آخر راحیلہ کوانصاف کون دے گا؟
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
یہ کہانی صرف راحیلہ کی تو نہیں
ہے بلکہ اس بد قسمت ملک میں آئے روزایسا ہی ہوتا ہے اور شاہد کیا یقینا
ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ ہماری تعلیمی نظام یا والد ین کی
تر بیت کا مسئلہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صحیح معنوں میں تر بیت نہیں دیتے یا
معاشرہ اتنا بے حس ہو چکاہے کہ اب ایسے کام کرنے والوں کے لیے سزا کی بجائے
حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ قانون کی بالادستی
کاہے جس معاشرے میں قانون اور انصاف غر یب اور امیر کے لیے الگ الگ ہو،
انصاف پیسوں سے خریدا جائے۔ مجرموں کوسزا نہ ہو،ریاست اپنی ذمہ داری بھول
جائے تو پھر ایسا ہی ہو تا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا ہم اور آپ
جیسے غریب در بدر کی ٹھوکر یں کھاتے رہیں گے۔
ملک کی مجموعی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے لیکن سندھ اور کراچی میں تو بعض
اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر قانون نہیں بلکہ چور اور لیٹروں کی
بادشاہت ہے جس کا جی چاہے وہ کرتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔سب سے بڑی وجہ
حکمرانوں کاخود جرائم میں ملوث ہونا ہے۔ راحیلہ بھی اب ان بد قسمت لڑ کیوں
میں شامل ہوگئی جن کی خواہش موت ہے وہ شیشے میں نہیں دیکھ سکتی ، وہ لوگوں
سے منہ چھپائے پھرتی ہے۔ راحیلہ کی قسمت دو ہفتے پہلے چاند رات کو تبدیل
ہوگئی ۔ کراچی شہر میں مقیم 19سالہ راحیلہ چاند رات پر شاپنگ کے لیے گھر سے
اپنے بھائی کے ساتھ نکلی تو واپسی پر گھرکی دروازے کا تالا جب کھل رہی تھی
تو اس دوران اس کا سابق مہنگترذیشان علی نے تیزاب کے بوتلوں سے تیزاب ان کے
چہرے پر پھینکا اور ساتھ میں ڈیڑھ سالہ بھتیجے پر بھی تیزاب پھینکا گیا ۔
بچے کا تو چہرہ معمولی خراب ہوا ،صرف چہرہ جل گیا لیکن راحیلہ تو ہسپتال
میں موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہوگئی ۔گز شتہ روز نجی چینل اے آر آر
وائی نیوز پرجب راحیلہ کی تصویریں دکھائی گئی تو اس نوجوان خوبصورت لڑکی کی
تصویریں د یکھ کر دل خون کے آنسورویا۔ہسپتال میں پڑی اس بدقسمت لڑکی کی
والدہ کا کہنا تھا کہ راحیلہ کی ایک آنکھ مکمل طور پر ضائع ہوگئی ہے ۔ تیز
تیزاب کی وجہ سے ان کا ایک آنکھ کھلی کی کھلی رہے گئی ہے ،چہرہ مکمل طور پر
جل چکا ہے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق تیزتیزاب کی وجہ سے راحیلہ کی جلد کی تہے
بالکل ختم ہوچکی ہے۔چہرے کی ہڈی تک اثر پہنچ چکا ہے۔ راحیلہ ہسپتال میں مد
ہوشی کے حالات میں پڑی ہے ۔والد ہ کے مطابق راحیلہ نے صرف ایک دفعہ کہا ہے
کہ میری آنکھ کیوں نہیں کھل رہی ہے۔ اب بے چاری راحیلہ کو کیا معلوم کہ ان
کی آنکھ ہمیشہ کے لیے کھلے کی کھلے رہے گی لیکن اس میں نظر نہیں ہوگا۔
راحیلہ کی سال ڈیڑ ھ سال پہلے پڑوس میں ذیشان علی نامی لڑکے سے منگنی ہو
گئی تھی ۔ ذیشان علی کے بھائی پولیس میں ہے۔ بقول راحیلہ کی والدہ کی ذیشان
علی کی دوسری لڑ کیوں کے ساتھ تعلقات تھے جس پر راحیلہ کو معلوم ہوا تو
دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور آخر میں ذیشان علی اور راحیلہ نے چند مہینے
پہلے منگنی توڑ دی ۔ چاند رات یہ افسوس ناک اور دل دہلانے والا واقع پیش
آیا ۔ دو ہفتے گزرنے کے باوجود راحیلہ کے گھر کے گیٹ اور دیوار پر تیزاب کے
نشانات موجود ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ہسپتال میں ان کو بروقت علاج
شروع ہوتا تو راحیلہ کا جو 90فی صد چہرہ بھسم ہو چکا ہے ،اس پر کچھ حد تک
قابو پا یا جا سکتا تھا لیکن ہمارے سسٹم کے مطابق اس طرح کے واقعات ہو یا
گولی اور لڑائی میں زخمی ہونے والے لوگ پہلے پولیس میں ایف آئی آر درج کرتے
ہیں پھر پولیس والے کی موجودگی میں ڈاکٹر علاج شروع کرتے ہیں۔ کیانظام ہے
ہمارا کہ پولیس موجود ہو گی تو علاج شروع ہو گا ورنہ جب تک پولیس نہیں آتی
اس وقت تک متاثرہ شخص کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ راحیلہ کے ساتھ بھی یہی ہوا
۔ دو تین گھنٹے پولیس کی منت سماجت اور سفارش ٹوٹنے میں لگے اس کے بعد
ہسپتال میں علاج شروع ہوا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے متعلق شخص ذیشان علی
کو گرفتار کیا ہے لیکن پولیس میں اثرو رسوخ رکھنے کی وجہ سے متا ثرہ خاندان
کو مزید دھمکیاں بھی دی جارہی ہے ۔ متاثرہ خاندان چونکہ کرایے کے گھر میں
رہتا ہے ۔ اب ذیشان کی بھائیوں کی طرف سے مالک مکان کو بھی پر یشر ائز کیا
جا رہا ہے کہ راحیلہ کے والدین سے یہ گھر خالی کر ایا جائے جس پر ان کو گھر
خالی کرانے کا نوٹس بھی مل گیا ہے۔شنید ہے کہ عدالت سے چند دنوں میں عدم
ثبوتوں کی بنا پرذیشان علی ضمانت پر رہا ہو جائیں گے اور وکٹری کانشان بنا
کر عدالت سے باہر آجائیں گے۔ ملک بھر میں خصوصاً اور سند ھ اور کراچی میں
عموماً یہی ہوا ہے ۔ راحیلہ کی طرح ہزاروں لڑ کیاں زندگی بھر منہ چھپائے
ذیشان جیسے درندوں کی وجہ سے موت کے انتظار میں گزرنی پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
راحیلہ کی والدہ کی طرح ہر وہ ماں جن کی بچیوں کو تیزاب اور آگ سے جلایا
گیا ہو زندگی کی بجائے موت کی دعائیں اپنی بچیوں کے لیے مانگتی ہے ۔ ان
والدین اور بہن بھائیوں پر کیا گزررہی ہو گی جن کے ساتھ ایسے واقعات پیش
آئے ہو اوروہ اپنے بچیوں کو دیکھتے ہو، پھر ہمارے ملک کے سسٹم پر دل ہر وقت
جلتا ہے، جہاں انصاف لینے کے لیے اپ کو کسی وزیر ،مشیر ، وزیر اعظم اور صدر
کا رشتہ دار ہو نا لازمی ہے ۔ قتل بھی اپ کا ہوا ہو گا اور قاتلوں کو
ڈھونڈنا اور گواہوں کو عدالتوں میں پیش کر نا بھی اپ کے ذمہ داری ہو گی ۔
بہت سوں کی طرح ہماری بھی تمنا پیدا ہوئی ہے کہ اس نظام کو اٹھاکر سمندر
میں پھینک دیا جائے۔
کہا جا تا ہے کہ آگ کی تپش وہاں معلوم ہوتی ہے جہاں پر لگی ہو۔ اگر راحیلہ
سے پہلے کسی ایسے شخص کو سز ا ملتی تو آج شاید راحیلہ کے ساتھ یہ واقعہ پیش
نہ آتا۔ بہت سوں کی طرح راحیلہ کی ولد ین بھی اس انتظارمیں ہے کہ ہمیں
انصاف دیا جائے لیکن انصاف کون دے گا۔ راحیلہ کی ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ
یہ واقعہ اثرورسوخ رکھنے والے باآثر خاندان نے کیا ہے اگر اس میں کسی مدرسے
، مذہبی جماعت کا کوئی طالب علم ،یا عام شخص ملوث ہوتا تو ہمارے ملک کے
سیاستدان ، حکمران ،این جی اوزاور میڈیا میں شور مچانا شروع کر تے اور ان
کو کیفرکردار تک پہنچایا جاتالیکن ایسا نہیں ہے جس میں اب صبرکے سوا کوئی
چارہ نہیں ۔یہاں پر لوگ قتل کر جاتے ہیں ۔ عدالتوں سے بری ہوکر وکٹری کا
نشانہ بناکر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں کوئی پو چھنے والا نہیں ہوتا ۔
عدالتی کمیشن میں وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کو سانحہ ماڈل ٹاون کاذمہ دار
ٹھہرایا جاتا ہے کوئی سز انہیں ہوتی بلکہ وہ پھر بھی ملک کے سیاہ و سفید کے
مالک رہتے ہیں کوئی ان سے پندرہ لاشوں کا نہیں پوچھتا ،یہاں پر جو جتنا
زیادہ کرپٹ اور ظلم ہو گا اتنا ہی وہ بڑی کرسی پر بیٹھے گا۔ راحیلہ کا توصر
ف چہرہ اور جسم بھسم ہو چکا ہے ان کو انصاف کون دے گا؟ |
|