ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
(Ata Ur Rehman Noori, India)
۲؍اگست فرینڈ شپ کے موقع پر ایک
تحریر
مطلبی،خود غرض،مکار،فریب کار،جعل ساز، مفاد پرست اورفتنہ پروردوستی کی منہ
بولتی تصویریں
انسانی زندگی پر دوست کے اچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جہاں صالح دوست
کی بناء پر زندگی اسلامی سانچے میں ڈھلتی ہے وہیں برے دوستی کی وجہ سے
انسان اسلامی تعلیمات سے روگردانی اختیا رکرتا ہے ۔اسی لئے مذہب اسلام نے
روزاول ہی سے دوستی کا صحیح تصور ہمیں عطا فرمایا ۔اﷲ رب العزت ارشاد
فرماتا ہے:’’اورسچوں کے ساتھ ہو‘‘(پ۱۱،سورۂ توبہ ، آیت ۱۱۹،کنز
الایمان)گویا کہ اسلام نے ہمیں دوستی کا جو ضابطہ واصول فراہم کیا ہے وہ
صداقت پر مبنی ہے ۔سرور کائنات ﷺسے دریافت کیا گیا کہ بہترین ساتھی کون ہے
؟حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص بہترین دوست ہے کہ اگر تو نیک کا م
سے غفلت کرے تو وہ تجھے تنبیہ کرے اور تیرے نیک کا موں میں تیری اعانت کر ے
اور بُرادوست وہ ہے کہ اگر تو نیک کا موں سے غفلت کرے تو وہ تجھے متنبہ نہ
کرے اور نیک کاموں میں تیری مدد نہ کرے ۔قارئین کرام !آدمی وہی راستہ اختیا
ر کرتا ہے جو اس کے دوست کا ہو تا ہے ۔اسلئے ہمیں صالح دوست کی سنگت اختیا
ر کرنی چاہئے کیونکہ صحبت بد کی وجہ سے آخرت میں حسرت وافسوس کے سوا کچھ
حاصل نہ ہوگا ۔اور بد کردار دوست کے متعلق یہ کہیں گے ۔’’وائے خرابی میری
ہائے کسی طرح میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہو تا ‘‘ (پ ۱۹ ،سورۂ الفرقان ،آیت
۲۷ )
حدیث مبارکہ میں اچھے دوست کی علا متیں بھی بتا دی گئیں ہیں،چنانچہ حدیث
پاک کا مفہوم ہے کہ اچھا ہم نشیں وہ ہے جسے دیکھنے سے خدا یا د آئے اور اس
کی گفتگو سے عمل میں زیا دتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے ۔نیک
اور صالح دوست کی دوستی دنیا میں بھی سود مند ہو تی ہے ۔قبر میں بھی نیکو
کا ر کی صحبت عذاب میں تخفیف اور درجا ت کی بلندی کا باعث ہو تی ہے۔غرض کہ
نیک صالح دوست کی رفاقت جنت کی راہ ہموار کرتی ہے ۔مصطفی جا ن رحمت ﷺنے
ارشاد فرمایا کہ صالح آدمی کے پا س بیٹھنے والوں کی مثال اس شخص کی مانند
ہے جو مشک والے کے پا س بیٹھا ہے اگر مشک نہ بھی ملے تب بھی مشک کی خوشبو
سے مشام جاں معطر اور دماغ کو فرحت وسرور حاصل ہوگا اور برے دوست کی مثال
آگ کی بھٹی جیسی ہے کہ اگر چنگا ری نہ بھی پڑے تو دھنویں سے دامن ضرور سیا
ہ ہو جا ئے گا ۔فرمان رسول اکرم ﷺہے کہ ’’برے ہم نشین کے مقابلے میں تنہا
ئی بہتر ہے اور اچھے آدمیوں کی ہم نشینی تنہا ئی سے بہتر ہے ۔‘‘ (بیہقی
شریف )دوستی کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ ایک دوست اپنے دوست کا مشیر اور
رازدار ہو۔حضرت جنید بغدادی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں’’ایسے شخص سے دوستی
کروجو نیکی کر کے بھول جائے اور جو حق اس پر ہو وہ ادا کرے ۔شیخ سعدی علیہ
الرحمہ کا قول ہے ’’مجھے ایسے دوست کی دوستی پسند نہیں جو میری بری عادتوں
کو اچھا کہے، میرے عیب کو ہنر جا نے اورمیرے کا نٹوں کو گلاب ویا سمین کا
نا م دے ۔‘‘
اگلے زمانے میں دنیا بھر کی چیزیں تو سستی تھیں مگر دوستی کی قیمت اس قدر
زیادہ تھی کہ مال تو مال بعض وقت جان تک دینے کی نوبت آجاتی۔ اسی لیے پہلے
زمانے میں برسوں کی تلاش وجستجو کے بعد کسی خوش قسمت کو ایک دوست مل جاتا
تو وہ فخر محسوس کرتا کہ اس بھری دنیا میں میرا ایک دوست بھی ہے۔مگر آج
گلوبلائزیشن کے اس دور میں سوشل میڈیاکی چمک دمک اور انسانوں کے بڑھتے ہوئے
مفاد نے دوستوں کی اتنی کثرت کردی ہے کہ ایک ایس ایم ایس ،بیڑی،
سگریٹ،پان،تمباکو، گٹکے اورچائے کی ایک پیالی پر دوستی ہوجاتی ہے۔بھلا آپ
ہی سوچئے جس دور میں اتنے سستے میں راہ چلتے دوست بن رہے ہوان سے دوستی کے
حقوق کی ادائیگی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟اکثر ناتجربہ کار لوگ بڑے آدمی
کے دوست ہو جانے کے وہم میں مبتلا ہوکر بہت سی امیدیں ان سے وابستہ کرلیتے
ہیں جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ آج کل کے بڑے لوگوں میں خلوص ومحبت
تو ہے نہیں،لے دے کے ان کے پاس صرف ظاہری ،نمائشی اور بناؤٹی اخلاق ہے،جسے
ابتدامیں تو ضرورتاً اور پھر عادتاًبرتنے پروہ مجبور ہیں۔ہم نے ایسے بھی
فریب کاراور جعل سازدوست دیکھے ہیں جوچوک چوراہوں اور ہوٹلوں پر اپنے دوست
کی دوستی پر بڑی بڑی فخریہ بات کرتے ہیں،بے جاخواہشات اور بری عادتوں کی
تکمیل پر بے تحاشہ خرچ کرتے ہیں مگرجب دوست پر مصیبت آتی ہے،یاکاروباری
نقصان ہوتا ہے یا اسے کسی کے علاج کے لیے پیسے درکار ہوتے ہیں تو خلوص
ومحبت کی باتیں کرنے والے اور دوستانہ تعلقات کی قسمیں کھانے والے عارضی
ضرورت پر دوستانہ مراسم کو نظر کردیتے ہیں اور صاف کہہ دیتے ہیں کہ ’’دوستی
اپنی جگہ پیسوں کا لین دین اپنی جگہ‘‘۔ایسے خودغرض دوستوں کے حوالے سے امام
غزالی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ’’جو دوست مشکل وقت میں کا م نہ آئے اس
سے بچو کیونکہ وہ تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے ۔‘‘دنیا میں ایسے فتنہ پرور
دوستوں کی بھی کبھی نہیں کہ ان کے شر اور فساد سے بچنے کے لیے لوگ ان سے
دوستی بنائے رکھتے ہیں۔گویا کہ ایسے لوگوں کی دوستی گلے میں ہڈی بن کر ایسے
پھنس جاتی ہے کہ نہ نگلتے ہی بنتی ہے اور نہ ہی اگلتے۔دنیا میں ایسے بھی
مطلبی اور مفاد پرست دوست موجود ہے جو محض اپنے کام کے لیے دوستی کا بہانا
کرتے ہے،جس دن کام نکل گیا اس دن دوستی کا رشتہ بھی ختم ۔بعض ایسے بھی
مکّاردوست ہوتے ہیں جو زبانی دعوؤں کے ماہراور لفظوں کے جادوگر ہوتے ہیں،جن
کی دوستی صرف زبانی ہوتی ہے ،جس وقت ان کی ضرورت ہوگی ایسے غائب ہوجائینگے
جیسے پانی میں نمک۔
قارئین کرام !مقصد تحریریہ ہے کہ ہمیں اپنی دوستی کا جائزہ لینا ہوگا ۔ کیا
واقعی ہماری دوستی ان اصول وضوابط کا احاطہ کئے ہو ئے ہے جو اسلام نے ہمیں
عطا کئے ؟کیا واقعی ہمارے احباب ہمیں نیکیوں کی ترغیب دیتے ہیں ؟کیا واقعی
ہمارے ہم نشین ہمیں گنا ہوں پر متنبہ کرتے ہیں ؟ لہٰذا اپنے گرد وپیش کا
جائز ہ لیجئے اور ان کی دوستی اختیا ر کیجئے جو سچے ،ایمان دار ،صالح ہوں
اگر ہمارے دوستوں میں مذکورہ بالا اوصاف حمیدہ نہیں موجود ہیں تب ایسے
دوستوں سے کنارہ کشی اختیا ر کرنا ہی ہمارے حق میں بہتر ومفید ہوگا مگر
ساتھ ہی بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ بھی فریضہ ہے کہ ہم اسے نیکی کی دعوت دیں
تا کہ وہ را ہِ راست پر آجا ئیں ۔اﷲ پاک ہمیں صالح ،نیک ،سچااور مخلص دوست
عطا فرمائے ۔اور ہم میں نیک اوصاف کو پیدا فرما ئے ۔آمین ۔ |
|