رمضان المبارک کا مقصد تقویٰ( ایفاء عہد )ہے
(Mohammed Mukhtar Mukhtar Ahmed, )
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
ماہ صیام رخصت ہوا کتنے مبارک نفوس ایسے تھے جنہوں نے اپنے رب کو راضی کرنے
کے لیۓ اپنی کمر کس لی تھی اور رات دن ایک کر کے ربّ کریم کے رحمت کے جوش
مارتے ہوے ٔ سمندر میں غوطہ کھا کر اپنی خلاصی کا پروانہ حاصل کر لیا ہو،در
اصل رمضان المبارک کا مقصد مسلمانوں کی تربییت Training) )ہے، اﷲ ربّ العزت
کا کرم اور اس کی رحمت کا کیا کہنا سال میں ایک بار سارے سرکش شیاطین کو
بیڑیوں میں جکڑ کر اور اپنے خصوصی رحمت کے دروازوں کو کھول کر ایمان والوں
کو بھلایٔ اور نیکی کی طرف رغبت کا سامان فراہم کرتاہے اور یہ چاہتا ہے کہ
مسلمان ساری زندگی صرف اسی کے حکم پر چلے اور اسی سے ڈرنے والا بن جاے، ٔیعنی(۔۔۔۔۔لعلکم
تتقون)
حقیقت میں ا ﷲ ربّ العزت اپنے بندوں سے وہ مطالبہ پورا کرانا چاہتا ہے، جو
الست بربّکم سے لیا گیا تھا۔۔۔۔ پھر انسان کو دنیا میں بھیجااور اس کی
یادہانی کے لیٔے انبیا ء و رسول کوبھیجتا رہا اور آخیر میں انسان کو اپنا
وعدہ یاد دلانے کے لیٔے سرورکونین فخر موجودات محمدﷺ کو ساری انسانیت کے
لیٔے پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا،پیارے نبی محمدﷺ نے اس بات کو پھر سے سب
سے پہلے ان سرکش انسانوں کے سامنے رکھّی جو اﷲ کی ساری حدوں کو توڑ چکے تھے،
اور وہ سرکشی کی ایسی راہ اپنا چکے تھے کہ دنیا کا کویٔ حکمراں بھی ان پر
حکومت کرنے کے لیٔے تیار نہ تھا، ساری براییٔوں کی جڑ شراب ان کی گھتی میں
پڑی ہوی تھی،کون جتنی پُرانی شراب رکھتا وہ اس پر ٖفخر کرتا۔جوے ٔکے اتنے
شوقین کے اس میں اپنی بیوی پچوں کو بھی ہار جانا ان کے لیے کویٔ عیب و ذلت
کی بات نہ تھی ،غریبوں یا کمزوروں کی زندگیوں سے کھیلنا ان کا پسندیدہ
مشغلہ تھا،غرض یہ انسان انسانیت کا انمول سبق بھولیے ہوے تھے ،آپﷺ اﷲ کے
حکم سے انہیں ا س دلدل سے نکالنا چاہا اور جھنجھوڑ تے ہوے ٔ صدا بلند کی
اور فرمایاقولو لاالہ اﷲ تفلحو ۔۔۔۔یعنی ازل میں لیے گے اقرار نامہ کو پھر
سے پوری قوت و حکمت سے یاد دلایا اور فرمایا قولو لاالہ اﷲ تملکہُ عرب وا
لعجم یعنی لاالہ اﷲ کے اس مطالبہ کوپورا کرنے پر عرب و عجم کے مالک بناے
جانے کا وعدہ کیا،خلاصۂ کلام یہ تھااگر دونوں جہانوں میں کامیبابی و
کامرانی یا عزت و تکریم ،چین و سکون چاہتے ہو تو اس بات پر سر تسلیم کر لو
پھر دنیا کے سامنے تمہیں جھکنا نہیں پڑیگا، گویا کے ایک پیکیج تھا یاپیشکش
تھی جوبھولی بسری انسانیت کو خالقِ کایٔنات کی طرف سے محمد ﷺ کے زریعہ دی
گیٔ تھی، شرط صرف کلمہ کا اقرار کرنا تھا یعنی ایک اﷲ کی مانا اور محمد ﷺٍکے
نقشِ قدم یا طریقے کو اپنانا تھا، دوسرے لفظوں میں یہ کہا گیا تھا من چاہی
کو چھوڑ کررب چاہی زندگی محمد ﷺ کے طریقہ پر اختیار کرنا گویا کے یہ پیغام
تھا کہ اس تحفہ کو لینے یاقبول کرنے کے عوض یہ دنیا تمہاری ہے اوراس کے
اندر جو کچھ ہے تمہارے اشارے پر چلیں گے ،
او ر ہاں !دنیا نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے صحابہؓ نے اس کلمہ کو قبول کیا اور اس
کے مقصدو مطالب کو سمجھا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنے نبی کے
اشاروں پر چلنے لگے تو کیا ہوا ؟ یعنی کفر و شرک سے توبہ کی اور من چاہی
زندگی چھوڑ کر رب ّ چاہی اختیار کی تو یہ انسان پستی و ذلّت سے نکل کرعزّت
و ترقی کی انتہایٔ اعلیٰ مناروں پر فائز ہوے اور دنیا کی ساری باطل طاقتیں
ان کے آگے سرنگوں ہوئیں اور کویٔ قوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی ،تاریخِ
انسانی نے اس منظر کو بھی دیکھا کے ان کے درمیان نہ پہاڑ حائل ہو سکے نہ
دریا اور نہ ہی جنگل کے خونخوار جانور،مطلب یہ تھا کے انہوں نے اپنی مرضی
کو اﷲ کی مرضی پر ڈال دیا ، تو اﷲ نے بھی دنیا کو انہیں کی مرضی پر چلایا،
دراصل ہر سال رمضان المبارک کی آمد کا مقصد بھی یہی وہ پیغام ہے کہ مسلمان
پوری زندگی اسی طرح گزارے جس طرح رمضان المبارک میں گزرتا ہے،کہیں مسلمان
اپنی دنیوی اغراض میں پڑ کر اپنے مقصدِحقیقی کوبھول نہ جاے ٔ،اﷲ ربّ العزّت
کی شانِ کریمی کا کیا کہنا کہ وہ مسلمان کو بار بارایسے مواقع فراہم کر کے
سنبھلنے کا موقع دیتا ہے، کامیاب ہوا وہ شخص جو اسے موقع کو غنیمت جان کر
اپنی زندگی کے رخ کو درست کر لیاہو، ورنہ مقصد فوت ہوگاتو پھراس کے بعد
اپنی ناکامی و بربادی پر رونا یا انسو بہانا بے سود ہوگا۔۔۔
ا للھم حفظنا منہم۔
شاعر مشرق علاّمہ اقبالؒ نے مسلانوں کے نام اپنے اس شعر میں اسی ربّانی
پیغام کی طرف اشارہ کیا ہے
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں ،یہ جہاں کیا چیز ہے یہ لوح و قلم تیرے
ہیں |
|