیش آنے والی مشکلات سے دل برداشتہ
ناہوں۔
۴۔ محنت اور خلوص:
نگران مقالہ کو پورے اخلاص سے تحقیقی فرائض سرانجام دینے چاہیں۔ اخلاص کے
ساتھ کی ہوئی تحقیق زیادہ موثر ہوتی ہے ۔ جتنا وہ زیادہ محنت اورذوق وشوق
سے محقیقین کی حوصلہ افزائی کرئے گا طلباء اس سے زیادہ مطمئن ہوں گے۔
۵۔ آمادگی:
طلباء کے اندر اس طرح کا جذبہ پیدا کرنا کہ وہ بھی کیسی مسلے پرتحقیق
کرسکتے ہیں اور انہیں اس تحقیق کے لیے آمادہ کرنا اورپھر اس تحقیق کے بارے
میں مکمل رہنمائی فراہم کرنابھی نگران مقالہ کے فرائض میں شامل ہے۔
۶۔ عملی وتحریری کام کا جائزہ:
نگران مقالہ کو چاہیے کہ وہ طلباء کے عملی وتحریری کام کا جائزہ لیتارہے ان
کی غلطیوں کو شفقت کے اندازمیں درست کروایا جائے۔
۷۔ خوش مزاجی:
عموماً تحقیقی طلباء تحقیق کرتے کرتے اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اس وقت
نگران مقالہ کو چاہیے کہ وہ اپنے طلباء کی حوصلہ افزائی کرئے اور خوش مزاجی
سے ان سے پیش آئے تاکہ طلباء کے اندرتحقیق کا جذبہ پھرسے تازہ ہوجائے۔
۸۔ قوانین وضوابط کا پابند:
نگران مقالہ کو چاہیے کہ وہ خود بھی معاشرتی ،ملکی قوانین اور ادارے
ومحکمانہ اصول وضوابط کاپابند ہو۔ کیسی لالچ یادباؤ کی صورت میں وہ اصولوں
سے انحراف کرنے والا نہ ہو۔ اس طرح طلباء اور معاشرے کی نظر میں اس کی عزت
اوروقار میں اضافہ ہوگا۔
۹۔ محقیقین کی اخلاقی تربیت:
نگران مقالہ کافرض ہے کہ وہ اپنے زیرِسایہ تحقیق کرنے والے طلباء کی اخلاقی
تربیت بھی کرے۔ انکے عقیدے کو درست کرنا ،انہیں مذہبی تعلیمات سے روشناس
کروانااورانہیں مقصدحیات کی تبلیغ کرنا بھی نگران مقالہ کی ذمہ داری ہے۔
۱۰۔ تحقیقی طلباء سے مساوات :
نگران مقالہ کو چاہیے کہ وہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے تحقیقی طلباء
سے مساوات اوریکسانیت سے پیش آئے اور اپنے علم سے سب کویکساں طور پر مستفید
کرے۔
۱۱۔ جذبہ عمل پیدا کرنا:
تحقیقی طلباء میں جذبہ عمل پیدا کرنے اورتحقیق کی ترغیب دینے کے لئے حسب
موقع کوئی چیز بطور انعام دے ۔ تاکہ طلباء میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا
جذبہ پیدا ہو۔ (۸)
خلاصہ بحث
کیسی بھی تحقیقی عمل کو نگران مقالہ اور محقیقین تحقیق کے تعاون سے ہی پورا
ہو سکتا ہے ۔ گویا کہ دونوں ہی تحقیقی عمل کے اہم عناصر ہوتے ہیں۔ اس لیے
دونوں کو ایک دوسرے کے احساسات اورذمہ داریوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ گزشتہ
تمام نکات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی بھی تحقیق اس وقت تک موثر نہیں
ہوسکتی جب تک نگران مقالہ اور تحقیقی طلباء اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے
سے سرانجام نہ دیں۔ ایک اچھی اور مثبت تحقیق کے لیے دونوں بنیادی عناصر کو
مل کر کام کرنا چاہیے۔تاکہ تحقیق مقبول عام ہوسکئے اور عام آدمی بھی اس سے
فائدہ اُٹھاسکئے۔
حوالہ جات وحواشی
۱۔ فیروزُ اللُّغات اُردوجَامِع،ص۱۲۷۵۔
۲۔ فیروزُ اللُّغات اُردوجَامِع،ص۱۴۵۔
۳۔ تحقیق کافن،گیان چند،ص۳۹۔
۴۔ تحقیق کا فن ،گیان چند،ص۴۰،بحوالہ: سہ ماہی ،ساغر،پٹنہ،جولائی ۱۹۶۴ء۔
۵۔ اصولِ تحقیق ،ص۱۳۵،نیشنل بُک فاؤنڈیشن اسلام آباد۔
۶۔ فن تحقیق،عبدالرزاق قریشی،در’’اردو میں اصول تحقیق،محولہ
بالا،ج۱،ص۸۳،بحوالہ: The Elements of Researchباب
نمبر۱ص۴۷۔
۷۔ بی ایڈ گائیڈ،آصف محبوب،ص ۹۹۴،نیوالبدر کتاب گھر یونیورسٹی چوک
بہاولپور۔
۸۔ بی ایڈ گائیڈ،آصف محبوب،ص ۹۹۶،نیوالبدر کتاب گھر یونیورسٹی چوک
بہاولپور۔
|
|