بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(26جولائی:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
جمہوریہ مالدیپ ،چھوٹے بڑے تیرہ سو جزائر پر مشتمل بحرہند کے اندر ایک
اسلامی ریاست ہے۔سمندر کے اندرپانچ سو دس(510)میل لمبا شمال سے جنوب اور
اسی(80)میل چوڑا مشرق سے مغرب اس ملک کا کل رقبہ ہے۔ ’’مالی‘‘یہاں کا
دارالحکومت ہے جو سری لنکا سے جنوب مغرب میں چارسو(400)میل کے فاصلے پر
بنتاہے۔دارالحکومت ہونے باعث حکومت کے مرکزی دفاتر،اعلی عدالتیں اور تعلیم
کے بہترین ادارے یہاں موجود ہیں۔مالدیپ کے ان جزائر میں چھوٹے بڑے پہاڑی
سلسلے بھی چلتے ہیں لیکن پھر بھی یہ جزائر سمندر کے برابر یا معمولی سے
بلند ہیں اورکوئی جزیرہ بھی سطح سمندر سے چھ فٹ سے زیادہ اونچا نہیں ہے۔مون
سون ہوائیں یہاں پر بارش کا سبب بنتی ہیں اور بارش کی سالانہ اوسط
چوراسی(84) انچ تک ہی ہے جبکہ سالانہ اوسط درجہ حرارت 24سے30ڈگری سینٹی
گریڈ تک رہتا ہے،گویا یہ ایک معتدل آب و ہوا کا بہترین قدرتی خطہ ہے۔بعض
جزائر ریتلے ساحلوں پر مشتمل ہیں اور ان میں پام کے درخت اور صحرائی
جھاڑیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔مچھلی یہاں کی اکثریتی خوراک ہے اورسمندری
کچھوے بھی پکڑ کر کھائے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر انکا تیل نکالا جاتا ہے جو
یہاں کی بیماریوں میں روایتی طور پر بطور علاج کے استعمال کیاجاتاے۔2005کے
مطابق یہاں کی آبادی تین لاکھ کی تعداد کو چھورہی تھی۔
ایک اندازے کے مطابق پانچ سوسال قبل مسیح میں بدھ مذہب کے ماننے والے یہاں
کے اولین باشندے تھے جنہوں نے ان جزائر کو سب سے پہلے انسانی بستیوں سے
آباد کیا۔’’سنہالی‘‘اور ’’دراوڑی‘‘قوم کے یہ لوگ سری لنکااور جنوبی
ہندوستان سے یہاں وارد ہوئے تھے۔1153ء میں یہاں اسلام کا تعارف ہوااور
مسلمانوں کے مشہور سیاح ’’ابن بطوطہ‘‘ نے 1340ء کے دوران یہاں کا سفر کیا
اور اپنے سفر نامے میں ان جزائر کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں،ابن بطوطہ
چونکہ خود یہاں آیا اور کافی عرصہ تک یہاں پر مقیم بھی رہا اس لیے اسکی
تحریریں اس علاقہ کے بارے میں اصل اور حقیقی ذریعہ تحقیق کی حیثیت رکھتی
ہیں۔۔سولھویں صدی کے وسط میں یہاں پرتگالی بھی آن پہنچے ،سترہویں صدی میں
سری لنکاپر قابض ڈچ حکمرانوں نے یہاں پر بھی حکومت کے جھولے لینے شرع کر
دیے لیکن 1796میں ایک یورپی گروہ تاج برطانیہ کے نام سے یہاں کی دولت پر
نظر رکھنے پہنچ گیا اور انہوں نے سری لنکا پر قبضہ جماکر یہاں پر بھی اپنی
افواج اتار دیں۔1932تک جزائرمالدیپ کو جمہوریہ کے قریب تر لاکر برطانوی
حکمرانوں نے بہت کچھ اختیارات مقامی حکمران خاندان کو منتقل کر دیے۔1953میں
مملکت کوباقائدہ جمہوریہ قرار دے دیا گیا لیکن بادشاہی نظام پھر بھی قائم
رہا ،یہاں تک کہ 1965میں مالدیپ نے برطانیہ سے مکمل سیاسی آزادی حاصل کر لی
اور 1968میں خاندانی بادشاہت کا بھی اختتام کر دیاگیا اور ملک کے عوام مکمل
طور پر جمہورہت کی چھتری تلے آ گئے۔29مارچ 1976تک برطانوی افواج یہاں رہیں
اور اس تاریخ کو انہوں نے اس ملک کی سرزمین کو خیرآباد کہ دیا،چنانچہ یہ دن
مالدیپ میں آزادی کے دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔
جزائر کی کثرت کی وجہ سے مالدیپ میں کوئی ایک قوم آباد نہیں ہے بلکہ یہاں
ملے جلے قبائل آباد ہیں۔’’داوی‘‘یہاں کی مقامی اورقومی زبان ہے اور یہی
دفتری زبان بھی ہے۔’’داوی‘‘ہندوستان کی زبانوں سے ملتی جلتی زبان
ہے۔اردواور انگریزی بھی کہیں کہیں بولی اور تقریبا َ ہر جگہ سمجھی جاتی ہے
۔مالدیپ اس لحاظ سے ایک بہترین ملک ثابت ہوا کہ انہوں نے انگریزکے ساتھ
اسکی زبان کو بھی ملک بدر کر دیا۔اسلام یہاں کا سرکاری اور قومی مذہب
ہے۔ملائیشیا،مڈگاسٹر،انڈونیشیااور عرب ممالک کے تاجروں سمیت مملکت چین کے
تجار بھی کثرت سے اور صدیوں سے ان جزائر میں آناجانا کرتے رہے جن کے اثرات
آج بھی یہاں نظر آتے ہیں۔یہاں کے باسی چھوٹے چھوٹے گاؤں بناکر رہتے ہیں
اسکی وجہ اس مملکت کی جغرافیائی صورت حال ہے صرف بیس ایسے جزائر ہیں جن میں
ایک ہزار سے زائد کی آبادی قیام پزیر ہے باقی تمام جزائر اس سے بھی کم
آبادی پرمشتمل ہیں ۔جنوبی جزائر میں پھر بھی زیادہ آبادی ہے جبکہ شمالی
جزائر تو خالی خالی نظر آتے ہیں۔جنوبی ایشیا میں ہونے کے باعث مالدیپ
’’سارک‘‘ تنظیم کا رکن ہے اور مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے یہ ملک او آئی سی
کا بھی رکن ہے۔
معاشی لحاظ سے دنیاکے غریب ترین ممالک میں مالدیپ کا شمار
ہوتاہے۔مچھلی،سیاحت اورکشتی سازی پر اس ملک کی کل معیشیت کا دارومدار ہے۔فی
کس آمدن یہاں دنیامیں سب سے کم سطح پر ہے۔آبادی کی اکثریت مچھلی پکڑ کر پیٹ
پالتی ہے،تربوزاور کھوپرے چنتی ہے اور ٹوکریاں بناکر اپنا روزگارتلاش کرتی
ہے۔جہاں کہیں سرسبزجزائر ہیں وہاں سبزیاں بھی کاشت کی جاتی ہیں لیکن ایسا
بہت کم ہے،سمندر کا ساحل سبزیوں کی کاشت اور پھلوں کے باغات کی اجازت کم ہی
دیتاہے۔خوراک کے لیے جملہ اجزازیادہ تر درآمد کیے جاتے ہیں جو آبادی کی
ضروریات کو پوراکرتے ہیں۔مچھلی کی صنعت سے کم و بیش ایک چوتھائی آبادی
وابسطہ ہے ۔اﷲ تعالی کی شان ہے کہ سمندر سے محروم ممالک کو صنعتوں اور
زراعت کے ذریعے اپنارزق میسر آجاتاہے اور جہاں یہ دونوں ممکن نہیں وہاں
سمندر اپنا سینہ رزق کی وسعتوں کے ساتھ کھول دیتاہے اور انسان محنت اور
جستجوکے ذریعے سمندر کے دامن سے اپنا رزق جھولیوں میں بھرلاتاہے۔دوسرے
ممالک سے آئے ہوئے بڑے بڑے اداروں کے نمائندے اچھی اور مزیدار مچھلی کی
نسلیں اچھے داموں یہاں سے خرید لیتے ہیں اور انہیں کھانے کے قابل بنانے کے
لیے اپنے اپنے ممالک میں لے جاتے ہیں۔یہ تجارت یہاں کے لوگوں کے لیے اور
حکومت کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے اور قوم کو بڑے پیمانے پرزرمبادلہ
بھی میسرآجاتاہے جس سے وہ اپنی ضروررت کی دیگر اشیا دوسرے ممالک سے خرید نے
کے قابل ہو جاتے ہیں۔امریکہ،سری لنکااور سنگاپور اس ملک کے تجارتی بھائیوال
ہیں۔سردیوں کے ایام میں ’’مالی ‘‘کے ہوٹل سیاحوں سے بھر جاتے ہیں،یہ سیاح
دوسرے ممالک سے آتے ہیں اور ساحلی مقام پر اچھے دن گزار کر مقامی لوگوں کی
بیرونی کرنسی میں خدمت کرجاتے ہیں۔ہاتھوں سے بنائی جانے والی چیزیں یہاں کی
بہت بڑی انڈسٹری ہے جس کی کھپت ملک میں ہی پوری ہوجاتی ہے۔’’مالدیپ‘‘چونکہ
جزائر پر مشتمل ہے اس لیے کشتیاں ہی یہاں کے واحدذرائع نقل و حمل ہیں۔ملک
کے اندر اور قریبی ممالک میں جانے کے لیے چھوٹے بڑے بحری جہازاستعمال ہوتے
ہیں جبکہ ’’مالی‘‘کابین الاقوامی ہوائی اڈہ دوردراز کے ممالک کے لیے ہوائی
خدمت فراہم کرتاہے اور ایک قومی ہوائی سروس بھی ہے جو دوسرے ممالک کے
مسافروں کو اپنے ہوائی جہازوں میں لاد کر لاتی اور لے جاتی ہے۔
’’صدر‘‘ یہاں پر مملکت کا سربراہ ہوتاہے جسے شہریوں کی ایک
کونسل’’مجلس‘‘نامزد کرتی ہے۔مامزد شدہ صدر قوم سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتا
ہے اور پانچ سالوں کے لیے کئی بار منتخب ہوسکتاہے۔’’مجلس‘‘کو پانچ سالوں کے
لیے قوم منتخب کرتی ہے جس میں بیالیس اراکین ہوتے ہیں،دواراکین دارالحکومت
سے لیے جاتے ہیں اور بیس بیس جزائر پر مشتمل ایک ایک یونٹ سے بھی ایک ایک
نمائندہ لیاجاتا ہے ،کہیں جزائر کی تعداد بڑھ بھی جاتی ہے اور یہ آبادی پر
منحصر ہوتاہے۔آٹھ اراکین کو صدر کی طرف سے نامزد کیاجاتاہے۔مجلس ایک طرح سے
قومی اسمبلی ہوتی ہے اور یہ ملک کا واحد قانون ساز ادارہ ہے۔ججوں کی تقرری
صدر مملکت کرتا ہے اور ججز اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ اسلامی شریعت کے
مطابق فیصلے کریں گے۔مالدیپ اس لحاظ سے خوش قسمت ملک ثابت ہوا ہے کہ اس نے
انگریزکی زبان کے ساتھ ساتھ اسکے قانون کو بھی ملک بدر کر دیااور اسکی جگہ
قرآن سنت کے قوانین کو مملکت میں رائج کیا۔
صحت کے معاملے میں مالدیپ کے لوگ اپنے روایتی طرز علاج پر یقین رکھتے
ہیں۔اسپتال اگرچہ موجود ہیں لیکن وہاں مرد حضرات ہی جاتے ہیں اور خواتین
بہت کم جاتی ہیں۔صدیوں کے آزمودہ نسخے وہاں بہت حد تک کامیاب ہیں اور لوگ
اس سے شفایاب بھی ہوجاتے ہیں۔اوسط عمر اڑسٹھ (68)سال ہے۔تین طرح کی تعلیم
دی جاتی ہے ،مکتب اسکولزجن میں قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی ہے ،مقامی زبان
کے اسکولز جن میں بنیادی تعلیم دی جاتی ہے اور انگریزی اسکولز جن کا نصاب
غیر ملکی زبان پر مشتمل ہوتاہے۔اعلی تعلیم کے لیے طلبہ کو ملک سے باہر کا
سفر کرنا پڑتا ہے۔ملک میں شرح خواندگی 96%سے بھی زائد ہے۔معاشی لحاظ سے
دنیاکا سب سے غریب ملک لیکن شرح خواندگی امیر ترین ملکوں کے برابر ہے۔ماضی
قریب دسمبر2004میں یہاں پر سونامی نامی سمندری طوفان نے بے پناہ تباہی
پھیلا دی تھی،مالدیپ کا دارالحکومت مالی بھی اس طوفان کابدترین شکار ہوا
اور بہت سی جانوں کے ساتھ ساتھ بے شمار املاک بھی تباہی وبربادی کلا نشان
بن گئیں۔
|