استاذ محترم فضیلۃ الشیخ عزیزالرحمن السلفی اور ذمہ داران جامعہ سلفیہ کا بے دردانہ سلوک
(Abu Sudan Abdul Waheed Salfi, )
بہت شدت کے ساتھ اس بات کا احساس
ہورہا ہے کہ جس شخصیت نے اپنے جوانی اور صحت وعافیت والی انمول چالیس سال
کی طویل مدت جامعہ سلفیہ کیلئے بحیثیت سینئرمدرس و مربی وقف کردی اب عمر کے
اس آخری مرحلے میں اسکے ساتھ ایسا نارواسلوک اور ناقدری انتہائی دلخراش اور
اندوہناک ہے.یہ جامعہ کیذمہ داروں خصوصا ناظم جامعہ کی طرف سے آپ کی شخصیت
کی نہیں بلکہ صلاحیتوں اورعلم و فضل کی ناقدری بلکہ قتل عام ہے .جامعہ
سلفیہ میں میں نے نو سالوں تک تعلیم حاصل کی اسکی عظمت اور محبت ہم سب کے
دلوں میں رچی بسی ہے لیکن موجودہ انتظامیہ اسکے خوش نما چہرے پر بد نما داغ
اور مستقبل کے لئے سوالیہ نشان ثابت ہو رہا ہے .استاذمکرم عزیزالرحمن صاحب
سلفی حفظہ اﷲ سے قبل ماضی قریب میں جماعت اہل حدیث نیز جامعہ سلفیہ کی دو
مایہ ناز شخصیتیں مفکر جماعت دکتور مقتدی حسن ازہری رحمہ اﷲ اور شیخ الحدیث
ومنہج سلف کے ترجمان رئیس احمد ندوی صاحب رحمہ اﷲ انکی ناقدری اور بد
اخلاقی کی شکار ہو چکی ہیں .2004کی بات ہے استاذ محترم ازہری صاحب رحمہ اﷲ
ہم لوگوں کو تفسیر بیضاوی پڑھاتے تھے ایک روز کی بات ہے جب کلاس میں انھوں
نے اپنے دردوکرب اور اپنے ساتھ کئے جانے والے ناروا سلوک کو نا چاہتے ہوئے
کچھ یوں بیان کیا:"کہ ناظم صاحب ہمارے پاس جامعہ کی سندیں لے کر آئے اور
ہماری میز پر رکھتے ہوے بولے کہ اس میں کئی نام ہیں کم کردیا جائے تو میں
نے قلم اٹھایا اور اپنا نام کاٹ دیا کیونکہ ناظم صدر اور شیخ الجامعۃ کا
نام تو ہونا ہی چاہئے وکیل الجامعۃ کی حیثیت سے میرا نام تھا وہی زائد لگ
رہا تھا تو میں نے کاٹ دیا اور وہ سندیں لیکر چلے گئے ایک لفظ نہیں کہا کہ
شیخ آپ اپنا نام کیوں کاٹ دئے کیوں کہ یہی چاہتے تھے "
دیکھا آپ نے ایسا اس لئے کیا تاکہ کسی کے اعتراض کا یہ جواب دیا جا سکے کہ
انھوں نے خود ہی اپنا نام حذف کیا ہے۔ اسکے علاوہ آپ کلاس میں کبھی کبھی
کہا کرتے تھے کہ دیک?و میں نے جامعہ کے لئے کیا کیا نہیں کیا لیکن اب لوگوں
کا میرے ساتھ تعامل ایسا ہے کہ اب جیسے میری کوئی حیثیت اور ضرورت
نہیں۔اسکے علاوہ کلاس میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ۔گلا تو گھونٹ دیا اہل
مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اﷲ جو کہ بہت کچھ واضح کرتا ہے……...اور شیخ
الحدیث ندوی صاحب صاحب رحمہ اﷲ بھ اپنی ناشناسی کا اشارہ کبھی کبھار کرتے
تھے اور جب آپ کا انتقال ہوا تو خوش قسمتی سے میں آپ کے آبائی گاؤں بھٹیا
جنازے میں شرکت کے لئے گیا ج?اں جہاں سے لوگ پہنچ سکتے تھے لوگ پہنچے مؤ سے
تو کئی گاڑی جنازے میں شرکت کے لیے گئی تھیں لیکن جامعہ سلفیہ سے شیخ محمد
مستقیم صاحب اور شیخ نعیم الدین صاحب حفظہمااﷲ کے علاوہ کوئی نہیں پہنچا
انتظامیہ کا کوئی فرد بشمول ناظم عبداﷲ سعود کوئی بھی انکے جنازے میں شامل
ہوا .اسوقت جو خبر ملی تھی وہ یہ کہ شیخ محمد مستقیم صاحب سلفی حفظہ اﷲ
اسوقت اتفاق سے اپنے گھر پر ہی موجود تھے تو جنازے میں شرکت کے لئے آگئے
صرف شیخ نعیم الدین صاحب کو لاش پہنچانے کے لئے غالبا بھیجا گیا تھا اور
بس.جس شخصیت نے مدرس اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے اپنی پوری زندگی جس جامعہ
کے لئے وقف کردی ہو اسی جامعہ کے ذمہ داران اسکیجنازے تک میں شریک نہ ہوں
اس سے بڑی دلیل انکی ناقدری کی اور کیا ہوگی .ایک وضاحت یہ کرنا چاہتا ہوں
کہ محترم شفیق الرحمان صاحب نے یہ کہا شیخ عزیز الرحمان صاحب کے بارے میں
کہ کاش آپ انصاری ہوتے یعنی تب آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا لیکن یہ بات صحیح
نہیں ہے کیونکہ ازہری صاحب اور ندوی صاحب رحمہمااﷲ انصاری ہی تھے بلکہ یہ
کہنا شاید درست ہوگا کہ کاش آپ بنارسی خصوصاً مدنپوری ہوتے اسی علم و فضل
اور شخصیت کی ناشناسی اور ناقدری کے سلسلے کی کڑی گزشتہ سالوں میں یکے بعد
دیگرے استاذ محترم حجازی صاحب اور استاذ محترم عبدالسلام صاحب مدنی حفظھمااﷲ
کا جامعہ سلفیہ سے چلا جانا بھی ۔اگر کسی کے طبع نازک پر میری باتیں ناگوار
گزری ہوں تو معذرت خواہ ہوں لیکن حقیقت ہے.والحق جامعہ کی عظمت اوراسکا
احترام دل کی دھڑکنوں میں ہیلیکن موجودہ انتظامیہ کا علماء افاضل اورکہں
مشق اساتذہ کا اس طرح استحصال اور انکی ناقدری ہم سب کے لئے افسوس ناک اور
جامعہ کے روشن چہرے پر بد نما داغ میری اس ٹوٹی پھوٹی تحریر کا مقصد تنقید
برائے تنقید نہیں بلکہ اصلاح ہے اس جانب انتظامیہ کو غور کرنا چاہیے کیونکہ
جامعہ سلفیہ قوم کی امانت ہے اسکی مرکزیت کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ
داری اﷲ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے اور جامعہ سلفیہ کوہرفتنے اور
ناگہانی سے محفوظ رکھے نیز اسکے ظاہری و باطنی ترقی کے لئے راستے ہموار کرے
اور شیخ عزیزالرحمٰن صاحب سلفی کو صبر جمیل عطا کرے اور ہمیں جامعہ کے ذمہ
داروں سے بات کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین |
|