دھمکی ، سوگ ، احتجاج اور مذمّت واہ! کیا کیا طریقے ہے غم
بھلانے کہ(مدثر مہدی) پاکستانی عوام گزشتہ 15,14, سالوں سے حالات جنگ میں
ہیں .ان کچھ سالوں نے پاکستانیوں کو بہت پیچھے کردیا ہیں ، ٥٠ ہزار سے زاید
قیمتی جانیں لاکھوں کے قریب جسمانی طور پر زخمی ، اربوں ڈالر کا نقصان ،
جسمانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ اس پاک سر زمین پر بسنے والے کڑوڑوں
لوگوں کو ذہنی طور پر بھی نقصان پوہنچا یاں ہیں ،سیکڑوں اسکولوں کو دھماکوں
سے اڑا کر لاکھوں بچوں کے مستقبل سے کھیلا گیا ہیں . کبھی مسجد ، کبھی گرجا
گھر ، کبھی امام بارگاہ تو کبھی مزارات کو ، .....کبھی ہسپتال کو تو کبھی
دفاتر کو ، کبھی بسوں کو ، کبھی ٹرین کو ،، کبھی پولیس ، کبھی رینجرز ،
کبھی ایف سی تو کبھی پاک فوج ،،،،، غرض کے اسلام کے نام پر ہونے والی اس
دیشتگردی نے بچہ. بزرگ ، مرد و عورت کسی میں فرق نہ کیا اور قتال انسانیت
کے بعد بڑے فخر سے قبول کیا اور ساتھ ساتھ خون کے دریاں بہانے کی تاویلے
بھی پیش کی اور اس نا حق خون بہانے کو اسلامی شریعت کے مطابق ثابت کیا گیا
خیر ، یہ قتال با نام اسلام ہمیں تو فقط قتال دکھتا ہیں اسلام تو دور کی
بات ہمیں تو اس میں شیطان دکھتا ہیںخیر ،مثلا دراصل دیشتگردوں کا نہیں بے
حس مسلمانوں کا ہیں ، بے حس پاکستانیوں کا ہے جو سمجھتے ہیں کے وہ
دہشتگردیوں سے محفوظ ہیں اور جو نشانہ بنتے ہیں ان کے لئے فقط ایک فیس بک
سٹیٹس یا چند منٹ کے ڈرائنگ روم سوگ یا چند گھنٹوں کے موم بتی جلاؤ احتجاج
کے بعد کسی پر سکون ماحول میں پوھنچ کر اپنے خاندان کے ساتھ ڈنر کر کے سوگ
بڑھا دیتے ہے ....اور پھر اگلے دن سے اپنی " اوقات" پر مطلب کے اپنی روز
مرہ کی زندگی میں واپس آجاتے ہیں . یہ حال کم و بیش تمام پاکستانیو کا ہیں
جو حالات جنگ میں ہونے کے باوجود اپنی گردنیں ریت میں گاڑھے ہوے ہیں ، ان
کو وہ لاشیں دکھتی ہیں لیکن یہ آنکھیں بند کرلیتے ہیں ، یہ ان کی آوازیں
سنتے ہیں لیکن کان بند کر لیتے ہیں ، یہ سمجھتے بھی ہیں ، لیکن خاموش رہتے
ہیں یہ ظلم دیکھتے ہے مگر شور نہیں مچاتے ، لیکن شاید انہیں یہ نہیں معلوم
جو خاموش ہوتا ہے وو بھی مجرم کہلاتا ہے .پاکستانی قوم اخلاق کی پست ترین
سطح پر پوھنچ چکی ہیں اور ہم وہ نیند سو رہے ہیں جسے بے گناہ انسانوں کے
خون کے چیھنتے بھی جگا نہیں پا رہے .... عجیب غفلت سی غفلت میں مبتلا ہیں
ہم لوگ ... کتنے ہی ظلم ہوجایئں ہم خاموش رہتے ہے کیوں کے ہمارے گھر والے
تو سلامت ہےعجیب حالت ہے ہماری، ہم چلتی پھرتی لاشیں بن گیئں ہیں ، ہم تما
شا ی بن گیئں ہے جو کچھ دیر تماشا دیکھ کر گھر کی راہ لےلیتے ہیں ،،، مرنے
والے کو انسان نہیں بلکے سنی ، شیعہ ، عیسائی، ہندو سمجھتے ہے ،، ہمارے لئے
انسانیت اہمیت نہیں رکھتی بلکے اس انسان کا عقیدے اہمیت رکھتا ہے ، اگر ہم
عقیدہ ہوگا تو ہم آواز اٹھایئں گیں اور اگر ہم عقیدے نہیں ہوگا تو خاموش
رہے گئی .. کیا دہرا معیار ہے ہمارا مذہب پتا چلا جب مسافر کی لاش کا چپ
چاپ آدھی بھیڑ گھروں کو چلی گیے خدارا ، ظلم پر آواز اٹھایئں ،خواہ وہ آپ
کا ہم مذہب ہو یا نہیں ،،ہم عقیدہ ہو یا نہیں یاد رکھیے حق کے لئے آواز نا
اٹھانے والا باطل کا خاموش لشکر ہے اور اس کی خاموشی ظالم کے ظلم کی حمایت
ہے اور یہ وہ آگ ہیں جو آہستہ آہستہ تمام پاکستانیوں کو جھلسا رہی ہے اور
اگر ہم ابھی بھی بیدار نہیں ہوہے تو یہ آگ ہم سب کو بھسم کردیں گی ... ہاں
جب وقت آیئں گا تو میں بھی نکلوں گا کے ابھی میرے گھرانے کے تمام فرد سلامت
ہیں- |