ہر کوئی کہتا ہے میں ہوئی دوسرا کوئی نہیں
اس صدی کا اس سے بڑھ کر حادثہ کوئی نہیں
بولی ووڈ کے شہنشاہ شاہ رُخ خان نے اپنے ایک فلم میں ایک ڈائیلاگ ادا کیا
تھاجو کچھ اس طرح تھا کہ ’’ بڑے بڑے شہروں میں ایسے چھوٹے چھوٹے حادثات
ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ پچیس سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا اس جملے کو ادا کیئے
ہوئے مگر آج بھی یہ مکالمہ لوگوں کی زبان پر ہے بلکہ دنیا بھر میں اس
مکالمہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں
ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہوا کہ امریکہ کے صدر جناب بارک حسین اوباما نے
جب بھارت کا دورہ کیا تھا تب انہوں نے بھی کسی بات پر شاہ رُخ خان کی اس
فلم کا ڈائیلاگ کہہ کر یہ ثابت کر دیا کہ دنیا بھر میں اس مکالمہ نے کتنی
مقبولیت حاصل کی ہے۔
خیر! ہم تو لکھنے بیٹھے تھے اپنے ملک میں ’’حادثات‘‘ پر۔ حادثات کو دیکھتے
ہوئے اب یہ مکالمہ ایک سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے، بلکہ یہ کہا جائے
تو شاید غلط نہ ہوگا کہ پاکستان بھی اب حادثوں کا ملک بن چکا ہے۔ ہر روز
پورے ملک میں ہزاروں لوگ گاڑیوں کے حادثات سے دوچار ہوتے ہیں، اس میں کتنی
ہی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ قدرتی حادثات ہوں اور زمینی: ہر سطح پر
روزانہ کی بنیاد پر حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ کہیں سیلابی حادثات ہیں تو
کہیں لینڈ سلائیڈنگ ، کہیں موٹر بائیک کے حادثات ہیں تو کہیں ٹرینوں کے
حادثات، کہیں بسوں ، کوچوں کے حادثات ہیں تو کہیں ہوائی جہاز کے، غرض کہ ہر
حادثات میں لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ ایسے حادثات کو لے کر ہر عام آدمی بھی
فکر مند لگتا ہے ۔ بڑھتی ہوئی بے ہنگم ٹرافک نے ہر شہری کو اپنی بقاء کی
فکر لاحق کر دی ہے ۔ ان حالات میں دُکھ کا اظہار اور افسوس کا اظہار کرنا ،
لواحقین کو معاوضہ دے دینا، اربابِ اختیار کے مَن میں عوام کے لئے کتنی
ہمدردی ہے اور کتنی جلدی وہ اپنے مَن کی بات عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں
اور اپنے دکھ بانٹ کر اپنا مَن ہلکا کر لیتے ہیں۔ ایسے مَن کی باتیں سُن کر
اکثر لوگ اپنا سینہ چوؤن انچ کا کر لیتے ہیں کہ اس بار ہم نے ہمدرد ارباب
پایا ہے۔ پھر ذہن کے کسی کونے سے ایک آواز آتی ہے کہ ارباب تو بہت ساری مَن
کی باتیں مَن ہی میں رکھ کر دیگر مسائل میں ہمیں الجھادیتے ہیں۔ اور بس پھر
کیا ہے۔ دو چار دن گزرے کہ خبر پرانی ہوگئی ، آج کل مخدوش عمارتوں کے
حادثات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ بھائی! ان مخدوش عمارتوں کو تو فی الفور خالی
کروا لینا چاہیئے مگر اس کے بدلے میں اُن لوگوں کی حکومت کو داد رسی بھی
ساتھ ہی ساتھ کرنی چاہیئے تاکہ انہیں متبادل گھر میسر آ سکے اور وہ لوگ جن
کے گھر مخدوش عمارتوں کی صورت میں موجود ہیں وہ اِن مخدوش عمارتوں کو خالی
کرنے میں تذ بذب کا شکار نہ ہوں۔
کراچی میں ’’گرمی ‘‘سے بارہ سو کے قریب جانیں چلی گئیں ، ڈینگی بھی حادثوں
کی صورت میں ہم پر مسلط رہا، آج کل ’’ نگلیریا وائرس‘‘ بھی حادثاتی طور پر
عوام پر سوار ہے،اور بارہ افراد اب تک اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسلام
آباد میں ایئر بلیو کا طیارہ بھی کئی سو مسافروں کو لے کر زمین بوس ہوچکا
ہے ، پشاور کے اسکول میں بچوں کی ہلاکتیں بھی کسی انمٹ سیاہی کی طرح ہمارے
دلوں میں تازہ ہے، پھر حال ہی میں گوجرانوالہ میں ٹرین کا حادثہ ہوا کئی
جانیں چلی گئیں، بارشوں نے الگ تباہی مچائی ہوئی ہے ، کتنے ہی لوگ اپنی جان
سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ہزاروں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، کھڑی فصلیں تباہ و
برباد ہو چکی ہیں، یہ سب حادثات ایسے ہیں جنہیں بھلا کر بھی نہیں بھلایا جا
سکتا ۔بس اتنا ہے کہ بات پرانی ہوتی جاتی ہے اور یوں بات ’’ آئی گئی‘‘
ہوجاتی ہے۔اسی طرح روز حادثاتی خبریں سننے کو ملتی ہیں پھر وقت کے ساتھ
ساتھ پرانی ہوتی جاتی ہیں، یعنی کہ اس پر مٹی ’’ پا ‘‘ دی جاتی ہے۔ ان
حادثات میں جن کے اپنے جان سے گئے اُن کا دُکھ توحقیقت میں ان سے ہی پوچھا
جائے کہ اُن کے روز و شب کس طرح گزر رہے ہیں۔ اگر کسی کے گھر کا واحد کفیل
گزر گیا ہو تو اُن کی گزر بسر کس طرح ہو رہی ہے، کوئی اُن کا مددگار ہے یا
نہیں اور کیا انہیں ’’ صبر‘‘میسر آگیا کہ نہیں!ارباب کے اس رویہ پر ہمیں
پھر سے شاہ رُخ خان کی فلم کا یہ ڈائیلاگ یاد آتا ہے کہ ’’ بڑے بڑے شہروں
میں چھوٹے چھوٹے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
ویسے بھی ہمارے سارے اربابِ اختیار مَن کی بات کو مَن میں رکھنے کے ماہر ہو
گئے ہیں۔ بڑے بڑے مسئلوں پرخاموشی اختیار کرنے کی مہارت انہیں لگتا ہے کہ
وراثت میں ملی ہے۔ یا پھر یہ سب کچھ مسند کی ہی خصوصیت ہے کہ اس پر بُرا
جمان ہونے والوں کو یہ خاموش کر ا دیتی ہے۔ عوام بھی ان سارے مسئلوں کو لے
کر اپنے مَن میں سوال اُٹھاتے ہونگے مگر پھر ان کے سوال دال روٹی کے چکر
میں مَن ہی میں دَب جاتا ہوگا، تو پھر سوچیئے کہ ہمارے ارباب بھی مَن پر
کتنا بوجھ ڈالیں گے اور کتنی باتیں اپنے مَن میں رکھیں گے؟ |