آج شادی کا تصور شادی ہال کے
بغیر ادھورا ادھورا سا لگتا ہے۔ رنگ برنگی روشنیوں سے مزین چمکتے دمکتے
شادی ہال شادی کا رنگ ڈھنگ ہی بدل دیتے ہیں۔ نت نئے اندازِ سجاوٹ اور
اچھوتی رسمیں مالدار لوگوں کے لئے تسکین کا باعث ہوتی ہیں اور موجودہ شادی
ہال ان لوگوں کی تشقی اور تسلی کا پورا سامان کر رہے ہیں۔ غریب اور سفید
پوش حضرات بھی مجبوری میں ان کی پیروی کر رہے ہیں اور شادی ہال مالکان کی
انگلیاں گھی میں ہیں۔مجھے اپنا بچپن یاد ہے کہ شادی ہال اور نمود و نمائش
کا اس طرح کا تصور ہی نہ تھا۔ شادی کی تقریب ہونا ہے اگر تو کوئی سکول گھر
کے قریب ہے تو اس کے کمرے خالی کرا لینے اور اگر سکول نہیں تو گھر کے باہر
گلی یا سڑک کس مرض کی دوا ہے۔ دونوں طرف قناعتیں لگا کر گلی بند کر لی جاتی۔
سکول کے کمرے یا گلی کے فرش کو صاف کر کے اس پر دریاں بچھا لی جاتیں۔ دریوں
پر اُجلی سفید چادریں بچھانے کے بعد لمبے لمبے دسترخوان بچھا دئے جاتے۔ اس
وقت گلی بند کرنے کو کوئی محلے دار برا نہیں سمجھتا تھا بلکہ اس کام میں
مدد کرنا اپنا اخلاقی فرض مانتا اور جانتاتھا۔مہمان آتے تو دسترخوان کے
دونوں طرف بیٹھ جاتے۔ دُلہا اور اس کے دوست کسی محلے دار کی بیٹھک میں
براجمان ہوتے۔ کھانا شروع ہوتا تو تمام گھر والے، تمام قریبی عزیز اور تمام
محلے دار خوشی خوشی کھانا بانٹنے کا فریضہ انجام دیتے۔ کوئی سیانا بزرگ
دیگوں کی رکھوالی بیٹھ جاتا اور کھانے کی تقسیم بہت سمجھداری اور خوش
اسلوبی سے انجام دیتا۔ کسی بیرے یا خدمتگار کا تصور ہی نہ تھا۔ ہر شخص کو
ایک پلیٹ جس میں چاول ہوتے اور جس کے ایک طرف سالن کا پیالہ دھنسا ہوتا ،مل
جاتی۔ برائلر مرغ ابھی متعارف نہیں ہوا تھا۔ اس لئے بکرے کا گوشت استعمال
ہوتا تھا۔ ہر سالن کے پیالے میں ایک بوٹی اور ایک آلو کا ٹکڑا ہوتا تھا۔
دوبارہ سالن کا ملنا انتہائی محال تھا۔ سلاد کا فیشن نہیں تھا۔ البتہ عجیب
لوگ تھے کہ بہت سے شرکا سلاد کی چیزیں اپنی جیب میں رکھ کر لاتے، خود بھی
کھاتے اور دوسروں میں بھی بانٹ دیتے۔ پھر وقت تبدیل ہوا اور جن لوگوں کو
سالن کی مزید طلب ہوتی ان کے لئے شوربے سے بھری بالٹی لے کر ایک نوجوان
گھومتا کہ ضرورت ہے تو شوربہ تھوڑا بہت لے لو۔ بوٹی اور آلو کا سوچو بھی مت۔
ان شادیوں میں گھر کے افراد، قریبی عزیز اور محلے دار مہمانوں سے پہلے
کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے کہ مبادا کھانا کم پڑ جائے اور صاحب خانہ کو
مہمانوں کے ہاتھوں شرمندگی اٹھانی پڑے۔ عموماً کھانا وافر ہوتا اور سبھی
عزیز،دوست اور رشتہ دار، مہمانوں کے بعد کھاتے اور اگر کم ہوتا تو بازار سے
کوئی ہلکی پھلکی چیز منگوا کر خوشی سے مل کر کھا لیتے۔
وقت بدلا تو کچھ جدت آگئی۔ اب دریوں اور دسترخوانوں کی جگہ چھوٹی چھوٹی
میزیں آگئیں جن کے اردگرد چھ (6) کرسیاں ہوتیں۔ ایک ڈش چاولوں کی اور ایک
ڈش سالن کی بمعہ چھ آدمیوں کے لئے پلیٹیں میز پر رکھ دی جاتیں۔ سالن اب بھی
محدود ہی ہوتا تھا۔ جس کے قابو سالن کی ڈش سب سے پہلے آجاتی وہ سالن کچھ
زیادہ ڈال لیتا۔ دوسرے جنہیں کم ملتا باتیں بناتے۔ کبھی کبھی ہلکی پھلکی
بدمزگی بھی ہوتی۔ برائلر کی آمد پر سالن کی مقدار بہتر ہونا شروع ہوئی۔ مگر
پھر بھی گوشت ضائع نہیں ہوتا تھا اور تقریبات میں سادگی کا عنصر نمایاں تھا۔
اگلا دور کھلی جگہوں کی تلاش کا شروع ہواتو لوگوں نے گراؤنڈوں کا رُخ کیا۔
سادہ کھانوں کی بجائے پر تکلف کھانوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے لوگ خود
پکواتے تھے۔ صبح صبح گھر کے افراد منڈی سے چیزیں خرید کر لاتے۔ آبائی نائی
بھی کچھ چیزوں کا انتظام کرتا اور ہر چیز خود پکوائی جاتی۔ اب کیٹرنگ والے
میدان میں آگئے۔ کئی کئی ڈشوں کی رسم چل پڑی۔ اب میزبان بھی مہمانوں کی طرف
تقریب میں آتے۔ کون پکوائے اور بھاگ ڈور کی زحمت کرے۔ پیسے کی بہتات نے تن
آسانی کا بھی سامان کیا۔مقابلے بازی کی قضا میں ڈشوں کی تعداد بڑھتی گئی۔
بڑی بڑی گراؤنڈوں میں لاتعداد مہمان اور لاتعداد ڈشیں۔ گوشت ضائع کرنا
لوگوں کا معمول بن گیا،مگر لوگ پھر بھی مطمئن نہیں تھے۔بلکہ مزیدنمود و
نمائش کے متلاشی تھے۔ سفید پوش اور مڈل کلاس طبقے کے لوگ پریشان ضرور تھے
مگر اس بے جا اسراف کے مقابلے سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ بڑی بڑی
گراؤنڈوں میں شادی کا فنکشن تو شاندار ہوتا مگر شرط یہ تھی کہ بارش نہ ہو۔
بارش اگر ہو جاتی تو ہر چیز کا ستیاناس ہو جاتا۔ اس ساری مشکل سے لوگوں کو
شادی ہالوں نے نکالا۔ پہلے عام سادہ سے ہال ہی شادی ہال ٹھہرے۔ اب شادی ہال
سٹیٹس(Status)کی علامت بن گیا ہے۔ اس لئے کہ موجودہ حکومت نے کھانے میں ایک
ڈش کی پابندی عائد کر دی ہے۔ مگر ہال کی چمک چوند اور شاندار سٹیج کی بناوٹ
پر کوئی قید نہیں۔ دُلہا اور دلہن کے بیٹھنے کے لیے جو سٹیج بنایا جاتا ہے
اس کی قیمت 20 ہزار سے لے کر پانچ، چھ لاکھ تک وصول کی جاتی ہے۔ کراچی اور
دوسرے شہروں میں جو کھانا شادی ہال سات اور آٹھ سو میں مہیا کرتے ہیں،
لاہور کے اچھے شادی ہالوں میں اس کھانے کے پندرہ سو کے لگ بھگ وصول کئے
جاتے ہیں اور یہ فرق صرف شادی ہال کی چمک دمک کی وجہ سے ہے۔
حکومت کا یہ اقدام یقینا قابل ستائش ہے کہ اس نے شادی ہالوں میں ون ڈش اور
وقت کی پابندی کا نظام نافذ کر دیا ہے۔ کبھی وقت تھا لوگ گھر سے شادی میں
شرکت کے لئے گیارہ بجے نکلتے تھے۔ اب سو ادس بجے گھر واپس آجاتے ہیں۔ مگر
شادی ہالوں کے کچھ مسائل انتہائی تشویش ناک اور غور طلب ہیں۔ لاہور کے پوش
علاقوں میں شادی ہالوں کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ لوگوں نے چھ ماہ سے ایک سال
تک قبل از تقریب ہالوں کی بکنگ کرائی ہوئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ شادی ہال
والے قبل از بکنگ کے لئے پچاس فیصد رقم ایڈوانس کے طور پر وُصول کرتے ہیں۔
اگر کسی کا تقریب کا کل تخمینہ 5 لاکھ روپے ہو تو وہ چھ ماہ سے زیادہ عرصے
تک شادی ہال مالکان کو ڈھائی لاکھ روپے ایڈوانس ادا کرتا ہے۔ یوں شادی ہال
مالکان لوگوں سے کروڑوں روپے وصول کر کے کئی ماہ تک استعمال کرتے ہیں۔ شادی
ہال مالکان میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہوں گے۔ اگر کوئی شخص یہ کروڑوں
روپے لے کر غائب ہو جائے تو ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ شاید کسی پر بھی
نہیں، مگر حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہوگا۔ شادی ہال والے 50 فیصد
ایڈوانس کئی ماہ پہلے لیتے اور بقیہ 50 فیصد 20 سے 25 دن پہلے وصول کرتے
ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ فنانس کارپوریشنوں کی طرح کسی نئے سیکنڈل کو جنم
دینے سے پہلے شادی ہالوں کو بکنگ دس یا پندرہ فیصد میں کرنے کے لئے پابند
کرے اور بقیہ گاہکوں سے تقریب سے پندرہ، بیس دن پہلے وصول کرنے کا قانون
بنائے۔ اس طرح عوام بھی بہت سی پریشانی سے بچ جائیں گے اور حکومت بھی فنانس
کارپوریشنوں جیسے کسی نئے سیکنڈل سے محفوظ رہے گی۔ |