ظہور اسلام سے قبل صرف اہل عرب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل
دنیا تہذیبی ،اخلاقی اورمعاشرتی برائیوں کا شکار تھی ۔اسکی بڑی وجہ یہ تھی
کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کے مرتکب ہوچکے
تھے اور شریعت کے وضع کردہ اصول و قوانین کی جگہ ایسے خود ساختہ نظریات و
عقائد کو اپنا لیا جو انکے مزاج اور طیبعت کے لئے موزوں تھے ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ ظاہراََ اصل دین اور حقیقی قانون الہی کی صورت
مسخ ہوکر رہ گئی ۔عوام الناس اپنے علماء کی اندھی تقلید میں جاہلانہ رسومات
کے دام فریب میں الجھتے چلے گئے ۔دین اسلام سے پہلے خطہ عرب کے حالات پر
نظر ڈالیں تو مندرجہ ذیل برائیاں عام نظر آئیں گئیں:
علماء یہود و نصاریٰ کے کارنامے:
دین کو علماء یہود و نصاریٰ نے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیا
اور ہر شخص میں مادیت کو پروان ملتا چلا گیا ۔جس وقت رسول اکرم کی ولادت
باسعادت ہوئی اس وقت یہ جاہلانہ رسومات ،خودساختہ مذہبی و سماجی بندشیں اور
تہذیبی و اخلاقی تنزلی اپنے عروج پر تھی ۔ہر طرف فتنہ و فساد کا تنور دہک
رہا تھا ۔
سماج میں تخریب کاری اور اوھام پرستی کا رواج تھا۔دنیا شرک و تثلیث کے
اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ آبادی کے تناسب سے خدا وجود میں آرہے تھے ۔ہر
قبیلہ اپنے بنائے ہوئے خدا پر ناز کیا کرتا تھا۔ عوام اس قدر فکری اور
اخلاقی تخریب کاری کا شکار تھے کہ عضو تناسل کو پوجنے میں بھی شرم محسوس
نہیں کرتے تھے ۔
عرب کے صحراؤں میں انسان نما جانور رہتے تھے جوبات کا بتنگڑ بنانے میں دیر
نہیں کرتے تھے بلکہ فساد و خوں ریزی انکی عادات کا حصہ بن چکی تھی۔ عرب کو
’’جلی ہوئی زمین ‘‘ کے نام سے یا د کیا جاتا تا تھا ۔
جہالت کی حکمرانی:
عرب کے لوگ اس حد تک جہالت میں مبتلا ہو چکے تھے کہ انہیں اپنے خونی رشتوں
کی کوئی پاس داری کا خیال نہیں ہوتا تھا۔ گویا کہ ان لوگوں کے دلوں میں
تھوڑا سا خوفِ خدا اور انسانیت نامی چیز نہیں ہوتی تھی۔
معاشرتی تباہی کا عام ہونا:
عرب معاشرے میں اسلام سے قبل ہر طرف معاشرتی برائیاں عام تھیں ۔ کہیں جوا،
شراب نوشی، جھوٹ، زنااور رقص کی محافل وغیرہ عام تھیں ۔ اور لوگ یہ برائیاں
کرکے فخر محسوس کرتے تھے۔ انہیں تھوڑی سی بھی نادامت نہیں ہوتی تھی ۔
سرکشی وبغاوت:
یہ لوگ محنت سے سرکشی اختیار کرتے تھے اور غلاموں پر ان کی حیثیت سے زیادہ
بوجھ ڈالتے تھے۔ اور اگر کوئی فرد ان لوگوں کا ساتھ نا دیتا تو یہ لوگ اس
کے خلاف ہر سطح پر بغاوت کرتے اور وہ مجبور ہو جاتا ان لوگوں کی بات مانے
پر ۔
خانہ کعبہ بتوں سے آباد:
عرب میں بت پرستی کابانی عمرو بن لحیی تھا عمر و سے پہلے جرہم کعبہ کے
متولی تھے عمرو نے بنی جرہم کےساتھ جنگ کی اور انہیں مکہ سے جلا وطن کر دیا
خود حرم کا متولی بن بیٹھا،ایک دفعہ کسی سنگین مرض میں مبتلا ہوا تو کسی نے
اسے بتایا کہ ملک شام بلقاء کے مقام پر ایک گرم پانی کا چشمہ ہے اگر تم
وہاں جا کر اس پانی سے غسل کرو تو شفا یاب ہو جاؤ گے یہ بلقاء پہنچا اس
چشمے کے پانی سے غسل کیا تو صحت یاب ہو گیا وہاں کے باشندوں کو اس نے دیکھا
کہ وہ بتوں کے پرستش کرتے ہیں۔
اس نے کہا مجھے بھی ان بتوں میں سے چند بت دو، انہوں نے حسب خواہش اسے چند
بت دے دئیے ، وہ انہیں لے کر مکہ آیا اور خانہ کعبہ کے ارد گرد انہیں نصب
کر دیا، کعبہ چونکہ عرب کا مرکز تھا اس لیے تمام قبائل میں بت پرستی کا
رواج ہو گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور دین اسلام نے جب کعبہ
کو بتوں سے پاک کروایا تو ان بتوں کی تعداد ۳۶۰ تک ہوچکی تھی۔
دین ابراہیمی کا چہرہ مسخ:
یہ لوگ اپنے آپ کو دین ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے مگر دین ابراہیمی کی
تعلیمات سے ان کا دور ،دور تک کوئی رشتہ نہیں تھا۔ یہ نہیں بلکہ جن چیزوں
کی دین ابراہیمی میں ممانیت تھیں ان چیزوں کو یہ لوگ اختیار کئے ہوئے تھے۔
ان لوگوں نے دینِ ابراہیمی کو موڑتوڑ کر اپنی خواہشات کے مطابق بنا لیا
تھا۔
شرک کی سیاہ چادر:
یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے اس کے علاوہ ان کے سامنے سجدہ ریزِ ہوتے ۔ ان
سے دعائیں کرتے ،ان کے سامنے قربانیاں کرتے تھے۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ
عزوجل کا نعوذباللہ شریک مانے تھے ۔ اس کے علاوہ ان لوگوں میں سے اکثر آگ،
پانی، ہوا ،سورج ،چانداور ستاروں وغیرہ کی عبادت بھی کرتے تھے۔
منافقت پر مبنی انفرادی طرز عمل:
ان لوگوں کے اندر منافقت پر مبنی انفرادی طرز عمل کو بڑا اچھا تصور کیا
جاتا تھا اور ایسے شخص کو اس معاشرے میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا
تھا۔
قدم قدم پر انا کی دیواریں:
یہ لوگ اناپرستی کی ایسی دلدل میں گرفتار ہو چکے تھے کہ اپنے آپ کو معاشرے
کے غریب لوگوں کے مقابلے میں افضل اور معزز تصور کرتے تھے۔ گویا کہ ان
لوگوں کے دلوں میں "میں "کا جذبہ کوٹ،کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
غرور و تکبر کا عروج:
ان لوگوں کے اندر غروروتکبر اس حد تک تھا کہ اگر راستے میں چلتے ہوئے کوئی
شخص ان کے آگے چلنا شروع کردیتا تو وہ اس کو اپنی توہین تصور کرتے اور اس
کو سخت سے سخت سزادیتے ۔ اور اگروہ شخص آگے سے بول پڑتا تو اس کو قتل
کردیتے۔ گویا کہ ان لوگوں کے دلوں میں انسانیت نامی کوئی چیز نہیں تھی۔
دختر حواء کی عزت کی پامالی:
یہ لوگ عورتوں کو پاؤں کی جوتی تصور کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی عزت
پامال کرنے میں بھی کیسی سے کم ناتھے۔ اور اگر ان کے ہاں لڑکی پیدا ہوجاتی
تو یہ اس کو برا تصور کرتے۔ اور اس کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ وہ عورت کے
مقدس وجود کو اپنے لئے باعث عبرت سمجھتے تھے اور اسکے بدن کو فقط ایک آ لہ
تلذذ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔یہاں تک کہ اسے آزادی رائے کا بھی حق
حاصل نہیں تھا ۔
بیٹیوں کوزند ہ در گور کرنا انکی قبائلی تہذیب کا حصہ تھا ۔محققین کے مطابق
لڑکیوں کا زندہ در گور کردینے کی رسم اس لئے عام تھی کیونکہ عرب کا سرمایہ
دار طبقہ فقر و تنگ دستی سے ہمیشہ خوف زد ہ رہتا تھا ۔اس لئے کہ لڑکی کو
شادی کے بعد وراثت کے طور پر جائداد میں حصہ ملنا چاہئے تھا اس طرح انکی
محنت و مشقت سے کمائی ہوئی دولت کے ذخیرہ میں کمی واقع ہوتی اور جسکے یہاں
لڑکی بیاہ کر جاتی وہ انکی دولت کی بنیاد پر زیاد ہ مالدار اور معاشی لحاظ
سے مضبوط ہوجاتا لہذا انہوں نے داماد کو زندہ قبر کے نام سے تعبیر کیا اور
لڑکیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دینے کو ترجیح دی بجائے اس کے کہ انکا حق اپنے
مال سے ادا کیا جاتا ۔یہی وجہ ہیکہ انہوں نے خود ساختہ قانون کے مطابق
میراث میں بھی عورت کا کوئی حصہ متعین نہیں کیا ۔ستم بالائے ستم یہ کہ شوہر
کا قرض بیوی سے وصول کرتے تھے اور نادار و غریب زوجہ کے قرض ادانہ کرنے کی
صور ت میں اسکے شوہر کو غلام یا اسیر بنا لیا جاتاتھا ۔
عدل و انصاف کا فقدان:
اس معاشرے میں عدل وانصاف کا فقدان عروج پرتھا۔ امیروں کے لیے کوئی قانون
اور کوئی سزا نہیں تھی ۔اس کے برعکس غریبوں کے لیے یہ لوگ قانون بھی خود
بناتے اور انہیں سزابھی خود تجویر کرتے ۔ اور اگر ان کی منشاء کے مطابق
کوئی کام ناہوتا تو اس قبیلے کو یہ لوگ برباد کردتے تھے۔
سودکابازار عام تھا:
تجارت کے لئے اگر کسی سرمایہ دار سے قرض لیتے تو تجارت میں منافع کی کثیر
رقم سود کی شکل میں سرمایہ دار کی تجوری میں چلی جاتی اور غرباء خط افلاس
سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔
|