برصغیر کی تقسیم کا فارمولا بنا تو گورداسپور کو پاکستان
میں شامل ہونا تھا لیکن ہوا یہ کہ اچانک ہندو انگریز سازش کامیاب ہوگئی اور
یہ مسلم اکثریتی ضلع بھارت میں شامل کردیا گیا اور اب بھارت نے یہاں ایک
اور سازش اور ڈرامہ سٹیج کرنے کی کوشش کی ہے۔ 27جولائی کو گورداسپور میں
ایک پیچیدہ منصوبے کے تحت تخریب کاری کا پروگرام بنایا گیا جب تین بندوق
بردار حملہ آوروں نے دینا نگرگورداسپور میں ایک بس پر حملہ کیا بس میں سوار
مسافروں میں سے کئی زخمی ہوگئے لیکن بس ڈرائیور نے بس کو انہی حملہ آوروں
کے اوپر دوڑادیا حملہ آور بھاگ گئے اور ڈرائیور بس کو ہسپتال لے کر پہنچ
گیا جہاں زخمیوں کو طبی امداد پہنچائی گئی یہی حملہ آور ایک اغواشدہ کار
میں آگے گئے اوردینا نگر پولیس سٹیشن پر حملہ کردیا اس سے پہلے انہوں نے
ساتھ ہی واقع ہیلتھ سنٹر پر حملہ کیا اور ایک عورت چار پولیس اہلکار اور
تین شہری ہلاک ہوگئے جبکہ پندرہ افراد زخمی بھی ہوئے۔ اسی دوران حملے سے
پانچ کلومیٹر دور پر مانند ریلوے سٹیشن کے قریب امرتسر پٹھانکوٹ لائن
پرپانچ بم بھی ناکارہ بنادیے گئے اور یہ کارنامہ بھی عین اس وقت سرانجام
دیاگیا جب گاڑی اس پُل پر سے گزرنے ہی والی تھی اسے صرف دوسومیٹر دور ہی
روک دیا گیا یعنی بھارت کی پولیس کی کارکردگی کو اعلیٰ اور مثالی بناکر پیش
کردیا گیا۔ اس سارے آپریشن کو بارہ گھنٹے میں مکمل کیا گیا یعنی واقعات
سارے ساتھ ساتھ چلے لیکن پھر بھی بارہ گھنٹے لگادیئے گئے اور اس کے لیے بھی
بھارتی میڈیا نے یہ توجیہہ پیش کی کہ پولیس کم ازکم ایک حملہ آور کو زندہ
پکڑنا چاہتی تھی ورنہ اتنا وقت نہ لگاتی لیکن ہوا یہ کہ تمام حملہ آور ما
ردیئے گئے یعنی تمام ثبوت ختم کردیے گئے اور ساتھ ہی بھارتی میڈیانے اعلان
کردیا کہ حملہ پاکستان نے کروایا بلکہ یہ اعلان حملے کے شروع ہوتے ہی کردیا
گیا تھا۔ یہ رویہ کچھ نیا بھی نہیں تھا کیونکہ بھارت سرکار تمام کامیاب
وناکام حملے، تخریب کاریاں، دہشت گردی،شدت پسندی اور علحدگی پسند تحریکیں
پاکستان کے نام لگا کر امن وامان کے متعلق اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے بری
الذمہ ہوجاتی ہے۔ گورداسپور کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اور حال ہی میں
تو اوپرنیچے ایسے الزامات کی بوچھاڑ کرکے بھارت نے اپنی غیر سنجیدگی کا
بھرپور ثبوت دیا پہلے ایک معصوم کبوتر پکڑ کر اسے پاکستان کا جاسوس قرار
دیا اور دنیا بھر میں اپنا مضحکہ اڑایا پھر گورداسپور حملہ پھر کشمیر میں
عثمان خان نامی ایک لڑکے کو پکڑ کر اسے پاکستانی شہری قرار دیا لیکن نادرا
نے یہ بھی بھانڈا پھوڑ دیا کہ اس شخص کا نادرا میں کوئی ریکارڈہی نہیں۔
دراصل ہوا یہ کہ گورداسپور کے واقعے کے بعد بھارت کے سابق صدر عبدالکلام کے
انتقال نے بھارت حکومت کو مصروف کردیا اور وہ میڈیا کے ذریعے شروع کرنے
والی اس پاکستان مخالف مہم کو مزید اُچھالنے کے لیے فارغ نہ ہو سکی اور اس
طرح یہ مہم کسی حد تک صرف میڈیا کی خبر تک محدود رہ گئی اگرچہ بھارت کی
وزارت داخلہ کی طرف سے کچھ حصہ ضرور ڈالا گیا لیکن بہت ساری جزئیات کی طرف
توجہ نہیں دی گئی جس نے اس ڈرامے کو فلاپ کردیا۔ مثلاًکچھ بم پولیس سٹیشن
میں اور پانچ پرمانند ریلوے سٹیشن پر ناکارہ بنائے گئے لیکن حیرت انگیز طور
پر اس کو کنٹرول کرنے والاآلہ تقریباًڈیڑھ دو گھنٹے کے فاصلے پر پٹھان کوٹ
میں نصب کیا گیا تھا۔ دہشت گردوں میں سے کسی کے بارے میں کوئی معلومات ابھی
تک جاری نہیں کی گئی جبکہ مارے جانے والوں میں سے تین کی لاشیں سیکیورٹی
فورسز والے لے گئے کیوں اور ان کی شناخت کے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہا گیا
۔ منصوبہ جس بھونڈے پن سے بنایاگیا اور جس انداز سے اس پر عمل کیا گیا اس
سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس حملے پر قابو پانے کا منصوبہ حملے کے منصوبے کے
ساتھ ہی بنایا گیا تھا اور ٹائمنگ کا مکمل خیال رکھ کر بنایا گیا یوں پنجاب
پولیس کی سپشل ویپن اینڈ ٹیررسٹ ٹیم کوبھی عظیم اور ماہر بنا کر پیش کر دیا
گیا اور اس پر بھی تعریف کے ڈونگرے برسائے گئے یہ تو حملہ اور ا س پر قابو
پانے کی تفصیلات تھیں لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ �آخر ایسا کیوں کیا جا
رہاہے کہ کبھی ایک کبھی دوسرے واقعے کو پاکستان سے منسوب کیا جا رہا ہے اور
وہ بھی پے در پے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھارت کا عام وطیرہ ہے لیکن ان
واقعات اور الزامات میں تیزی کی کچھ وجوہات اوربھی ہیں جو کہ ہمیشہ ہوتی
ہیں جن سے حالات پر نظر رکھنے والاہر شخص اتفاق کرے گا ۔سب سے پہلی اور بڑی
وجہ جس نے بھارت کو بو کھلایا ہوا ہے وہ پاکستان اور چین میں تعاون کے
حالیہ منصوبے ہیں چین پاکستان اکنامک کاریڈور کے پاکستان اور عالمی معیشت
پر اثرات اور اہمیت سے بھارت پریشان ہے اور اسی پریشانی میں وہ کبھی ایک
کبھی دوسرا الزام پاکستا پر دھر رہا ہے جو ایک ایک کر کے غلط ثابت ہو رہے
ہیں اور اسے شرمندگی اٹھانا پڑ رہی ہے ۔ یہاں مسئلہ بھارت کی اس نیت کا بھی
ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کو ختم کرنے کی بجائے بڑھانے پر تلا
رہتا ہے ۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان اصل مسئلہ کشمیر ہے جس سے توجہ ہٹانے
کے لیے وہ مسلسل دوسرے مسائل اٹھاتا رہتا ہے اور اسی سلسلے میں اس نے دہشت
گردی کو اس سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے اور اگر چہ
پاکستان میں تخریبی کاروائیاں تو اس کا قومی ایجنڈا ہے لیکن اسی نظریے کو
تقویت دینے اور پاکستان کو موردِ الزام ٹھرانے کے لیے وہ اپنے ہاں بھی ایسے
ڈ رامے سٹیج کرتا رہتا ہے وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کشمیر ان دونوں
ممالک کے درمیان تمام مسائل کی جڑ ہے۔پاکستان جس فورم پر بھی اس مسئلے کو
اٹھاتا ہے بھارت اس کا بائیکاٹ کر دیتا ہے اور یا ایسا ممکن نہ ہو تو اس سے
گریز کی دوسری راہیں اپناتا ہے اب بھی اگست کے آخر میں دونوں ملکوں کے
سلامتی کے مشیروں کے درمیان جو ملاقات ہونی ہے اس سے راہ فرار اختیار کرنے
اوراسے سبو تاژکرنے کے لیے بھارت ایسی حرکتیں کر رہا ہے ایک طرف وہ پاکستان
میں دہشت گردوں کو مدد فراہم کر رہا ہے ، بلوچستان میں علحدگی پسندوں کا
ماسٹر مائنڈ بنا ہوا ہے بلکہ اپنے ہاں بھی ایسے منصوبے بنا کر اسے پاکستان
سے منسوب کر دیتا ہے دوسری طرف وہ کھلم کھلا سرحدی خلاف ورزی اور جارحیت کا
مرتکب ہو رہا ہے اور اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا تا ہے اگر ان سب حالات
میں بھی پاکستان سے یہ توقع کی جائے کہ وہ اپنے بیرونی اور اندرونی دفاع پر
سمجھوتہ کر ے تو یہ ایک قومی جرم ہوگا ۔ پاکستان کو بھارت کو ٹھوس اور سخت
جواب دینا ہوگا اور عالمی طاقتوں کو مجبور کرنا ہو گا کہ انہیں آ گے بڑھ
کراور حالات کا گہرائی سے جائزہ لے کر اور بھارت کے منفی کردار کو سامنے
رکھ کر پاک بھارت تنازعات کو حل کرنے میں مدد کرنا ہو گی اور بھارت کو اس
بات پر تنبیہ کرنا ہو گی کہ وہ خود ہشت گردی کے منصوبے بنا کر پاکستان کے
نام کرنے سے اجتناب کرے ورنہ خطے کا امن کبھی بھی بحال نہ ہو سکے گا اور
اسلحے کی دوڑ لگے رہے گی اور دو ایٹمی ملکوں کے درمیان تناؤ بڑھتا رہے گا
جو خطرناک نتائج پر منتج ہو گا اُس وقت بھارت ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار
رہے۔ |