کیش رجسٹر پر بل ادا کرنے
کے بعد کیشئیرنے مسکرا کر مجھے الوداع کہا تاکہ میں شاپنگ کے لئے یہاں کا
رخ بار بار کر وں اور میں اس ارادے کے ساتھ سامان سے بھری ٹرالی کو گھسیٹتا
کار تک پہنچاکہ آئندہ یہیں سے ضروریات زندگی کی اشیا خریدوں گا۔میرے چہرے
پر ایک دبی سی مسکراہٹ کافی دیر تک رہی۔یہ اس خوبصورت نوجوان کیشئیر لڑکی
کےالوداعی دلکش اور نرالے انداز کی وجہ سے تھی یا شائد شاپنگ مال جیسے بڑے
سٹور کے انتہائی ترتیب اور جازب نظر ماحول کی وجہ سے ۔ لیکن ذہن ایک جھٹکے
سے ناں ناں کرتا وہاں سے نکل آیا۔اچانک خوبصورت رنگوں کے حسین امتزاج کا
ہیولا آنکھوں میں رقص کرنے لگا۔ جیسے ہی وہ منظر یاد آنے لگا ،سکون اور
احساس کا ایک چشمہ جسم کے انگ انگ میں بہنے لگا۔کیشئیر لڑکی جب تک سامان پر
لگے پرائس بار کوڈ کو سکین کرتی رہی۔ رجسٹر کے ساتھ بندھے ہوا میں تیرتے
گیس بھرے غبارےمیری نظروں کو اپنی طرف جمائے رکھنے پر مجبور کرتے رہے۔بچے ،
بچی کی پیدائش پر مبارکباد،سالگرہ پر مبارکباد،شادی کی مبارکباد،گریجوایشن
کی مبارکباد،اور بستر علالت سے اٹھنے کی دعا۔ایک ہی ساعت میں میں نے ان
غباروں سے سالوں کی مسافت ایک پل میں طے کر لی۔زندگی کے سفر میں ہر پڑاؤ
پرپیش آنے والے خوشگوار لمحات تسلسل سے ایک کے بعد ایک منظر یاد داشت کی
سکرین پرنمودار ہونے لگے۔ہوا میں اڑتے غبارےمجھے اپنی زندگی کی کہانی سنانے
لگے تھے۔ شائد ہماری خوشیوں سے وابستہ لوگ اور تعلق ان غباروں کی مانند
زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔جو خوشیوں کے لمحات کے گزرنے کے چند لمحوں بعد ہی
غباروں کی طرح چھت کے ایک کونے میں دھکیل دئیے جاتے ہیں۔پھر آہستہ آہستہ
نیچے آتے آتے پاؤں کی ٹھوکروں پہ آ جاتے ہیں۔ان غباروں کے مقدر میں صرف ایک
بار کی ایک خوشی ہی لکھی ہوتی ہے۔وہ دوسری بار استعمال کے قابل نہیں
رہتے۔گھروں میں خوشیوں کی مبارکباد دینے آنے والے اور جانے والےجو احساس
چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ دوسری بار اپنے ہونے کا احساس نہیں دلا پاتے۔ہر نئے موقع
کے لئے نیا احساس غبارے کی طرح پُھلایا جاتا ہے۔ لینے والے اسے محسوس کی
چھت پر چپکا لیتے ہیں جو رفتہ رفتہ یادداشت کی رسی پر ڈھیلا ہوتے ہوتے اپنا
وجود کھونا شروع کر دیتاہے۔آج کے دور کا انسان پتھر کے دور کے انسان سے بہت
آگے جا چکا ہے اور اس کا یہ سفر بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔جس کی انتہا کے
متعلق جاننا یا مزید کچھ کہنا قبل از وقت کی طرح ہے۔گلوب سے گلوبل ویلج اور
پھر گلوبل سرکل تک یہ سفر چٹکیوں میں طے ہو چکا ہے۔وہ دن شائد دور نہیں جب
یونیورسل ویلج اور سرکل کی باتیں زبان زد عام ہوں۔ مگر اس وقت بھی شائدایک
کسٹمر خوبصورت کیشئیر کے سامنےکھڑا ہوا میں جھومتے گیسی غباروں کو ایک دبی
سی مسکراہٹ سے زندگی میں بیتے خوشیوں کے دنوں کو یاد کر رہا ہو گا۔گھروں تک
سامان لے جانے کا طریقہ شائد بدل چکا ہو گا۔عین ممکن ہے معیار زندگی بدل
جانے سے ضروریات زندگی ویسی نہ رہیں۔مگر غبارے ہمیشہ کی طرح چھت کے ایک
کونے میں اداس لٹکتے رہیں گے۔وہ اپنے انجام سے کبھی بے خبر نہیں رہتے۔چہکتے
آتے ہیں مرجھاتے مر جاتے ہیں۔یہ آج کے زمانے کی وہ خوشی کہانی ہےجو جس گھر
میں جنم لیتی ہے ۔ کچھ عرصہ بعد وہیں دم توڑ دیتی ہے۔جیسے کہ لفظوں کو
خوشخطی میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ کاغذوں میں ہی دم توڑ دیتے
ہیں۔ شائد کاغذ پہ لکھے الفاظ اور احساس کے غبارے ایک ہی قسمت رکھتے
ہیں۔چند لمحوں کے بعد اپنے وجود کے مٹنے کے احساس میں یادداشت کی رسی پر
جھولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب تک کہ وہ بھولنا شروع نہ ہو جائیں۔ |