کسی قوم کے ہیرو اس کا فخر ہوتے ہیں ان کا عمل جو انھیں
ہیرو کا درجہ دیتا ہے قوم کیلئے راہ عمل،امید کی کرن،روشن مستقبل،فلاح کا
راستہ ہوتا ہے پاکستان میں ہیروز کی تعداد کسی صورت بھی کم نہیں ہے ہیروز
کا ایک وہ طبقہ ہے جوماضی قریب میں تھا اور آج ہم میں موجود نہیں جیسے مرزا
غالب، قائداعظم ؒ، علامہ اقبالؒ، مولانا ظفر علی خانؒ،مولانا شوکت علی
خانؒ،مولانا محمد علی جوہرؒ،مولانا اشرف علی تھانویؒ،مولانا شبیر
احمدعثمانیؒ،مولانا ظفر احمد عثمانیؒ،سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ،امیر ملت پیر
جماعت علی شاہؒ،پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ،لیاقت علی خانؒ،امام الخطاطین سید
سلیمان ندویؒ،سید نفیس الحسینی،ؒ شہدائے کارگل ؒ،علامہ احسان الہٰی
ظہیرؒ،علامہ نورانیؒ،مجید نظامی ؒکے علاوہ اگر شہدائے ختم نبوت اور شہدائے
ناموس صحابہ کا تذکرہ نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی ان دونوں طبقات شہداء نے
امت مسلمہ کے ایمان کی تحفظ میں اپنی جانیں قربان کردیں مگر غیروں یا اپنوں
کی حکومتوں کے سامنے کلمہ ٔ حق ہمیشہ بلند کئے رکھا اس راستے میں جیلیں
ہتھکڑیاں ان کا راستہ نہ روک سکیں،انھوں نے اپنے ضمیروں کا سودا نہیں
کیا،ایک طبقہ نظام حق (اسلامی نظام) مسنون طریقے سے قائم کرنے والوں کا ہے
بعض اس دنیا کو اسی راستے پر چلتے چلتے خیرباد کہہ گئے جیسے ڈاکٹر اسرار
احمدؒ اوربھارت کی ناپسندیدہ شخصیت میجر جنرل (ر) ظہیرالا سلام عباسیؒ(بانی
تحریک عظمت اسلام) علاوہ ازیں دیگرلاتعداد ہیروز ہیں اور ایک طبقہ وہ ہے جو
آج ہم میں موجود ہے سائنس وٹیکنالوجی،کامرس،تجارت،معیشت ،علم
دین،کمپیوٹر،فلکیات ،بیالوجی ،کیمسٹری،جغرافیہ،حساب،تحریر وتقریر،تدریس
غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں لاتعداد گوہر نایاب موجود ہیں اور قومی ترقی میں
اپنا کردار ادا کررہے ہیں یہ حکومت وقت کی بصیرت ہے کہ وہ ان سے کس طرح
کتنا کام لیتی ہے ؟ قومی تشخص اجاگر کرنے میں کس طرح ان ہیروز کو دنیا بھر
میں پروٹوکول دیتی ہے؟پاکستان کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی ہم نے
اپنے ہیروز سے کام لیا تو انھوں نے تاریخ ساز کارنامے سرانجام دئیے
،پاکستان کو ایٹمی پاکستان بنانے کیلئے جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت
میں ایٹمی سائنس دانوں سے کام لینے کا فیصلہ کیا گیا تو ان پاکستانی ایٹمی
سائنسدانوں نے پاکستان کو ایٹم بم کا تحفہ دے کر دنیا بھر میں پاکستان کو
ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا اس طرح پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا
گیا،جب کمپیوٹر کے میدان میں ایک کم سن پاکستانی لڑکی ارفع کریم نے نا قابل
فراموش کارنامہ سرانجام دیا تو دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ جب کھیل کے
میدان میں پاکستانی کھلاڑی جوش و جذبے اورقومی خدمت کے ساتھ میدان میں اترے
تو ورلڈ کپ لے کر پاکستان آئے اس طرح پاکستان کھیل کے میدان میں ورلڈ
چمپیئن بن گیا ہاکی میں بھی پاکستان کا نام روز روشن کی طرح عیاں ہے۔بزنس
کے میدان میں ملک ریاض،سیٹھ عابد جیسے لوگوں نے ملک کا نام روشن کیا اس طرح
اگر تمام شعبہ جات کے ہیروز کا تذکرہ یہاں کیا جائے تو ایک طویل فہرست بن
سکتی ہے،علم دین کے میدان میں مفتی تقی عثمانی صاحب ،مولانا طارق جمیل،مفتی
منیب الرحمان،مفتی حمیداﷲ جان ،مفتی رفیع عثمانی،ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب
اکوڑہ خٹک،صحافت میں مجیب الرحمان شامی،اوریاجان مقبول،عرفان صدیقی،نوید
ہاشمی،خورشید ندیم،عامرہ احسان،علامہ زاہد الراشدی ،ڈاکٹر عامرلیاقت،جاوید
چوہدری،عبدالستار ایدھی جیسی بے شمار نابغۂ روزگار شخصیات آج بھی موجودہیں
جن کے تجزیوں سے حق وصداقت کی خوشبو ہر کوئی محسوس کرتا ہے جو قلم کا تقدس
بحال رکھے ہوئے ہیں ان جیسی ہستیاں ہی قوم کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی
ہیں ۔لیکن آج ہم ان ہیروز کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جنھوں نے تعلیمی میدان
میں وسائل نہ ہونے ،والدین کے بڑھاپے ،بیماری کے باوجود عظیم کارنامہ
سرانجام دیا۔ہماری مراد میٹر ک کے سالانہ امتحانات 2015 ڈسکہ کے علی حمزہ
نے دن رات محنت کرکے گوجرانوالہ بورڈ سے آرٹس میں دوسری پوزیشن حاصل کی ،ان
کے گھریلو حالات کچھ ایسے ہیں کہ ان کے والد ٹی بی کے ساتھ ذہنی مریض ہیں
خود مزدوری کرتا تھا فارغ اوقات میں تعلیم حاصل کی ، اﷲ تعالیٰ نے انھیں
بورڈ سے دوسری پوزیشن میں کامیابی حاصل عطاء کی ،اسی طرح ملتان بورڈ سے
غلام محی الدین نے پہلی پوزیشن حاصل کی ،حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی چنے چاول کی
ریڑھی لگا کر گھر کے اخراجات پورے کرتا رہا اور ساتھ پورے لگن کے ساتھ
میٹرک امتحانات کی تیاری میں مصروف رہا ۔تعلیم کے میدان میں ان غریب
گھرانوں کے بچوں کو اسلامی تحریک طلبہ پاکستان کا چیئرمین ہونے کی حیثیت سے
خراج تحسین پیش کرتا ہوں کیونکہ انھوں نے وسائل نہ ہونے کے باوجود انتھک
محنت سے اعلیٰ نمبروں میں کامیابی حاصل کی ۔ان کے علاوہ وہ تمام طلبہ
وطالبات بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنے والدین کی دولت ،محبت کی
قدر کی اور ان کے وجدان کے مطابق کامیابی حاصل کی ۔یہ سب طلبہ وطالبات
پاکستان کے ہیروز ہیں یہ روشن مسقبل ہیں ہمارے وطن کا۔۔۔ یہ ان امیرزادوں
کی طرح ملک کے ماتھے پربد نما داغ نہیں ہیں جن کو ایچی سن کالج میں نالائق
ہونے پر داخلہ نہیں ملتا تو ان کے باپ،دادے،تائے ،وڈیرے ،سردار کالج کے
پرنسپل کو میرٹ ،ایمانداری پر سزاکے طور پر کھڈے لائن لگوانے پراتر آتے ہیں
۔ یہی امیرزادے بڑے ہوکر پاکستان کی کیا خدمت کریں گے ان کے بڑے جو ملک میں
کر رہے ہیں ساری قوم دیکھ رہی ہے کرپٹ نظام کو سہارا نہیں بلکہ اس کے چمچے
کڑچھے بنے ہوئے ہیں انصاف، میرٹ کا سرعام قتل کیا جارہا ہے ،کرپشن کی مالا
ان کی گردنوں میں اس قدر بھاری ہو چکی ہے کہ یہ مزید کرپشن کی طرف جھکتے ہی
جارہے ہیں انصاف پاکستان میں نظر نہیں آتا۔ کیا ایسے لوگ یا ان کے بچے
پاکستان کو روشن مسقبل دے سکتے ہیں یا وہ طلبہ وطالبات جو محنت کرکے تعلیم
کے میدان میں اپنے والدین ،اساتذہ اور ملک وقوم کا نام روشن کر رہے ہیں
۔یقینا آپ ان کاہنہ مشق، محنتی طلبہ ہی کو ہیرو کا درجہ دیں گے ناکہ ان
کرپٹ لوگوں اور ان کے سونے کا منہ میں چمچہ لے کر بڑھے ہونے والے بچوں کو
۔۔۔۔۔ ایک قوم کو ایماندار،محنتی ،صالح اسلام پسندقیادت ہی ترقی کی شاہراہ
پر گامزن کر سکتی ہے ایسی قیادت کا ظہور غریبوں سے ہو گا نہ کہ امیروں سے
یہ میری بات نہیں میرے کریم آقا ﷺ کی پیشنگوئی ہے۔۔۔۔۔ پھر ملک میں امن
قائم کرنے کیلئے لوگوں کوماورائے عدالت قتل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی
کیونکہ علم وعمل، انصاف کا دور دورہ ہوگا کیونکہ صالح قیادت کے ہوتے ہوئے
صالح نظام مملکت فروغ پائے گاہر ایک کو اس کا حق ملے گا غلط کو غلط ،سچ کو
سچ کہا جائے گا اس سے ضد،عناد کا خاتمہ ہوگایہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم
اپنے ہیروز کی قدر کریں گے تو ۔۔۔۔۔۔ پاکستانی قوم ! اور خصوصا حکمرانوں سے
گذارش ہے کہ ان زندہ ہیروز کی قدر کریں ان سے ملکی ترقی کیلئے مزید کام لیا
جائے اگر ہم نے ماضی کی طرح صرف دنیا سے چلے جانے والے ہیروز کی ہی قدرکی
تو ہماری حالت بہتر نہیں ہو سکے گی وہ ہی قوم کامیابی وکامرانی حاصل کرتی
ہے جو اپنے گزرے اور موجودہ ہیروز سے سبق حاصل کرتی ہے زندہ ہیروز سے اس
طرح مستفید ہوتی ہے جیسے مستفید ہونے کا حق ہوتا ہے ۔ آخر میں ہماری گذارش
ہے کہ وہ غریب طلبہ وطالبات جنھوں نے ملک کا نام روشن کیا انکی مالی امداد
کی جائے کم از کم پچاس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ اول ،دوئم،سوئم آنے والوں
کیلئے مقرر کیا جائے اس کے علاوہ دیگر ذہین طلبہ وطالبات کیلئے بھی اور ان
کی معیاری تعلیم کا بندبست بھی اعلیٰ معیا رکے حامل اداروں میں کیا جائے
ابتداء میں ان کی قدر ایسے ہی کی جا سکتی ہے تاکہ وہ مزید ملک کا نام روشن
کریں اور وسائل آڑے نہ آنے پائیں۔ |