دین ومذہب کی ضرورت اور اسکے انسانی زندگی پر اثرات
(Hafiz Irfan Ullah Warsi, Bahawalpur)
دین اور مذہب کی ضرورت اور اسکے
انسانی زندگی پر اثرات کا تبصرہ کرنے سے پہلے اس کے لغوی واصطلاحی معنی اور
مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے۔
دین کے لغوی واصطلاحی معنی:
دین کے لغوی معنی اطاعت اور جزا کے ہیں اور اس کا اصطلاحی مفہوم ہے اللہ
تعالیٰ کے احکام کی پیروی اور اطاعت۔
مذہب کے لغوی اور اصطلاحی معنی:
مذہب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں راستہ ،طریقہ ، اعتقاداور
اصل ۔ جبکہ اسکے اصطلاحی معنی مراد ہے مذہب ان ہدایات اور احکام کا نام ہے
جو وقتاًفوقتاً اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اپنے
بندوں کے لیے بھیجے ،جن پر گامزن ہو کر انسان اس دنیا اور آخرت کی زندگی
کو سنوار سکتا ہے۔
دین اور مذہب کے ہم معنی الفاظ:
دین اور مذہب کے ہم معنی الفاظ مندرجہ ذیل یہ ہیں:
۱۔ ملت:
قُلْ صَدَقَ اللہُ۟ فَاتَّبِعُوۡا مِلَّۃَ اِبْرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًاؕ وَمَا
کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ﴿۹۵﴾
تم فرماؤ اللّٰہ سچا ہے تو ابراہیم کے دین پر چلو جوہر باطل سے جدا تھے اور
شرک والوںمیں نہ تھے
(سورۃ آلِ عمران:۹۵)
۲۔ سبیل:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ
وَجٰدِلْہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحْسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ
بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس
طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی
راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو
(سورۃ النحل:۱۲۵)
۳۔ طریق /منہاج :
قَالُوۡا یٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعْدِ
مُوۡسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ یَہۡدِیۡۤ اِلَی الْحَقِّ وَ
اِلٰی طَرِیۡقٍ مُّسْتَقِیۡمٍ ﴿۳۰﴾
بولے اے ہماری قوم ہم نے ایک کتاب سنی کہ موسٰی کے بعد اتاری گئی اگلی
کتابوں کی تصدیق فرماتی حق اور سیدھی راہ دکھاتی
(سورۃ الأحقاف:۳۰)
۴۔ شریعت :
لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنۡکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا
ہم نے تم سب کے لئے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا
(سورۃ المآئدہ:۴۸)
۵۔ ہدایت:
قُلْنَا اہۡبِطُوۡا مِنْہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ
ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ
یَحْزَنُوۡنَ﴿۳۸﴾
ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی
ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم
(سورۃ البقرۃ:۳۸)
۶۔ صراط:
وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرٰطٍ مُّسْتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾
اور بیشک تم ضرور سیدھی راہ بتاتے ہو(سورۃ الشورٰی:۵۲)
مذہب اور دین میں فرق:
مذہب کا لغوی معنی راستہ کے ہیں جبکہ دین کے لغوی معنی جزا اوراطاعت کے ہیں
۔ یہ دونوں الفاظ عربی زبان میں ایک ہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن
مجید میں دین ایک جامع نظام زندگی کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ
مذہب کا لفظ عرب زبان میں اصل، راستہ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
عام طور پر مذہب کے لفظ سے فقہاء کے چار مذاہب لیے جاتے ہیں ۔ لیکن جب ہم
فقہی مسلک کے معنوں میں اس لفظ کے استعمال ہونے پر غور کرے ہیں تو ہر فقہ
کا ایک وسیع میدان ہے اور فقہ میں ا نسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر بحث کی
گئی ہے اور یہ پوری زندگی کے مسائل پر محیط ہے، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں
کہ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔
دین اور مذہب کی ضرورت:
بنی نوع انسان کے لئے "مذہب" کی ضرورت مسلم ہے۔ مذہب انسان کا ایک ذاتی
مسئلہ ہی نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ بھی ہے۔ کیونکہ مذہب کے بغیر کوئی معاشرہ
"مثالی معاشرہ" نہیں بن سکتا۔ مذہب کی ضرورت جس قدر فرد کو ذاتی زندگی کے
لئے ہے اس سے زیادہ عام سوسائٹی کو ہے۔ مذہب کی ضرورت واہمیت مندرجہ ذیل
وجوہات کی بناء پر لازم ہے:
۱۔ فطری ضرورت
۲۔ روحانی اقتضاء
۳۔ معاشرتی ضرورت
۴۔ اخلاق سازی
۵۔ سکون قلب کا وسیلہ
۶۔ حیات وکائنات کے وسائل
۷۔ تہذیب سازی
۱۔ فطری ضرورت:
مذہب انسان کا فطری جذبہ ہے،اس کا اعتراف غیرمسلم مفکرین نے بھی کیا ہے۔ یہ
بات انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ کسی بلند ہستی سے رجوع کرے، جو زندگی
کے دکھ سکھ میں اس کے لئے سہارا ہو اور تمام دنیا سے بڑھ کر اس کا ہمدرد
وغمگسار ہو ۔
انسان شروع ہی سے ایک نادیدہ ہستی کو اپنا خلق تسلیم کرکے اس سے مدد کا طلب
گار رہا ہے۔ انسان نے اسی نادیدہ ہستی کو کبھی خدا،کبھی اللہ ،کبھی یزادن
اور کبھی بھگوان کا نام دیا ہے۔ فطرت ہر انسان سے مذہب کا تقاضا کرتی ہے
اور انسان مذہب کے بغیر کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتا۔
خصوصاً غم وآلام میں تواسے مذہب کی اور بھی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ایک انسان جب مشکل حالات سے دوچار ہو کر مایوس ہو کر مذہب کی طرف رجوع کرتا
ہے، خدا کے حضور حاضر ہوتا ہے ، مسجد میں جاکر سجدہ ریز ہوتا ہے یا مندر
میں جا کر بھگوان کی مورتی کے سامنے گڑگڑاتا ہے تو اس کی روح پرسکون ہوجاتی
ہے، اوراس کی پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ہردور میں جاہل سے
لیکر عالم تک گدا سے لیکر بادشاہ تک ،متقی سے لیکر گناہ گار تک سبھی کسی نہ
کیسی صورت میں مذہب کے مرہون منت رہے ہیں۔
۲۔ روحانی اقتضاء:
انسانی زندگی جسم اور روح کا مرکب ہے ۔ ان دونوں روابط کو برقرار رکھنے کے
لئے انسان کو ایک طرف مادی ضرورت اور جسمانی وسائل کی ضرورت ہے تو دوسری
طرف روحانی ارتقاء کے لئے اسے روحانی اقدار کی بھی اشد ضرورت ہے۔ جسمانی
ضروریات کے لیے وہ زمین سے رزق حاصل کرتا ہے اور روحانی ضرویات کے لیے وہ
مذہب یا دین سے مدد حاصل کرتا ہے۔
۳۔ معاشرتی ضرورت :
انسان تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا وہ مل جل کررہنے پر مجبور ہے۔ بالفاظ
دیگر یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان معاشرتی زندگی کا محتاج ہے۔ اور کوئی بھی
معاشرہ اس وقت تک وجود میں نہیں آتا جب تک اس معاشرے کے رہنے والوں کا
مقصد حیات ایک نا ہو۔ اور وہ مقصد حیات دین یا مذہب ہی کی وجہ سے ممکن ہوتا
ہے۔ اور دین یا مذہب ہی کیسی معاشرے کے اصولوں اور قوانین کو مرتب کرتے ہیں
۔
۴۔ اخلاق سازی:
مذہب ایک اخلاق ساز قوت ہے۔ معاشرہ میں وہی اچھا ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔
انسانی اخلاق کا معاشرتی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے ۔ ایک معاشرہ مالی
طور پر خواہ کتنا ہی ترقی پذیر یا ترقی یافتہ کیوں نہ ہو اگر اس معاشرہ کے
افراد بداخلاق ہوں تو اس معاشرہ کو بہترین معاشرہ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
انسان کی باہمی زندگی کا تعلق اخلاق ہی سے ہے اور اخلاق تمام معاملات کی
ابتداء ہے۔
۵۔ سکون قلب کا وسیلہ:
انسان کے لیے مادی وسائل کی فراوانی سکون قلب کا باعث نہیں۔ جدید دور میں
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث انسان بے شمار آسائشوں سے بہرہ ور
ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے سکون قلب میسر نہیں۔ وہ بھرے گھر میں تنہا ہوکر
رہ گیا ہے۔ دنیا کی دولتیں اس کی جھولی میں ہیں لیکن ان دولتوں کے عوض وہ
کسی دکان سے سکون قلب نہیں خرید سکتا۔ اگر کوئی تلاش کرے تو اس دور میں بھی
ایک درگاہ ہے جہاں سے قلبی سکون حاصل ہو سکتا ہے وہ درگاہ مذہب یا دین کی
درگاہ ہے۔
۶۔ حیات وکائنات کے وسائل:
انسان عقل ودماغ کا مالک ہے اور وہ اپنے سامنے نظر آنے والی اور محسوس
ہونے والی چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے ۔ کبھی وہ سوچتا ہے کہ یہ زمین
وآسمان کیسے بنے اور چاند ستارے کیسے وجود میں آئے اور کبھی وہ زندگی کی
حقیقت اور موت کے امکان پر غور کرتا ہے۔ کبھی اس کے سامنے کائنات کا آغاز
کیسے ہوا اور اس کا انجام کیا ہوگا کے بارے میں سوچتا ہے۔ ان تمام سوالات
کی طرف جو چیز ہماری واضح رہنمائی کرتی ہے وہ ہے دین یا مذہب۔
۷۔ تہذیب سازی:
مذہب دنیا کی تمام تر تہذیبوں کا بنیادی عنصر رہا ہے۔ بالفاظ دیگر دنیا کی
ہر تہذیب نے مذہب ہی کے بطن سے جنم لیا ہے ۔ ہر دین حق تہذیبی صداقتوں کا
مجموعہ ہے۔ تہذیب وتمدن کی تمام اقدار مذہب ہی کی بنا پر قائم ہیں۔ اور
مذہب یا دین ہی ان تہذیبوں کو محفوظ رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔
انسانی زندگی پر دین اور مذہب کے اثرات :
اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی فرد یا شخص ایسا
نہیں ہو گا جس کا کیسی نا کیسی دین یا مذہب سے خاص رشتہ ہو گا یعنی وہ شخص
اس کا پیروکار ضرور ہو گا۔ یہ وجہ ہے کہ اگر کیسی بھی فرد کے زندگی کا
مطالعہ کیا جائے تو اس کی زندگی میں مذہب یا دین کی وجہ سے مندرجہ ذیل
اثرات نمایا نظر آئیں گے:
۱۔ توحید کو قائم کرنا:
اگر مذاہب عالم کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ
مذہب یا دین کی اساس توحید باری تعالیٰ ہے ۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام
نے توحید اور خدا شناسی کی تعلیم دی۔ خدا کو ایک ماننے سے اللہ تعالیٰ کی
عظمت اور بزرگی میں اضافہ نہیں ہوتا ۔ اگر تمام دنیا کے لوگ خدا کو تسلیم
کرنا چھوڑدیں تب بھی خدا کی عظمت اور بزرگی میں فرق نہیں آتا۔ اس عقیدہ
میں انسان کے لئے ہی فوائد مضمر ہیں۔جن سے انسانیت کی بقا مضبوط ہوتی ہے۔
۲۔ اتحاد نسل انسانی:
عقیدہ تو حید نسل انسانی کے اتحاد کے کونے کا پتھر ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس
پر اتحاد کی عمارت استوار کی جاسکتی ہے ۔ قرآن مجید میں خدا کو رب
العالمین کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے تحت دنیا کی تمام قومیں
خدا تعالیٰ کی عیال ہیں۔ وہ سب کی خبر گیری کرتا ہے۔ توحید کا عقیدہ یہ سبق
دیتا ہے کہ تمام مبنی نوع انسان کو اتحاد اور محبت کے ساتھ زندگی بسر کرنا
چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہےمذہب یا دین نسلِ انسانی کے اتحادمیں اہم کردار ادا
کرتا ہے۔
۴۔ امن کا قیام :
دین یا مذہب امن عالم کا ضامن ہے کیونکہ دین یا مذہب عالمگیراخوت، اتحاد ،
محبت اور مساوات کو جنم دیتا ہے۔ اور نفرت ، عداوت کو بالکل ختم کرتا ہے۔
جب دشمنی اور تعصب دنیا کی قوموں سے مٹ جائے تو دنیا میں امن قائم کرنا
مشکل نہیں رہتا۔ جس سے انسانی زندگی پر بڑا خاص اثر پڑتا ہے۔
۵۔ علمی ترقی :
مذہب یا دین علوم اور سائنس کی ترقی کا ضامن ہے ۔ اس نے انسان کو یہ سبق
دیا کہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور کائنات کی ہر چیز انسان کی آسائش کے لئے
پیدا کی گئی ہے ۔ اس سبق نے انسان کو کائنات کی ہر چیز مسخر کرنے کی طرف
توجہ دلائی اور انسان کو کائنات کے عناصر کے خواص معلوم کرنے میں لگ گیا۔
جس سے مختلف علوم اور سائنس نے ترقی کی۔
۶۔ انسانی عظمت:
مذہب اور دین کا لازمی جز انسانی عظمت ہے۔ جب ایک انسان اللہ تعالیٰ کو
وحدہ لاشریک تسلیم کرتا ہے تب وہ دنیا کی ہر غلامی سے نجات پاتا ہے اور اس
کو پوری کائنات پر برتری حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ وجہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن
پاک میں ارشاد فرمایا:"وہی ذات ہے، جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے
پیدا کیا"۔
۷۔ اخلاقی ترقی:
انسانی کی اخلاقی ترقی کے لیے مذہب یا دین سے بڑی کوئی چیز نہیں جس سے
انسان اپنے اخلاق کو بہتر کرسکئے۔ یہ وجہ ہے کہ دین اسلام اپنے پیروکاروں
کو مکمل اخلاقی تربیت فراہم کرتا ہے۔
۸۔ مساوات:
مذہب یا دین ہی انسانی زندگی میں مساوات کا درس دیتا ہے ۔ اور پامال شدہ
افراد کو عزت واحترام فراہم کرتا ہے۔ مذہب یا دین کی تعلیمات ہی وہ واحد
ذریعہ ہیں جن سے نسلی،قومی اور لسانی امتیازات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
۹۔ انسانی فلاح وبہبود:
مذہب ہی ایک قوت ہے جو انسان کی روحانی اور مادی فلاح کا ضامن ہے۔ اس نے ہی
وہ اصول مقرر کئے ہیں جن پر چل کر انسان کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوسکتا
ہے۔ اگر مذہبی دنیا کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے
کہ ہر مذہب میں عبادت الہیٰ کا تصور پایا جاتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہر
مذہب کی کتاب میں دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اصول بیان فرمائے گئے
ہیں۔ غرض مذہب انسان کی مادی اور روحانی فلاح کا باعث ہے۔
۱۰۔ رواداری:
مذہب یا دین ہی ہمیں رواداری کا پیغام بنی نوع انسان کے ہر طبقے تک پہنچانے
کا حکم دیتا ہے۔ اور ہر ایک سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر مذہبی کتاب اور ہر
رسول کو تسلیم کیا جائے اور مذہب یا دین کے نام پر خون خرابہ نا کیا جائے ۔
۱۱۔ جزاوسزا کا جذبہ:
جزاوسزا اور حیات بعد الموت کا علم سوائے مذہب کے کہیں سے حاصل نہیں کیا
جاسکتا۔ کیونکہ انسان کی اپنی عقل اس قدر دور کے نتائج کو بھانپ نہیں سکتی
۔ پس خدا تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور نبیوں کے ذریعے جزاوسزا کا قانون لوگوں
کو بتایا ۔
۱۲۔ عقل کی رہنمائی :
انسان کی عقل کوتاہ اور ناقص ہے۔ مذہب نے انسان کو عقل کی رہمائی کے لئے
عائلی،عمرانی،سیاسی، اقتصادی اصول وضع کردیئے تاکہ انسان ان اصولوں کی
روشنی میں زندگی کے ہر قسم کے مسائل کو حل کرسکے۔ اگر انسان کے سامنے وہ
اصول نہ ہوتے تو وہ ہلاکت اور بربادی کے گڑھےمیں گرجاتا۔
|
|