زنِ سوات

واد ی سوات جو قدرتی رعنائیوں سے مالا مال حسین سرزمین اور غیر معمولی تاریخی واقعات کی امین ہے۔اس وادی کی تاریخ کو اگر ٹٹولا جائے تو قلمبند کرنا میرے بس کی بات نہیں لیکن کچھ واقعات کا ذکر کرکے دل کی بھڑاس نکالتی ہوں۔

رام چندر جی اور سیتا بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ بدھ مت والوں کا بھی اہم مرکز رہا ہے۔سکندرِ اعظم سے بھی یاد گاریں وابستہ ہیں۔محمود غزنوی کے جانباز سپاہیوں نے بھی اﷲ اکبر کے نعر ے لگائیں تھے۔

اب پختونوں کا سب سے بڑا قبیلہ یوسفزئی کا مسکن ہے۔جو ہمارے دادا اور یوسفزئی قبیلہ کے عظیم لیڈر ملک احمد خان نے یہاں لاکر بسائیں تھے۔جو کہ سوات کے اکثریت یوسفزو کی ہے۔لیکن کچھ غیر یوسفزئی بھی عرصے سے یہاں آباد ہیں۔جو کہ ہم بہت امن پیا رو محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔بذات خود میری وادی سوات سے بے پناہ محبت ہے۔
شعر تو ہے مصرعہ تو ہے نظم تو ہے غزل تو ہے
اس دل کا مرکز تو ہے اسی روح کی منزل تو ہے

اور اپنے دادا ملک احمد کے احسان کا دل وروح سے شکریہ ادا کرتی ہوں جس نے ہمارے سینئرز کو یہاں لا کر بسائیں تھے۔
ملک احمد باباؒ
ښکلے د ے وطن او روښان په مونږ
ستا نوم نه رونق د ے دا بوستان په مونږ
ډېر په قبیله کښې نوموړ ے وې
ځکه نوموړ ے دې د ے شان په مونږ
سوات چې دې مسکن راله جوړ کړ ے د ے
کړ ے دې بې شانه د ے احسان په مونږ
ھم مونږه خائیسته یو ھم وطن خائیسته
ځکه خائیسته شو ے د ے جھان په مونږ
ھم زمونږ دَ شان نه د ے تاریخ خائیسته
ځکه ھم خائیسته شولو داستان په مونږ
مونږ د یوسفزو خائیسته ګلونه یو
ځکه ھم خائیسته د ے ګلستان په مونږ
روح دَ پاکیزه دا ترانې وائی
ډېر ملک احمد بابا د ے ګران په مونږ

آج کل یہاں جو کلچر چل رہا ہے یہ بہت زیادہ عرصہ سے قائم اور مسلط ہے۔جوکہ محمود غزنوی نے بدھ مت والوں کو شکست دے کر اسلامی تہذیب متعارف کروایاتھا۔بعد میں ہمارے دادا ملک احمداپنے قبیلے کے ہمراہ یہاں آکر آباد ہوئے۔تو حالات کی رنجشوں سے سابق سواتی دیگر علاقوں کو چلے گئے۔اسلامی کلچر کے نام پر خواتین کو با پردہ رہنا یہاں کا مقامی تہذیب رہا۔ جیسا کہ اسلام کی شان بھی یہی ہے۔ لیکن اسلام نے عورتوں کو باپردہ رہ کر کچھ حقوق بھی متعین کیے ہیں۔ لیکن یہی حقوق یہاں کی خواتین کو ایک فیصد بھی نہ ملنے کے برابر ہیں۔اگر اسلامی تہذیب کا مطالعہ کیا جائے تو اسلام نے خواتین کو بہت حقوق دیے ہیں جس سے یہاں کی خواتین محروم ہیں۔اگر یہ حقوق ان خواتین کو ملتے تو سواتی خواتین آگے جا کر دُنیا میں اپنا مقام بناسکتی تھیں چونکہ حدیث میں آتا ہے کہ
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے(خواہ وہ مرد ہو یا خاتون)

اورعورت کا مرد پر اتنا حق ہے جتنا کہ مرد کا عورت پر۔اسلام میں وراثت میں عورت کا آدھا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ عورت کو جملہ ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ لیکن پختونوں کی اکثریت عورت ذات کو خدا کی مخلوق نہیں سمجھتے ہیں اس لیے جہاں بھی پختون آبا د ہیں خدا کے غضب کا نشانہ بنتے ہیں۔چونکہ سوات کی خواتین بہت باصلاحیت ہیں لیکن پختون قوم نے ان کو زنگ آلود بنایا اور خود ساختہ سماجی پابندیوں کے وجہ سے آگے نہیں جانے دیا۔اگر سوات میں سماجی پابندیوں کا تسلسل ختم ہوجائے اور ٹیلنٹ کو آگے لایا جائے تو ترقی کا پہیہ رواں دواں ہوگا خواتین اور لڑکیاں ہر شعبہ میں آگے جاکر اس حسین و بے مثال وادی کا نام روشن کریں گی۔ ان شاء اﷲ

سب سے پہلے تعلیم پر توجہ دینا ہوگی اور خواتین کی تعلیم پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں ایک بچے کی اچھی طرح تربیت کرسکتی ہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر سماجی و معاشرتی میدان میں عورتوں کو شانہ بہ شانہ لانا پڑے گا۔چونکہ یہاں کی خواتین ہر ہنر میں اپنی مثال آپ ہیں۔خاص کر دستکاری سوات کی خواتین کا اہم مشغلہ ہے۔جو کہ سہولیات نہ دینے کی وجہ سے یہ شعبہ ترقی نہیں کرسکتا۔ سوات کی خواتین کے دستکاری کے شعبہ کو اگر مزید ترقی دی جائے تو یہاں کی خواتین اس میدان میں اتنی ترقی کرسکتی ہیں کہ یہاں کے ملبوسات دُنیا کے کونے کونے میں اپنا لوہا منواسکتے ہیں۔اگر یہاں حکومت اس پر توجہ دے کر کچھ مراکز قائم کرے۔ حالانکہ میں نے دو تین سنٹر کا نام سنا ہے۔جو وجود میں آئے تھے لیکن حکومتی سرپرستی نہ ہونے کیوجہ سے وہ ترقی نہ کرسکے۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ مسرت احمد زیب نے کچھ سنٹرز قائم کئے تھے۔اس میں ایک سنٹر’’ گلِ خندانہ‘‘ اپنے آبائی گاؤں سیجبن میں چلارہی تھی۔لیکن بالائی توجہ نہ ملنے کے وجہ سے زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔اگر اس شعبے کو حکومتی سطح پر سپورٹ ملے یعنی سوات میں زیادہ سے زیادہ دستکاری مراکز قائم کیے جائیں اور ان مراکز کو ٹرانسپورٹ، عمارت اور مشینوں کی سہولیات مہیا کی گئیں تو یہ شعبہ بہت ترقی کرسکتا ہے۔صوبہ پختونخوا کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی روشن کرسکتا ہے۔لیکن یہاں کی خواتین کو آگے لانا تو درکنار اُن کے حقوق بھی غصب کیے جاتے ہیں۔ اور قصداً ان کو چلتی پھرتی لاشیں بنایا جاتا ہے۔سوات کی خواتین اور لڑکیوں میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ درخشندہ ستارہ،ملالہ یوسفزئی اس کا جی جاگتا ثبوت ہیں۔جس نے غیر معمولی اہلیت کے بناء پر ایوارڈ پہ ایوارڈ لیے۔ اور اپنی حسین وادی سوات کا نام پورے دُنیا میں روشن کیا۔جس طرح ملالہ نے اہلیت کی بناء پر اپنا مقام بنایا اس طرح یہاں کی دوسری بیٹیاں بھی اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے وطن کا نام روشن کرسکتی ہیں مگر ان کو سپورٹ کرنا ہوگا۔ یہ نہ کہ سپورٹ دینے کی بجائے وطن سے دور بھگانے پر مجبور کیا جائے۔
ہم وہی پھول جس پہ نازاں ہے چمن
کاش کہ بہار کی ہواؤں سے بکھر جاتے ہیں

جیسا کہ ملالہ یوسفزئی کو دیارِ غیر میں رہنے پر مجبو ر کیا گیا ہے۔کاش اگر ملالہ یہاں ہوتی اور یہاں کی بچیوں میں تعلیم کے شعبے میں کام کرتی اور اس شعبے کو مزید ترقی دیتی تو سوات میں خواتین کے مستقبل کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ لیکن صد افسوس کہ اس عظیم ہستی کے ٹیلنٹ سے دیگر بچیاں بہرہ مند نہ ہوسکیں
وہ گوہرِ یکتا ہے تو اوروں کیلئے ہیں
جاودانی سندیسہ صرف بہاروں کیلئے ہیں
Pakiza Yousuf Zai
About the Author: Pakiza Yousuf Zai Read More Articles by Pakiza Yousuf Zai: 21 Articles with 46175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.