میرے معیار کا تقاضا ہے کہ میرا دشمن بھی خاندانی ہو
(Shauket Hayat Gondal, Kuwait)
آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس
میں دوستی اور دشمنی کے معیار پہلے وقتوں سے بہت الگ ہو چکے ہیں
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
انسانی رویوں میں دشمنی کو ایک خاص مقام حاصل ہے یہ محبت کا تضاد ہونے کے
ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے جذبوں کی مرہون منت ہے -
محبت کا نہ ہونا دشمنی کرنے کے لیے کافی نہی ہے بلکہ نفرت کا خاردار جھاڑ
پیدا کرنے کے لیے حسد کے بیج بغض کی کھاد اور منافقت کا پانی وافر مقدار
میں ڈال کر اس کی آبیاری کرنی پڑتی ہے-
ممالک اور اقوام عالم کی نفرتوں کے بعد یہ نفرت نچلے درجے تک پہنچتی ہوئی
رشتوں میں سرائیت کر جاتی ہے اور لوگ اللہ سے اپنے لیے دعا مانگنے سے زیادہ
دوسروں کے لیے بد دعا زیادہ مانگتے ہیں-
حضرت علی کا فرمان ہے کہ دنیا بد ترین ہوتی جا رہی ہے ، برے لوگوں کے زیادہ
ہونے کی وجہ سے نہی بلکہ اچھے لوگوں کے خاموش ہونے کی وجہ سے-
سب سے پہلی دعا تو یہ ہے کہ اللہ ہم سب کو اتفاق اور محبت کے ساتھ رہنے کی
توفیق دے لیکن اگر کسی بات پر اختلاف اور دشمنی پیدا ہو بھی جائے تو وہ
بندہ اس معیار کا ہونا چاہیے جس سے دشمنی کرتے ہوئے بھی اس بات کا احساس ہو
کہ یہ میری دوستی نہ سہی مگر کم از کم دشمنی کے قابل ضرور ہے-
شعیب خان سواتی نے کیا خوب لکھا ہے کہ
معیار گرتا نہ دوستوں کا ، نہ ہم دشمن کی ڈھال ہوتے
ضعیف دشمن پہ وار کرتے تو وقت کے ہم دجال ہوتے
نہی تھا اپنا مزاج ایسا کہ ظرف کھو کر انا بچاتے
وگرنہ ایسا جواب دیتے کہ پھر نہ پیدا سوال ہوتے
ہماری فطرت کو جانتا ہے تبھی تو دشمن یہ کہ رہا ہے
ہے دشمنی میں بھی ظرف ایسا جو دوست ہوتے تو کمال ہوتے
آج جس طرح دوستی کے معیار ناقص ہوتے جا رہے ہیں اسی طرح آج دشمنوں کے معیار
بھی گرتے جا رہے ہیں -
جس طرح بے وقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہوتا ہے اسی طرح ایک بے غیرت دوست
سے با غیرت اور خاندانی دشمن ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے-
کسی کی دشمنی سے کبھی نہ ڈرو مگر اس بات سے ضرور ڈرو کہ جو تمھارا دشمن ہے
وہ کہیں منافقانہ اور گھٹیا وار کر کے تمھاری پییٹھ میں چھرا نہ گھونپ رہا
ہو-
دراصل کچھ لوگوں کے اندر کیکر اگے ہوئے ہوتے ہیں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی
کانٹا بن جاتے ہیں پھول بن کر محبتیں بکھیرنا تو عظیم لوگوں کا شیوہ ہے-
کچھ لوگ دوسروں کی کامیابیوں سے اتنا ڈر جاتے ہیں کہ وہ اوچھی حرکتوں پر
اتر آتے ہیں مگر ایک بات ان کو کبھی نہی بھولنی چاہیے جو منیر نیازی نے
اپنے شعر میں اس طرح بیان کی ہے کہ
ادب کی بات ہے ورنہ سوچو تو منیر
جو شخص سنتا ہے وہ بول بھی تو سکتا ہے
اللہ ہم کو محبتیں بانٹنے والا بنائے اور اگر کسی سے اختلاف ہو تو کبھی بھی
اپنے معیار سے نہ گریں اور ہمیشہ اپنا کردار بلند رکھیں اگر آپ کا مخالف
درست کام کرے تو اس کی حوصلہ افرائی کریں انا اور حسد کی آگ میں جل کر
کمینگی اور گھٹیا حرکتیں کر کے اپنا وقار خراب نہ کریں
جہاں تک ہو سکے نفرتوں کے صحرا میں محبت کا شجر لگائیں
ممکن ہے نکل آئے یہاں کوئی مسافر
صحرا میں لگاتے چلو دو چار شجر اور |
|