ہاتھ کی سب انگلیاں برابر نہیں ہوتی

 اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات اور جرائم کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15سے64سال کی عمر کے افراد پر مشتمل آبادی منشیات کے تباہ کن نتائج سے متاثر ہو رہی ہے ۔ہوش ربا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران 64لاکھ بالغ افراد نے منشیات کا استعمال کیا۔ جبکہ 42لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں اور صرف 30ہزار سے بھی کم افراد کیلئے علاج کی سہولیات میسر ہیں اس کے علاوہ دیگر افراد کے لئے باقاعدہ علاج مفت نہیں ہے۔

نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کے سیکرٹری اکبر خان ہوتی کا کہناتھا کہ پاکستان میں منشیات کا استعمال ایک اہم مسئلہ ہے جو معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کر رہا ہے۔ طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی نسل میں نشہ آور اشیا کا استعمال کا رجحان درحقیقت دولت کی انتہائی فراوانی یا انتہائی غربت ، دوستوں کی بری صحبت ، جنس مخالف کی بے وفائی ، اپنے مقاصد میں ناکامی ، حالت کی بے چینی اور مایوسی ، والدین کی بچوں کی طرف سے بے اعتناہی ، معاشرتی عدم مساوات ، نا انصافء ، والدین کے گھریلو تنازعات بھی نشہ کے آغاز کے اسباب ہوسکتے ہیں ۔اہم ترین و خطرناک صورتحال یہ ہے کہ منشیات کے عادی افراد میں تباہ کن بیماریوں میں ا یڈز کی شرح سب سے زیادہ ہے ، جو دنیا بھر میں 13فیصد جبکہ پاکستان کے شہر کراچی میں اس کی شرح 42فیصد ہے۔

منشیات کی وجہ سے ایڈز جیسے خطرناک ناقابل علاج بیماری بھی پھیل رہیہے افغانستان میں پوست کاشت پرہر سال کھربوں ڈالر کی سرمایہ کی جاتی ہے اور اس تجارت کے بہت بڑے نیٹ ورک سے حاصل ہونے والی آمدنی سے تقریبا ایک کھرب ڈالر کی رقم صرف بین الاقوامی جرائم میں استعمال ہوتی ہے ۔ افغانستان میں امریکہ کی آمد سے قبل پوست کی کاشت پر طالبان کیجانب سے سخت پابندی عائد کردی گئی تھی جبکہ اس سے قبل جب روس کے خلاف افغان مزاحمت کارمصروف تھے توپاکستان میں جہاں کلاشنکوف کلچر آیا تو اُس کے ساتھ ہیروئن کی تباہ کاری بھی منشیات کے دیگر جز کیساتھ مملکت کے طول و عرض میں پھیل گئی ۔افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد منشیات کی پیداوار میں دس گنا سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں منشیات کا چالیس فیصد حصہ کراچی کی بندرگاہ اور ہوائی اڈے کے ذریعے اسمگل کیا جاتا ہے جبکہ 60فیصد حصہ دیگر ممالک کے راستے ناجائز اور خفیہ طریقوں سے فروخت کیا جاتا ہے۔منشیات کیخلاف روس کے وفاقی ادارے کے ڈائریکٹر "وکٹر ایوانوو"نے افغانستان میں نیٹو کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے افغانستان، پاکستان، روس اور تاجکستان کے منشیات کے خلاف سرگرم اداروں کے اجلاس سے خطاب میں اپنے تحفظات کا اظہارکرچکے تھے۔پاکستان میں خیبر پختونخوا میں منشیات کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے ، صوبے میں نوجوان طبقے میں یہ شرح 10.9فیصد جبکہ صوبے کی آبادی کا بڑا حصہ بھنگ ، افیون اور دیگر نشہ استعمال کرتے ہیں صوبے کے ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد افراد ہیروئن کا نشہ اور 84ہزار افراد افیون کا نشہ کرتے ہیں ، بلوچستان میں 17ہزار افراد سرنج کے ذریعے نشے کے عادی ہیں پنجاب میں 8لاکھ افراد سے زائد افرادہیروئن اور ایک لاکھ سے زائد افراد افیون کا نشہ کرتے ہیں، صوبہ سندھ میں ملک بھر میں سب سے زیادہ بھنگ کا نشہ کیا جاتا ہے جبکہ صوبہ میں سب سے زیادہ چرس 4.3فیصد بھی استعمال کی جاتی ہے سندھ صوبے میں 6لاکھ سے زاید افراد افیون جبکہ 66فیصد افراد درد ختم کرنے والی ادویات جبکہ 34فیصدہیروئن اور افیون کے عادی ہیں۔یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے جیسے ہم سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہمارے معاشرے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا جرائم کے خاتمے کیلئے بڑا اہم کردار ہے۔ اپنے کالم کی تیاری کے سلسلے میں اورنگی کے ایس پی علی آصف سے ایک ملاقات میں منشیات فروشوں کے حوالے سے پولیس کے کردار پر بات چیت ہوئی۔ اورنگی کے ایس پی علی آصف ان چند پولیس افسران میں شامل ہیں جن کی وجہ شہرت جرائم پیشہ اور خاص طور پر منشیات فروشوں کے خلاف سخت کاروائی کرنا رہا ہے۔ انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ منشیات کی لعنت عوام کے تعاون کے بغیر ختم نہیں کی جاسکتی ، عوام اپنے سامنے اپنے گھروں کے سامنے ، گلیوں میں منشیات فروخت ہوتے دیکھتے رہتے ہیں اور بالآخر ان کے بچے بھی اس لعنت میں گرفتار ہوجاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے قانون کی مدد کرنے سے گریزاں ہیں۔میں نے ان سے اس بات پر اختلاف کیا کہ پولیس کا نظام ٹھیک ہوگا لیکن پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے بھی عوام کا اعتماد بھی بحال نہیں ہے، میں نے انھیں مثال دی کہ سابق وزیر اعلی سندھ غوث علی شاہ اقرار کرتے ہیں کہ سہراب گوٹھ آپریشن ڈرگ مافیا کے خلاف تھا آپریشن کامیاب ہوجاتا اگر اس علاقے کا ایک ایس ایچ او نے، غوث علی شاہ کے مطابق 73لاکھ روپے روزانہ رشوت ملتی تھی اس آپریشن کا راز فاش نہ کرتا۔ ایس پی علی آصفنے بتایا کہ نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے بچانے کیلئے انھوں نے حتی امکان کوشش کی ہے ۔ کچھ معروف منشیات فروشوں کے اڈوں پر پولیس کاروائی سے آگاہ کیا جو ان کی ذاتی نگرانی میں ہوئے۔ مومن آباد پولیس اسٹیشن کی حدودمیں اثر رسوخ رکھنے والوں کیخلافFIR 188/2015درج کرکے تین ملزمان،فقیر کالونی کے علاقے عمر بلوچ محلہ کے بدنام زمانہ منشیات فروش عاشق عرف بھالوکے اڈے سے منشیات فروشوں کو گرفتار کرکے FIR113/2015 درج کرکے جیل بھیجا۔ اورنگی ٹاؤن کے علاقے کا بد نام زمانہ سعید عرف کالیہ کے منشیات اڈے سے ملزمان گرفتار کرکےFIR 159/2015، سرجانی ایکسپریس وے سرجانی کے بد نام زمانہ اڈے علی عرف پاگل کو گرفتار کرکےFIR 293/2015، پیر آباد کے علاقے نیو میانوالی کالونی نزد محمدی چوک کے بد نام زما نہ ڈرگ مافیا کو گرفتار کیا اور ان کے خلافFIR 266/2015، رشید آباد کے علاقے چادر فیکڑی سے رشید عرف بھائیا کے منشیات فروشوں کو گرفتار کرکے 73/2015 FIRسیکٹر ساڑھے گیارہ سے سٹہ عرف پپو کو گرفتار کرکے FIR115/2015۔جبکہ پیر آباد کا سب سے بد نام زمانہ منشیات فروشوں کے اڈے چاٹی ہوٹل سے منشیات فروشوں کو گرفتار کیا اور انھیں 212/2015FIR کے تحت جیل بھیجا۔ پیر آباد کابد نام ترین منشیات فروش امان اﷲ چھاپوں کے بعد کچھ عرصہ خاموش بیٹھتا اور پھر منشیات فروخت کرنا شروع کردیتا اور اس کے کارندے ضمانت پر باہر آتے ہی دوبارہ منشیات فروخت کرتے اور بذات خود ایس پی علی آصف نے کئی باراس کے کارندوں کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف FIR 274/2015 , 285/2015 کے مقدمات درج کرکے جیل بھیجے اس اڈے کا یہ حال تھا کہ یہاں لائن بنا کر منشیات حاصل کرنی پڑتی تھی۔اسی طرح فرنٹیئر کالونی کے بد نام اڈے قاسم کیخلاف کاروائی کی گئی۔اور اس کے خلاف15 سے زائد FIR درج ہوچکی ہیں اور ان کے کئی کارندوں کو گرفتار کیا۔ایس پی اورنگی علی آصف عوام سے گلہ ہے کہ وہ بھرپور تعاون نہیں کرتے اور تمام پولیس والوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ ہاتھ کی سب انگلیاں برابر نہیں ہوتی، عوام بلا خوف خطرانھیں معلومات دیں ان کے نام صغیہ راز میں رکھیں جائیں گے اور وہ خود جاکر ان منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کریں گے۔ ایس پی اورنگی علی آصف کیخلاف منشیات فروشوں کیجانب سازشیں بھی ہوتی رہتی ہیں کیونکہ منشیات فروشوں کے بد نام زمانہ اڈوں کیخلاف ان کی کاروائیوں قابل تقلید و مثالی ہیں، کراچی میں پولیس و ینجرز نے حال ہی میں کئی منشیات کے اڈوں کو مسمار کرکے جلایا بھی ہے ۔اگر ہم اپنے علاقوں کو منشیات سے پاک نہ کریں تو اس میں میرے نزدیک سب سے زیادہ قصور خود عوام کا ہوگا ۔ڈرگ مافیا اگر مضبوط ہوتاہے تو عوام کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے ہم جب پولیس یا کسی ادارے پر اس کی بُری کارکردگی کی بناپر تنقید کرتے ہیں تو یہاں ہمارا صحافتی اور اخلاقی فرض بھی بنتا ہے ہم جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کاروائیوں پر ان کی حوصلہ افزا بھی کریں۔یقینی طور پر ایس پی علی آصف جیسے افسران پولیس کے اداروں میں جرائم کی بیخ کنی کیلئے دستیاب ہیں اچھے بُرے لوگ سب جگہ ہوتے ہیں اور کوئی ادارہ بھی ایسے افراد سے پاک نہیں ہے لیکن ہمارا یہ رویہ بن گیا کہ برُے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگوں کی بھی کردار کشی سے باز نہیں آتے اور اپنی پیشہ وارنہ سرگرمیوں سے انصاف نہیں کرتے۔ہم جب تک معاشرے کے فرد کی حیثیت سے ، قانون کی مدد کیلئے اداروں کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے تو ہمارے علاقے جرائم کے اڈے بنتے چلے جائیں گے ۔ اگر کسی ادارے میں کالی بھیڑ موجود ہے تو ان کے اوپر بھی افسران موجود ہیں جو ان کی کوتاہی پر فوری ایکشن لیتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں، تاکہ یہ ہماری آنے والی نسل کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کرسکیں۔چونکہ منشیات ایک ناسور ہے اور اس کے خاتمے کیلئے عوام کا تعاون ناگزیر ہے۔ اب فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744132 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.