سیلاب :قدرتی آفت یا غفلت

پچھلے چند سالوں میں تقریبا ہر سال مون سون کے موسم میں ارضِ وطن سیلاب کی زد میں رہتی ہے ۔ہر سال کی طرح اس سال بھی سیلاب نے ارضِ وطن کے کئی اضلاع میں نہ صرف تباہی پھیلائی ، ان گنت مکانات ،مویشی اور افصلیں سیلابی ریلوں کی زد میں آکر تباہی کا شکار ہو گئیں ۔کم و بیش پانچ لاکھ سے زائد انسانی جانیں بھی ان پانیوں کی نذر ہو گئیں ۔ ہر سال مون سون کے موسم میں دریائے چناب اور دریائے سندھ میں پانی کی سطح اس حد تک بلند ہو جاتی ہے کہ آس پاس کے دیہات زیرِ آب آ جاتے ہیں ۔اس سیلاب کی بنیادی وجہ گرمی کے موسم میں شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشیئر وں کی برف کا پانی میں تبدیل ہونا ، مون سون میں بارشوں میں اضافہ شامل ہیں ۔ گرمی کی شدت سے گلیشئیر کا پگلنا، مون سون کی بارشیں اور دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی کی مقدار میں اضافہ نہ صرف ایک قدرتی عمل ہے ، دریاؤں میں پانی کمی مقدار میں اضافہ کے بارے میں محکمہ موسمیات نے چند ماہ پہلے سے پیسن کوئی کر دی تھی تاہم اس پیشن گوئی کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلاب سے بچاؤ کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔جب مون سون کے آغاز کے ساتھ ہی بھارت اپنے ڈیموں کا پانی چھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے بھی سیلابی صورت حال بن جاتی ہے ۔

اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اس سیلاب کی بڑی وجہ دریائے سندھ میں پانی کی مقدا ر میں بے پناہ اضافہ ہے ۔دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے ۔ یہ دریا تبت کی پہاڑیوں سے ایک نالے کی صورت میں نہایت تنگ چوڑائی لیے جموں کشمیر سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے ۔ دریا کے آغاز میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ نہیں ۔صوبہ پنجاب میں دریائے سندھ میں دریائے راوی ، چناب ، جہلم ، بیاس اور ستلج شامل ہو جاتے ہیں ۔اٹک کے قریب دریائے کابل اس میں شامل ہوتا ہے ۔ اس طرح جیسے جیسے یہ دریا میدانی علاقوں کی جانب بڑھتا ہے اس میں دوسرے ندی نالے شامل ہو کر اس میں پانی کی مقدار ، اس کی چوڑائی میں اضافہ بنتے جاتے ہیں ۔ جوں جوں دریا میدانی علاقوں کی جانب بڑھتا ہے توں توں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے ، پانی کے بہاؤ میں اضافہ کی وجہ سے دریا اپنے ساتھ مٹی لے کر آتا ہے جو دریا کی گہرائی میں کمی کرتی چلی جاتی ہے ۔ ایسے میدانی علاقوں میں جو کہ قدرے نشیبی ہیں وہاں دریائے سندھ کی چوڑائی کم، پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو جاتاہے اور یہ اضافی پانی دریا پرپہلے سے موجود بند اور پشتے توڑ کر آبادیوں میں داخل ہو کت تباہی کا سبب بنتا ہے ۔اس طرح یہ دریا پاکستان میں موجود پانی کے ذخائر میں نہ صرف سب سے بڑا ذخیرہ ہے بلکہ پورے ملک کو سیراب کرنے کا باعث بھی ہے ۔ پورے ملک کو سیراب کرتے ہوئے مٹھن کوت اور پنج ند سے ہوتے ہوئے ٹھٹھا کے شرق میں ڈلٹا بناتے ہوئے بحیرہ ء عرب میں شامل ہو جاتا ہے ۔پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہونے کی وجہ سے دریائے سندھ تقریبا تین صوبوں سے گزرتا ہے ،اس لیے اس دریا میں جب بھی پانی کا بہاؤ ایک خاص سطح سے بلند ہوتا ہے یا سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو تقریبا پورا ملک ہی متاثر ہوتا ہے ۔ اس سال صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی تعداد پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ ہے ۔۔ہم ہر سال کئی کیوسک پانی بحیرۂ عرب میں ضائع کر دیتے ہیں ۔

پاکستان میں پانی کی اس اضافی مقدار کو ذخیرہ کرنے کے لیے ہمارے ملک میں صرف دو بڑے ڈیم (منگلا اور تربیلا )ہیں ۔ تیسرا بڑا ڈیم(کالا باغ ڈیم ہے )جس کی تعمیر کئی برس سے بحث و مباحثہ کی نظر ہوتی چلی آرہی ہے ۔سال ہا سال سے یہ ڈیم بنانے کی سمریاں بنائی جاتی ہیں اس معاملے پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے ، پیسہ خرچ کیا جاتا ہے لیکن باوجود ان سب کے اس ڈیم کی تعمیر سیاسی مباحثوں کی نظر ہوتی چلی آئی ہے ۔اگر پانی کی اضافی مقدار کو ذخیرہ کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم یا چند چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا دئے جائیں تو ملک میں جاری بجلی کے بحران پر نہ صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان دوسرے ملکوں کو بجلی درآمد کرنے کے بھی قابل ہو سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کو چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا کام سونپا جانا چاہیے ۔

دریاؤں کے پانی میں اضافہ اور بارشیں ایک قدرتی عمل سہی لیکن ہر سال مون سون میں سیلاب کی بڑی وجہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری غفلت بھی ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد سے لے کر آج تک اس معاملے پرکسی قسم کی خصوصی توجہ نہیں دی گئی ۔نہ تو دریاؤں ، ندی نالوں کی بھل صفائی کروائی گئی ، نہ ان کی کھدائی کروائی گئی ، نہ ڈیم بنایئے گئے اور نہ ہی ان پر نئے بند باندھے گئے ۔سوائے دو بڑے ڈیموں کے کوئی نیابڑا ڈیم بنانا تو درکنار کوئی چھوٹا ڈیم بھی نہیں بنایا گیا ۔ہمارے برعکس آزادی کے چند برس بعد ہی پڑوسی ملک میں کئی ڈیم بنائے گئے یہاں تک کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حق پر ڈاکہ ڈال کر اس دریا پر بھی ڈیم بنایا گیا جو کہ پاکستان کا حصہ تھا ۔

اگرچہ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ملک میں بڑے ڈیم بنانا مشکل امر ہے تاہم ان نشیبی علاقوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ڈیم اور بند بنائے جا سکتے ہیں ۔جو جو علاقے نشیب میں واقع ہیں وہاں قدرتی طور پر پانی ذخیرہ کرنے کے لیے تالاب بنائے جا سکتے ہیں ۔ مون سون کاموسم شروع ہونے سے پہلے مٹی ہی سے نئے بند اور بشتے بنائے جانے چاہیں، پہلے سے موجود بندوں اور پشتوں کو مضبوط کیا جائے تاکہ سیلاب کی تباہ کا ریوں کو اگر مکمل طور پر نہ روکا جاسکے تب بھی کم از کم ان میں کمی لائی جا ئے ۔ اس سیلاب کو روکنے کے لیے سیلاب سے مٹاثرہ علاقوں کے مکینوں ہی کی مدد سے دریاؤں کی کھدائی کروا کر ان کی گہرائی میں اضافہ کروایا جا سکتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ہے ۔

چین میں موجود دریائے سینک کیانگ طغیانی اور سیلاب کی وجہ ہرسال ملک میں تباہی پھیلاتا تھا ۔ دریائے سینک کیانگ ، ہمارے ملک میں موجود دریائے سندھ کی طرح چین کا سب سے بڑا دریا ہے ۔ جب وہاں کے عوام اور حکمرانوں کو اس تباہی سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی مالی وسائل کی کمی وہاں بھی ڈیم بنانے کی راہ میں حائل ہوئی تو انھوں نے ان نشیبی علاقوں میں بسنے والے سیلاب زدگان ہی کی مدد سے اس دریا کی کئی کئی فٹ تک کھدائی کروائی اور دریا کو اس حد تک گہرا کیا گیاکہ چاہے پانی کی مقدار میں کتنا ہی اضافہ ہی کیوں نہ ہو جائیسیلابی صوتحال پیدا نہیں ہوئی اور تباہ کاری بھی نہیں ہوتی ۔ اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے دریائے سندھ کی چوڑائی اور گہرائی دونوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے کسیبہت بڑی مالی رقوم بھی ردکار نہیں ۔ سیلاب زدگان کو ہی دریائے سندھ کی گہرائی کا کام سونپا جا سکتا ہے۔ چونکہ سیلاب کی وجہ سے ان علاقوں میں بے روزگاری بھی بڑھ جاتی ہے اس لیے انھی سیلاب زدگان کو مطلوبہ اوازر فراہم کر کے کم داموں یہ کروایا جا سکتا ہے ۔ سیلاب زدگان چونکہ خود بھی اس سیلاب سے بار بار نقصان اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے انھیں یہ کام کرنے میں کوئی آر بھی محسوس نہیں ہو گی ۔ اس تمام کام میں ان امدادی رقوم سے کہیں کم رقم استعمال ہوگی جو کہ سیلاب کے بعد سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ اور سیلاب کی تباہ کاریوں پر خرچ ہونے والی رقوم کسی فلاہی منصوبے یا کسی ترقیاتی منصوبے پر خرچ کی جا سکیں گی ۔ اس طرح دریا کی گہرائی اور چوڑائی میں اضافہ اگلے کئی برس کے لیے سیلاب کو روک سکے گا ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164249 views i write what i feel .. View More