بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

’’ یادش بخیر! یادوں کے جھروکے سے جھانکتا ہوں تو لگتا ہے کہ میرے بچپن کی وہ خوبصورت یا دیں اور رومانی باتیں کسی ادیب کے افسانوں کی طرح شاید آج بھی میرے تصور میں بسی ہوئی ہیں۔میلے کچیلے بچوں کی تنگ گلیوں میں بھاگنا دوڑنا ‘جوہڑوں میں چھلانگیں لگانا‘حسین باغات میں آنکھ مچولی کھیلنا ‘جھولے جھولنا اور زندگی سے بھرپور قہقہے لگانا کسی دیو مالائی کہانی کی طرح میرے ذہن کے کسی گوشے میں آج بھی نقش ہے۔ جبکہ میری جنت نظیر وادی کا غروب آفتاب کا منظر ‘بادلوں اور بہارو خزاں میں درختوں کا حسن اور سیاہ راتوں میں برف پوش پہاڑوں سے چاند کے مکھڑے کا درشن مجھے آج بھی اپنے گاؤں کی طرف کھینچتا ہے ۔مجھے اپنے بہشت ِبریں خطے سے جنوں کی حد تک عشق ہے اور میں دوبارہ سے یہی آباد ہو کر یہاں کے لوگوں کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں ۔ مجموعی طور پر میرابچپن خوشگوار اور راست رو تھا ۔ میں ایک سائنس دان بننا چاہتا تھا لیکن جب میں نے غربت اور بے بسی کے ہاتھوں قربان ہوتے ہوئے انسانی جذبوں اور سپنوں کے دیس یعنی اپنے گاؤں کا رخ کیا تو پھر میں نے یک دم اپنے ارادوں کی موجوں کا رخ بدل دیا کیونکہ اگر میں ایک سائنسدان بن بھی جاتا تو اپنی ذات کے لیے بہت کچھ کر لیتا لیکن میرے گاؤں کی محرومیاں کبھی مجھے چین سے جینے نہیں دیتیں لٰہذامیں نے اپنے گاؤں کے لوگوں خصو صاً لڑکیوں کے لئے ایک ایسے تعلیمی ادارے کے قیام کا خواب دیکھا جہاں غربت زدہ لڑکے اور لڑ کیاں علم کی روشنی سے اپنے سینوں کو منور کرکے ایک شاندار مستقبل کا آغاز کر سکیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر دنیا بھر کو یہ بتا سکیں کہ گلگت بلتستان کے فلک بوس اور برف پوش پہاڑوں کے درمیان بسنے والے لوگ کسی طور پر کسی سے کم نہیں ‘‘۔

یہ الفاظ پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع گلگت بلتستان کے پہاڑوں کے درمیان چھپے ایک علاقے یاسین سے تعلق رکھنے والے کثیر الجہتی نوجوان شاہ زمان کے ہیں ۔ جس کے حوصلے ہمالیہ کی طرح بلند اور ارادے کوہِ بے ستوں کے کسی کوہ کن کی طرح پختہ ہیں۔ ْتیکھے نقوش‘ گندمی رنگت‘ ستواں ناک‘ جازب نظر اور درمیانے قد کے مالک شاہ زمان ایک عرصے سے گلگت بلتستان اور چترال میں علم کی روشنی پھیلانے میں کوشاں ہے ۔

شاہ زمان ایک ایسے معاشرے کا باسی ہے کہ جہاں ایک عرصے تک تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑا دیا جاتا تھا اور سکولوں کے درو دیوار کو معصوم بچوں کے خون سے رنگین کیا جاتا رہا ہے ۔ اعلیٰ اور میعاری تعلیم غریب ِشہر کے لئے محض ایک خواب ہے جب کہ امیروں کے گھر کی میراث ۔ایسی صورت حال میں معاشی طور پر غیر مستحکم خاندانوں کے لئے محض ایک ہی امید کی کرن نظر آتی ہے اور وہ ہے اسلامی مدارس میں مفت تعلیم۔مدارس میں فی سبیل اﷲ اسلامی تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن معصوم بچوں کے کورے اوراق کی مانند ذہنوں میں مذہبی انتہا پسندی کی غلاظت بھر دی جاتی ہے ۔ جہاں سے فارغ التحصیل طلباء وطالبات معاشرے کا ایک اچھا فرد ثابت ہونے کی بجائے سماج میں ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔

زندگی ایک مسلسل تحریک کا نام ہے اور زیست کے زلفِ پریشاں کو سلجھانے کا گرُ ہر کسی کے ہاتھ نہیں آتا اور کسی بھی معاشرے میں بسنے والے کسی بھی شخص کے لئے پرُتعیش زندگی کو خیر باد کہہ کر کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے مثلِ قیس کوہ بیاباں میں بھٹکنا نہایت مشکل عمل ہوتا ہے ۔ لیکن شاہ زمان نے 2010 ء سے گلگت بلتستان کے پس ماندہ علاقوں کے غریب و نادار بچے اور بچیوں کو مفت تعلیم کی فراہمی کے لئے اپنی زندگی وقف کری ہے ۔

شروع شروع میں شاہ زمان معاشی طور پر غیر مستحکم خاندانوں کے بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے جبکہ اس ٹیوشن سینٹر کا دائرہ کار امیرِ شہر تک بھی پھیلا ہوا تھا ۔ اور ٹیوشن فیس کی مد میں کچھ آمدن بھی ہاتھ آجاتی لیکن یہ بشر دوست دیہاتی اس آمدن سے غریب و نادار شاگردوں کے سکولوں کے فیسز ادا کرتا تھا تاکہ وہ تعلیمی سلسلے کو جاری رکھ سکیں لیکن ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ کے مصداق شاہ زمان کی منزل کچھ اورہی تھی اور یاسین جیسے پسماندہ علاقے میں ایک ایسے ادارے کا قیام تھا کہ جہاں سے غریب و نادار طلبہ و طالبات بغیر کسی معاوضے کے معیاری تعلیم حاصل کر سکیں ۔ اسی اثناء میں اس انسان دوست نوجوان نے میلکی وئے موومنٹ (Movement Milky Way)نامی ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جس کے ا خراجات بھی بمشکل وہ خود پورے کرتا تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ادارے نے ترقی کی اور اِس وقت ادارے میں 100 سے زائد طلبہ و طالبات مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ درجنوں افراد کا روزگار بھی اسی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ شاہ زمان نے اسی ادارے میں ایک لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا ہے جس سے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ علاقے کے علم و ادب سے شغف رکھنے والے افراد بھی مستفید ہو رہے ہیں اس کے علاوہ ایک مونٹیسوری سکول سسٹم بھی اسی ادارے کے زیر انتظام کام کر رہا ہے ۔ جہاں 50سے زائد بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں ۔

شاہ زمان کو اس امر کا احساس ہے کہ وہ شکستہ راہ کا مسافر نہیں ۔یہی وجہ ہے وہ گلگت بلتستان اور چترال کی نوجوان نسل کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے معاشرے میں علم کے ذریعے مثبت تبدیلی لانے کے لئے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور دیہات کا یہ سچا انسان ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو شاندار مستقبل کے حوالے سے جانکاری دینے میں اپنی کاوشوں کو بروئے کار لا رہا ہے میلکی وئے ایمسڈرز(Milky Way Ambassadors) میں ایسے طلبا ء و طالبات شامل ہیں جو ہارورڈ یونیورسٹی(Harvard University) سمیت پاکستان کی نامور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں جب یہ طلبہ و طالبات تعطیلات میں اپنے علاقوں کارخ کرتے ہیں تو گلگت بلتستان میں زیر تعلیم انڈر گریجویٹ اور ٹین ایجرز کے ساتھ شاندار مستقبل کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ خیال ، امتحانات کی تیاری کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سیکھنے میں بھی مدد کرتے ہیں ۔شاہ زمان کو گلگت بلتستان اور چترال میں علم کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کرنے اور یوتھ کو منظم کرنے کے لئے کی جانے والی کاوشوں کے اعتراف میںUnited Nations Development Programme (UNDP)کی جانب سے 2014میں N-Peace Awardسے بھی نوازا گیا ہے اور شاہ زمان حالیہ دنوں یونیسکو(UNESCO)کے ساتھ یوتھ ایمبیسڈر کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔

زندگی ایک مسلسل سفر کانام ہے اور قدرت کا نظام ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں اور زیست کے سفر کو مکمل کر کے اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں لیکن بنی نوع انسان کے درمیان خدا کی سر زمین پر بہت کم ہی ایسے آؔسمان صفت جواہر جنم لیتے ہیں جو اپنی ذات اور انفرادیت کی نفی کرتے ہوئے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی سربلندی کے لئے اپنی ذات کو فراموش اور قربان کرتے ہیں ۔ یقیناً شاہ زمان بھی اسی قبیلے کا ایک فرد ہیں ۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو خرافات کو آئین زندگی بنانے کی بجائے شاہ زمان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دکھی انسانیت کے دکھ درد کا مداوا کر نے کے لئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔
TEHZEEB HUSSAIN BERCHA
About the Author: TEHZEEB HUSSAIN BERCHA Read More Articles by TEHZEEB HUSSAIN BERCHA: 19 Articles with 21378 views

                                                                        
.. View More