’’ری کون کو ئسٹا ‘‘ ایک نشانِ عبرت

 ’’Reconquista‘‘

سپین جو کہ بر اعظم یورپ کا اہم اور تاریخی ملک ہے سپین جو کہ اپنے مشہور شہروں میڈرڈ، بارسلونا ، غرناطہ کے علاوہ مسجدِ قرطبہ،قصرِ زہرہ الحمرا کے محلات کی وجہ سے مشہور جانا اور پہچاچا جاتا ہے اسلامی تاریخ میں سپین اندلس کے نام سے مشہور ہے جبکہ سلطنت روما والے اس ملک کو ہسپانیہ کہتے ہیں موجودہ سپین کی موجودہ آبادی کا تقریباً97 فیصد کیتھولک عیسائیوں پر مشتمل ہے 711 میں مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد نے رورڈک بادشاہ کو شکست دے کر سپین پر اسلام کا جھنڈا گاڑا تھا۔ طارق بن زیاد کا اپنی فوج سے خطاب رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اس کا یہ قول کہ’’ کشتیاں جلا دو‘‘ آج بھی ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ طارق بن زیاد کی سپین پر فتح کے بعد مسلمانوں کا سات سو سالہ دورہ حکومت شروع ہوا ۔

اور پھر اسی اسلامی سلطنت سے عظیم علماء اور عظیم کتب دنیا کو ملیں اور عظیم الشان تعمیرات ہوئیں مسلمان اپنے اس عظیم الشان عروج کے باوجود سپین سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے سپن جو کہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا امین ہے۔

جیسا کہ خدا تعالیٰ کا اصول ہے جب وہ کسی قوم کو عروج دیتا ہے تو وہ اس وقت تک اس عروج کو ختم نہیں کرتا ہے جب تک کہ وہ خود اس کی ناقدری کرنے والے نا بن جائیں چنانچہ عرض سپین میں بھی مسلمانوں کی بد اعمالیوں اور ان کے حکمرانوں کی نا عاقبت اندیشیوں نے اس عظیم اسلامی سلطنت کو تباہی و بربادی کی مثال بنا دیا ہے آج کے سپین میں موجود اسلامی دور کی عظیم الشان تعمیرات اور عظیم الشان ماضی کی عکاس ہیں تو دوسری طرف ہماری ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی ایک زمانہ تھا کہ سپین میں مسلمان عروج میں تھے اور پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ سپین میں مسلمان ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا کافی لمبا عرصہ تک عیسائیت سپین کا ملکی مذہب رہی مگر چند دہائیاں قبل عیسائیت کا ملکی مذہب کے درجہ سے ہٹا دیا گیا مگر آج بھی سپین کی اکثریت آبادی کی عیسائی ہے اور چند لاکھ مسلمان ہیں کئی سال تک سپین میں مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں تھی سپین اسلامی سلطنت کے آغاز اور عروج کی داستانیں جس طرح سمیٹے ہوئے ہے اسی طرح عرضِ سپین اسلامی حکومت کے دردناک زوال کی بے شمار کہانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ان بے شمار داستانوں میں سے ایک ایسی داستان ہے جو کہ ’’ری کون کوئسٹا‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے ’’ری کون کوئسٹا‘‘

ایک ہسپانوی لفظ ہے جس کا مطلب’’ دوبارہ فتح کرنا ‘‘ہے۔ جب سپین میں فاتح مسلمانوں کے اندر انتشار اور تنزل تیز تر ہوتا چلا گیا تو مقامی آبادی نے پر تولنے شروع کر دیئے‘ چنانچہ آس پاس کی عیسا ئی طاقتوں کی سے انہوں نے بڑی طاقت ور تحریک چلائی جس کا نام ’’ری کون کوئسٹا‘‘ رکھا گیا تاکہ وہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے پھر آزاد کراسکیں۔102ھ(720ء ) میں کووادونگا کے مقام پر اور 114ھ (732ء) میں طورز پر مسلمانوں کو شکستیں ہو چکی تھیں۔انجام کا ر 1492 ء میں آخری مسلمان حکمران ابو عبداﷲ کو شکست کے بعد سپین کھالی کرنا پڑا۔مراکش کی طرف فرار ہونے سے پہلے وہ ایک درہ ‘ سیرانیوادا پر کچھ دیر کے لئے رکا اس وقت ابھرتے ہوئے سورج کی روشنی میں دلفریب الحمرا جگمگا رہا تھا فرط غم سے ابو عبداﷲ بے اختیار رو پڑا۔ ہسپانویوں نے اس جگہ کا نام ہی ’’ ایل الٹی موسوپرو دیل مورو‘‘ (یعنیـ’’ مسلمانوں کے رونے کا آخری مقام‘‘) رکھ دیا ۔ فتح نو کے بعد بھی سپین میں مسلمانوں کی کافی آبادی اور متعدد پر شکوہ ثقافتی عمارات موجود تھیں۔ مگر فاتح ہسپانویوں نے عیسائیت کے جنون میں ان کا نام و نشان مٹا دیا ۔اس کے باوجود ہسپانیہ میں اسلامی عہد کی چند ایک خوبصورت عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔ اپنے غیر معمولی جاہ و جلال کے باعث یہ پر شکوہ عمارات اب بھی ہسپانیہ میں سیاحت کے فروغ کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہیں۔ عہد اسلامی کی ان عظیم یادگار عمارتوں مسجد قرطبہ اور الحمرا جیسی حسین عمارات سر فہرست ہیں۔ مسلمانوں نے کی اس عظیم الشان سلطنت کو اور آپس کے اختلافات نے پستی کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ اور اسی کی وجہ سے اس عظیم مسلم سلطنت کا زوال ہوا کہتے ہیں کہ عقل مند وہ ہے جو کہ اپنی غلطی سے سبق سیکھے مگر اس سے بھی زیادہ عقل مند وہ ہے کہ جو دوسروں کی غلطی سے بھی سیکھے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا آج کی مسلم امہ بھی بہت سے اختلافات کا شکار ہے اگر ہم بھی آپسی اختلافات کا شکار ہی رہی تو یاد رکھنا چاہیے کہ ان اختلافات کا انجام ہمارے سامنے ہی ہے ۔ خدا تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں ہمت دے کہ ہم ان اختلافات کو ختم کر سکیں اگر اختلافات ختم ہو ں گے توہی ہم روشن مستقبل کی امید کر سکتے ہیں۔

Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 30786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.