میرے ایک دوست کو کسی سرکاری دفتر میں کچھ کام تھا۔ دفتر
والے پیسے مانگتے تھے اور وہ پیسے دینا نہیں چاہتا تھا۔ محلے میں دوستوں سے
اس نے ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ایک انتہائی نیک اور خدا ترس
شخص ان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ اسی محکمے میں کام کرتے ہیں۔ بڑے افسر ہیں
اور ساتھ والے محلے میں رہائش پذیر ہیں۔ ان سے ملو۔ امید ہے تمہارا کام ہو
جائے گا۔ اگلے دن میرے دوست نے دفتر سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا کام
جس شعبے میں ہے وہ صاحب اس شعبے ہی کے انچارج ہیں۔ وہ خوشی خوشی ان کے د
فتر میں گھس گیا اور محلے دار کے طور پر اپنا تعارف کرایا۔ وہ افسر بہت خوش
اخلاق اور خوش خلق نظر آئے۔ محلہ داری کی سن کر انہیں بٹھایا۔ فوراً چائے
منگوا لی اور تھوڑی دیر محلہ اور اہل محلہ کی باتیں کرتے رہے۔ پھر میرے
دوست سے آنے کی وجہ پوچھی۔ میرے دوست نے انہیں بتایا کہ میرا فلاں کام آپ
کے عملے کے پاس ہے۔ آپ کے دفتر والے اسے کرنے کے تیس (30) ہزار روپے مانگتے
ہیں۔ کہتے ہیں دس (10) ہزار ہمارے اور بقیہ بیس (20) ہزار صاحب یعنی آپ کے۔
آپ کچھ مدد کریں۔ افسر محترم نے مسکرا کر کہا کیا کریں لوگ سمجھتے ہی نہیں
کہ لوگ تو ایسے کاموں کا لاکھوں مانگتے ہیں۔ میں پیسے کے لین دین میں نہیں
آتا اور نہ ہی کوئی مجھ سے اس بارے بات کرتا ہے۔ ایسی باتیں دفتر والوں کا
کام ہے۔ بہتر ہے آپ انہی سے بات کریں۔ لیکن مجھے پتہ ہے میرے دستخط کرنے کے
بعد آپ کو چھ، سات لاکھ کا فائدہ ہونا ہے۔ آج کل تو لوگوں کو خدا کا خوف ہی
نہیں۔ فائدے کی آدھی رقم مانگ لیتے ہیں۔ میرے دفتر کے لوگ تو بہت اچھے ہیں
یہ بچے جائز مانگتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں اور محنت کا صلہ لیتے ہیں۔ یہ بچے
حلال لیتے ہیں۔ مجھے اتنا پتہ ہے کہ یہ کسی سے زیادتی نہیں کرتے۔ ہمیشہ سچ
بولتے ہیں۔ لگتا ہے آپ کو سرکاری دفتروں سے کبھی پالا نہیں پڑا۔ اس لئے آپ
کو اندازہ ہی نہیں اس لئے شکایت کرنے آگئے۔ بہتر ہے آپ ایسے معاملات انہی
سے طے کریں۔ میرے لائق کوئی اور خدمت ہو تو بتائیں۔ ویسے میں صرف کل کا دن
یہاں ہوں پرسوں سے چھٹی پر ہوں۔ پندرہ دن کے لئے عمرے پر جا رہا ہوں۔ میری
غیر موجودگی میں جو کوئی بھی میری جگہ کام کر رہا ہوگا اس سے کام کروا لیں۔
پھر بڑے فخر سے بتانے لگے کہ وہ ان دنوں ہر سال عمرے پر جاتے ہیں۔ اس لئے
کہ ان کے خیال میں سارا سال دنیا داری کے بعدچند دن اﷲ کے لئے بھی خرچ کرنے
ضروری ہوتے ہیں۔
میرا دوست ان کے کمرے سے باہر نکلا۔ دفتر میں کچھ دوسرے اہلکار اس کے واقف
اوربہی خواہ تھے۔ انہیں ساری صورتحال بتائی۔ سب کا مشورہ تھا کہ تیس (30)
ہزار معمولی بات ہے دے دو۔ وہ عمرے پر چلا گیا تو جو بھی اس کی جگہ کام کرے
گا اس کا ریٹ تو چار گُنا سے کم نہیں ہوگا۔ اس رزق حلال کھانے والے نیک اور
خدا ترس آدمی سے فوری فائدہ اٹھاؤ۔
اس بات کو کئی برس گزر چکے۔ میرے دوست کی زبانی سارے محلے کو اس واقعے کا
علم ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کی بد دیانتی کے بارے بہت سی داستانیں
لوگوں کو معلوم ہیں۔ وہ افسر اَب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ لمبی سی ڈاڑھی اور
ہاتھ میں تسبیح لئے وہ پانچوں وقت نماز کے لئے آتے اور جاتے نظر آتے ہیں۔
کئی عمرے اور حج کر چکے ہیں۔ ان کی کرپشن کے حوالے سے بہت سے قصے جو لوگوں
میں عام سنائی دیتے ہیں اپنی جگہ مگر اس کے باوجود ان کی پارسائی، نیک نامی
اور خدا ترسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ زکوٰۃ، خیرات او راﷲ کی راہ میں خوب
خرچ کرتے ہیں۔ محلے کے غریب غرباء تو ان کے گن گاتے ہیں۔ وہ مسجد کمیٹی کے
اہم رُکن ہیں۔ زکوٰۃ کمیٹی کے چئیرمین ہیں۔ ان کی کرپشن کی داستانیں بھی
شاید مزے لینے کے لئے لوگ ایک دوسرے سناتے رہتے ہیں۔ مگر جب وہ سامنے آتے
ہیں تو ووٹ ان کا،سپورٹ ان کی، ہر قربانی ان کے کہنے پر کیونکہ ان کے خدا
ترس، درویش صفت، پرہیزگار اور متقی نظر آنے میں توکوئی شک نہیں۔ ان کے گھر
ہر ماہ ختم قران میں پورے محلے کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ان کی حلال کرپشن کے
پیسے نے پورے معاشرے کا منہ بند کر دیا ہے۔ یا پھر کم از کم بے حِس تو کر
ہی دیا ہے۔ اب وہ ایک مذہبی جماعت کے رکن بھی ہیں اور وہ رکنیت اس بات کا
سرٹیفکیٹ ہے کہ وہ واقعی حلال پر ایمان رکھتے اور حلال ہی کھاتے ہیں۔ ان کی
جیب میں پیسے جہاں سے بھی اور جیسے بھی پہنچیں حلال ہوتے ہیں یا ہو جاتے
ہیں۔
ایک پرانی حکایت یاد آئی۔ ایک قافلہ حج کو جا رہا تھا۔ راستے میں ایک مسافر
چل بسا۔ قافلے والوں نے اردگرد کہیں سے ایک پھاڑوا ادھار لیا اور اس مسافر
کو زمین کھود کر دفنا دیا۔ قبر پر مٹی ڈال کر جب وہ چلے گئے تو اچانک یاد
آیا کہ پھوڑوا جو واپس کرنا تھا قبر کے اندر ہی رہ گیا ہے۔ واپس آکر انہوں
نے دوبارہ قبر کو کھودا تو اندر عجیب منظر تھا۔ پھاڑوا اس کے جسم میں گھسا
تھا اور اس کے ساتھ اس کے ہاتھ اور پاؤں بری طرح جکڑے ہوئے تھے۔ لوگوں نے
ڈر کر فوراً قبر بند کر دی اور جس سے پھاوڑا لیا تھا اسے رقم دے کر جان
چھڑائی۔ قافلہ جب حج سے واپس آیا تو لوگوں نے اس شخص کی بیوی کو تمام بات
بتائی اور اس کے اعمال کے بارے دریافت کیا۔ اس کی بیوی نے بتایا کہ اس کے
خاوند نے ایک دفعہ ایک امیر آدمی کے ساتھ سفر کیا۔ راستے میں دھوکے سے اسے
قتل کر کے اس کے مال پر قبضہ کر لیا اور یہ حج اور نیک کام اسی کے پیسے پر
ہو رہے تھے۔
ہمارے سرکاری اداروں میں رشوت کو حلال قرار دے کر خود کو مطمن کر لیناایک
فیشن بن چکا ہے اور بے شرمی کی حد ہے کہ ایسے پیسے سے حج کرنے کے بعد لوگ
سمجھتے ہیں کہ رب نے سارے گناہ معاف کر دئیے مگرمیرا ایمان ہے کہ لوگوں سے
ناجائز وصولیاں کرنے اور ان پیسوں سے حج اور عمرہ کرنے والوں کا انجام بھی
اس مسافر سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ وہ انسانوں کو فریب دے سکتے ہیں، لیکن فطرت
کو نہیں۔ |