خوداحتسابی کی ضرورت
(Shaikh Wali Khan Al Muzzafar, Karachi)
خود کو زیادہ سے زیادہ صالح،
مفید اور کامیاب بنانے کے لیے کیا خود احتسابی سے بہتر کوئی نسخہ ہے ؟یقینا
نہیں !یہ دنیا مکافاتِ عمل کی ہے یہاں کسی بھی انسان کا کوئی بھی عمل ایسا
نہیں ہوتا جس پر قدرت اور معاشرے کی طرف سے اچھا یا برا رد عمل ظاہر نہیں
ہوتا ،مکافات سے بچنے کی قدرت کے قانون میں کوئی گنجائش ہے اور نہ فطرت کے
اصولوں میں اس کے لیے کوئی رعایت ہے جو کوئی اسے نہیں مانتا وہ محض خود
فریبی کا شکار ہوتا ہے اور اسے جلد یا بدیر اپنی غلط فہمی کا احساس ہو جا
تا ہے مگر جب تک پانی سر سے گزرچکا ہو تا ہے اور حساب کا عمل شروع ہوچکا
ہوتا ہے۔ کامیابی کی راہ پر گامزن اور درست طریق کا ر کے دعویدار اگر خود
احتسابی کے عمل سے استغنا اور لاپرواہی برتتا ہے اور ا سے صرف بھٹکے ہووں
کا علاج قرار دیتا ہے تو یہ ایک مضحکہ خیز مفروضے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور
دنیا مفروضوں اور خوش گمانیوں پر نہیں تلخ حقائق پر قائم ہے ۔ہم جب دینی
تعلیم کے ماضی ،حال اور مستقبل کا اس تناظر میں جائزہ لیتے ہیں تو معلوم
ہوتا ہے کہ اس کو بھی مختلف ادوار واطوار سے سابقہ پڑا ہے، بر صغیر پاک
وہند کے دینی مدارس کی موجودہ شکل جو زیادہ پرانی نہیں ہے ان کی ابتداء
ہندوستان میں فرنگی عہد حکومت میں وجود میں آنے والے دارالعلوم دیوبند سے
ہوا ہے یہ 1857کی جنگ آزادی کے ٹھیک دس سال بعد کی بات ہے، اس مدرسے میں
ایک عبوری نصاب تعلیم مقرر کیا گیا جو درس نظامی کہلاتا ہے اور اس وقت شاید
اس سے بہتر نظام ممکن بھی نہ تھا چنانچہ ہندوستان کی تاریخ کے بڑے بڑے
علماء اور مفکرین دینی و سیاسی قائدین اس نصاب ونظام تعلیم نے پیدا کیے، ان
عظیم شخصیات اور نابغۂ روز گار علماء کے مجاہدانہ کر دار اور مخلصانہ
تعلیمی وتربیتی خدمات نے پورے خطے پر گہرے اثرات مرتب کردیے اور دینی تعلیم
کا یہ سلسلہ مزید پھیلا اور اس طرز تعلیم نے خوب قبولیت اور پذیرائی حاصل
کرلی اور آج صرف ڈیڑھ صدی بعد ایشیا میں دارالعلوم دیوبند طرز کے مدارس کی
تعداد اتنی بڑھ گئی ہیں کہ کوئی قابل ذکر شہر اور دیہات ان سے خالی نہیں
۔ان مدارس نے معاشرے پر گہرے مثبت اثرات ڈالے ہیں اور سوسائٹی کو اسلامی
اصول اور مذہبی رجحانات سے روشناس کرایا ۔بر صغیر کے ان دینی مدارس کی
بلاشبہہ ایک وسیع تاریخ ہے ۔انہی مدارس نے بیش بہا تعلیمی ،تربیتی تبلیغی
اور سیاسی خدمات انجام دی ہیں، مختلف اسلامی تحریکات کو یہیں سے تازہ دم
خون اورفریش دماغ ملتا رہا اور ان ہی مدارس کے دم سے اسلام کے تمام شعبوں
کو زندگی ملی ہے ۔ان کارناموں اور کامیابیوں کی اپنوں کے علاوہ غیروں کی
بھی ایک دنیا معترف ہے تاہم اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں بڑی دنیا ان مدارس کی
نقادہے یہ دنیا مدارس دینیہ کو تخریب وارھاب کے مراکز سمجھتی ہے اور اس
خیال میں مغرب کے غیر مسلموں کے ساتھ ہمارے اپنے مغرب نواز اور مذہب بیزار
عناصر بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں ۔یہ مدارس دینیہ اول روز سے اپنے وجود
وبقا کی جنگ لڑرہے ہیں اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تو جیسے مدارس دینیہ ہی
ہماری حکومتوں ،ایجنسیوں اور ان کے بیرونی آقاؤں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ
رہے ہوں جن کی ’’اصلاح ‘‘ کے لیے وہ ہر وقت فکر مند رہتے ہیں اورہمہ وقت
نئے نئے اصلاحی پیکیجزکی تیاری میں مصروف رہتے ہیں، اس مدارس مخالف مہم اور
مدارس سے متعلق اس منفی طرز عمل نے مدارس میں بھی رد عمل اور اشتعال کی
کیفیت اور محرومی کا احساس پیدا کر دیا اور یوں ایک طرف اگر مدارس کے
ناقدین مدارس کو فساد کی جڑ ،شر کا محور ،دہشت گردی کی نرسریاں اور فرسودگی
کی علامت قرار دیتے رہے تو دوسری طرف اہل مدارس بھی اپنی خوبیاں گنتے نہیں
تھکتے ،ان کا خیال یہ ہے کہ مدارس میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور
مدارس پر کسی بھی حوالے سے تنقید کرنے والے اسلام دشمن یا اسلام دشمنوں کے
ایجنٹ ہیں اور ان کی تنقید میں کوئی معقولیت اور معنویت نہیں ہے ۔انصاف کی
بات یہ ہے کہ دونوں فریق دوانتہاؤں پر ہیں۔
مدارس دینیہ کی افادیت ،خدمت اور مثبت کردار کا انکا ر آفتابِ نیم روز کے
انکار سے کم عجیب و حیرت انگیز نہیں ہے ۔یہ جو برصغیر میں اسلامی معاشرت
،اسلامی اخلاقیات اور دینی اقدار کی پاسداری اور ان سے وابستگی کی فضا ہے
۔؛دین داری کی وقعت واہمیت ہے اور دین بیزاری اور اس حوالے سے کوتاہی کو
موجب نقصان وخسران سمجھا جا تا ہے یہ ذہنیت یہ نفسیات ورجحانات ایک طویل جد
جہد کا اثر اور مسلسل محنتوں کا ثمر ہیں اور دینی مدارس کے فیض یافتہ گان
کے علاوہ کہیں کوئی بھی اس سلسلے میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں رکھتا۔جو
کچھ ہے انہی مدارس کی بدولت ہے ۔دینی مدارس نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات کے
فروغ واشاعت کا بیڑا اٹھا ئے ہوئے ہیں بلکہ وسائل سے محروم طبقے کو تعلیم
کے زیور سے آراستہ کرنے اور جہالت وناخواندگی کے خلاف جہاد میں بھی ان کا
بڑا کردار ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو آج تک کوئی مثال بھی دہشت
گردی کی ایسی پیش نہیں کی جاسکی ہے جس میں دینی مدارس ملوث ہوں ،یہ محض
مبنی بر عناد مفروضہ ہے جس کا حقیقت اور انصاف سے کوئی تعلق نہیں تاہم اہل
مدارس کا یہ خیال بھی مبالغہ آمیزی پر مبنی ہے کہ ان کے نصاب ونظام میں کسی
تبدیلی اور اصلاح کی گنجائش نہیں ہے ۔ایک ادارے اور مخصوص سلسلے کی حیثیت
سے دوسرے اداروں کی طرح دینی مدارس میں بھی بہت ساری خامی وکمزوریاں ہیں
اور مختلف حوالوں سے ان میں بہتری لانا ضروری ہے ان کمزوریوں سے چمٹے رہنا
ان کی اصلاح سے اغماض برتنا اور خامیوں کو خوبی قرار دینے پر اصرار محض خود
فریبی اور خودکشی کے مترادف ہیں ۔یہ ایک کامن سینس اور عقل عام کی بات ہے
کہ پانچ سو سالہ پرانا انسانی ساخت کا تدریسی مواد اور علمی لیٹریچر آج کے
سائنٹیفک اور ٹیکنیکل دورمیں جوں کے تو ں کیسے کار آمد اور افادیت وضرورت
کا حامل ہو سکتا ہے؟ آج کا انسان ایک صدی قبل کے انسان سے کس قدر ترقی
یافتہ ہے یہ تو ایک بدیہی حقیقت ہے اور معاشرے افراد سے بنتے ہیں ۔پھر ایک
ترقی یافتہ معاشرے کی ضرورت غیر ترقی یافتہ ذہنیت اور پسماندہ سوچ کے تیار
کردہ مواد سے کس طرح پوری ہوسکتی ہے ۔اس طبعی اور قدرتی بات کو بعض لوگ
مذہبی جذباتیت کی نذر کر دیتے ہیں اور اصلاح کے لیے اٹھنے والی کسی بھی
آواز کو نہ صرف دبادیتے ہیں بلکہ اسے باغیانہ وگستاخانہ جسارت قرار دے کر
موجب ِ الحاد وزندقہ ثابت کردیتے ہیں ۔
بلکہ اس سلسلے میں بعض مدعیان دانش وبینش سے تو یہاں تک سنا گیا ہے کہ’’
دین میں تبدیلی اور اصلاح کیوں کر ہوسکتی ہے ‘‘جب کہ اصلاح کی بات کرنے
والے اسلامی علوم وفنون سے نہیں ان کے قرون وسطی میں مخصوص تعبیر واسلوب
اورتشکیل و انتخاب سے اختلاف کرتے ہیں اور یہ مسائل ووسائل کی نئی نئی
دریافتوں اور علوم وفنون میں آئے روزہونے والی تہذیب، تبدیلی وترقی اور
حوادث کی نئی نئی شکلوں کا لازمی تقاضہ ہے ۔چنانچہ آج کے سائنسی دور میں
کتاب العتاق کی لمبی چوڑی بحثیں غلامی کے مسئلے اور غلاموں کی مثالیں، جز ء
لایتجزی کی معرکہ آرائیاں ،اجرامِ فلکیہ میں خرق والتئام کے اختلافات،
یونانی عقل کی قصیدہ خوانی ،حریری لفاظی کو حرزِ جاں بنانا کیا معنی رکھتی
ہیں اور معاصرطرزِ معاشرت ومعیشت ، سیاسیات وعمرانیات ،ریاضی وٹیکنالوجی
،طبعیات ونفسیات طب اور قانون، لسانیات وابلاغیات سے یکسر محرومی یاانتہائی
سطحی اور واجبی واقفیت نے دورِ حاضر کے عالِم کومعاشرے کاکیساعضوِ معطل
،غیرپیداواری عنصر اور ناکارہ شے بنا دیا ہے ؟اس حوالے سے قدیم وجدید صاحبِ
مطالعہ فضلاء مدارس کے نہایت تلخ تجربات اور بڑے دکھی احساسات ہیں مگر
انہیں اپنے بزرگوں نے یہ سبق پڑھادیا ہے کہ ’’جینا ہو تو پھر جرء تِ اظہار
نہ کرنا ‘‘چنانچہ وہ اس ڈر سے خاموش ہیں کہ کہیں توہین کے مرتکب اور محرومی
سے دوچار نہ ہو جا ئیں ۔اور دوسری طرف مدارس کے مالکان اور ان کے مقرب و
مصاحب بعض مدرس ہیں جو مدارس کوذاتی پراپرٹی اورایک ایسے نفع بخش کاروبار
کی حیثیت سے اپنا ئے ہوئے ہیں جس میں بقول ِکسے صرف نفع ہی نفع ہے گھاٹا
بالکل نہیں ۔یہ لوگ نہ تو مسائل ومشکلات سے دوچار ہیں اور نہ ان سے
باخبر․․․․․․․․․ اور یا ان سے اس بنا پر تجاھل برتتے ہیں کہ ان کی خیر مدارس
کی قدامت پسندانہ طرز اور غیر ضرروری تصلب میں ہے ۔اس کے باوجود الحمد ﷲ آج
بھی مدارس سے بعض نہایت قابل شخصیات پیدا ہو رہی ہیں گو کہ وہ مدارس کی
تعداد اور یہاں کی جانے والی محنتوں کی حساب سے بہت کم ہیں اور ان شخصیات
کی غیر معمولی شخصیت میں عموما ًنصاب نہیں بلکہ خاص توفیق الہی ،مخصوص
ماحول ،خاندانی پس منظر ،کسی صاحب نظر کی صحبتِ دیرینہ ،قدرتی ذہن وحافظہ
اورخداداد ذوق جیسی چیزیں کار فر ما ہو تی ہیں۔ایسی بہت سی شخصیات اپنی
اپنی بساط کی مطابق بڑے حزم واحتیاط کے ساتھ دینی تعلیم کے سلسلے میں
تعمیری اور اصلاحی کو ششیں کر رہے ہیں اور اس کا بڑا فائدہ بھی محسوس ہو
رہا ہے ۔اﷲ کرے نقار خانے میں طوطی کی یہ آواز سنی جائے اور حالات سے بے
خبر اور تقدیر کے نام پرتدبیر کا خون کرنے والے ،زمانے کے تقاضوں سے اغماض
برتنے والے ،روایت کی اسیر اور مشکلات ومصائب کو گناہوں کی سزا سمجھ کر
برداشت کرنے والے یہ مقتدر لوگ اپنی اصلاح پر آمادہ ہو جائیں اور قدیمِ
نافع کے ساتھ جدیدِصالح سے بھی استفادہ کی شکلیں عام ہوں اور دینی مدارس
صالح ،معتدل ،متمدن اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں فعال کردار ادا
کرنے کے قابل ہوں، اصحابِ نظر اور باخبر احباب گذشتہ چند سالوں سے یقینا
محسوس کر رہے ہو ں گے کہ مسلم معاشرے اور مولوی میں زبردست خلیج پیدا ہوا
ہے اور وہ آئے روز وسیع اور گہرا ہوتا جا رہا ہے علماء کی عدم فعالیت ظاہر
ہو رہی ہے اور ان کے کھپت کے مواقع ومواضع کم بلکہ ناپید ہو تے جا رہے ہیں
۔
عام آدمی کو تو پہلے ہی مولوی کی کوئی حاجت وضرورت محسوس نہ ہوتی تھی المیہ
یہ ہے کہ اب علماء کے حلقۂ اثر میں بھی یہ احساس جنم لیکر زور پکڑ رہاہے کہ
دین کا عا لِم جیسا ہونا چا ہیے اب ایسا نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مولوی صرف
معاصر زبانوں ،مادی علوم ،جدیدوسائلِ علم اورذرائع ِابلاغ سے ہی ناواقف
نہیں بلکہ خالص دینی علوم میں بھی اب اس پر انحصار ختم ہوتا جارہا ہے ،قرآن
وحدیث، فقہ ، عقائد ، اخلاق ، اقتصادیات اور سیا سیات وغیرہ کے دروس ومواعظ
کے غیر عالم افرا د کے ہاں سلسلے شروع ہیں اور ان میں اکثریت علمی لحاظ سے
نااہلوں اورفکری حوالے سے نامعتبروں کی ہے ۔ پڑھالکھا اور باشعور طبقہ
عموما ًان کے سحر میں مبتلا اور کے دام ہم رنگ زمین کا شکار ہے ۔اوراس میں
روایتی علماء کے قدیم لہجے اوراسلوب ِکہن کابڑادخل ہے۔ یہ موضوع بڑا دقیق
اور حساس ہے ہم نے مرض او ر علاج کا نہیں فقط بعض علامات مرض کا ذکر کیا ہے
۔ صاحب بصیرت علما ء اگر بیداری اور ذمہ داری کا ثبوت دیکر اس کے لئے
سنجیدگی سے باہمی مل بیٹھ کر سوچیں گے تو تشخیص اور علاج کی راہیں بھی
کھلیں گی۔
|
|