ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیا مت کا فراز

مسئلہ ان ظالموں کا نہیں جو مذھب کو ظلم اور ناانصافی روا رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں بلکہ اصل مسئلہ اس ملک میں بسنے والی آبادی کے ایک بڑے حصے کا ہے جوخاموشی سے دین کے نام پر بربریت اور نا انصافی ہوتے دیکھتا رہتا ہے یا پھر اس سے بھی براعمل کرتے ہوۓ ہر ظلم کی کو ئی نہ کوئی وجہ بیان کرنےلگتا ہے .دین کو اپنی زندگی پر لاگو کرنے کی بجاۓ ہم دوسروں میں "کیڑے" نکالنے کے لیے استعما ل کرتے ہیں . کفر کا فتوی اتنا ارزاں ہےکہ ایک دوکان پر قبضہ کرناہویا ایک مکان کو ھتیانا ہو یا اپنے پرانے قضیے نپٹانے ہوں آپکو نہ منشی، پٹواری ،وکیل کی ضرورت ہے نہ کسی عدالت میں کیس لگانے کی ! بس مسجد ، مدرسے کے ایک دو مولوی اور بیس،پچیس طالبعلم اکھٹے کریں اور خدا کے نام پر خدا کے بندوں پر جھوٹی تہمتیں باندھنا شرو ع ہوجائیں. کوئی خوشقسمت ہوگا تو چند دن کی زندگی یا پھر جیل کا منہ دیکھ پاۓ گا وگرنہ اکثر تو ع: جم گیا ہے آ نکھوں میں ایک بد نما منظر
اب توسب کےسب چہرے قاتلوں سےلگتے ہیں

ادھر الزام لگا ادھر قاتلوں کا مجمع اکھٹا ہونا شروع ہوا ! رحمتہ اللعلمین کا نام لے لے کر کبھی گولیوں سے تو کبھی ڈنڈوں سے تواضع کی جاتی ہے . کبھی دوکانوں مکانوں کو جلا کر اسلام کا نام روشن کیا جاتا ہے تو کبھی بچیوں کے سروں میں گولیاں ما ر کر اسلامی غیرت کا اعلان کیا جاتا ہے.

یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کےسامنے ہوتا ہے اور پچھلی دو دہایوں سے تقریبا روز کا معمول بن چکا ہے.طا لع آزماؤں کے لگاۓ یہ زیھریلے بیج سیاسی حکومتوں کی بزدلی کی کھاد سے دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے رہے. آج انکی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں . انکی زہریلی جڑیں ہر گھر کی بنیاد کو کمزور کر رہی ہیں اور انکے زہریلے پھل اب ہمساۓ بھی توڑ توڑ کر استعمال کر رہے ہیں.

خیر دو دہایوں سے تو یہ سب روز مرہ کا معمول بن گیا ہے مگر یہ مذہبی "بے راہروی" کوئی نئی بیماری نہیں بلکہ اس ملک خداداد کے قیام کے ساتھ ہی مذہبی رنگ بازوں نے اپنا رنگ جمانا شرو ع کر دیا تھا . اور جیسے کہ منیر نیازی کہہ گیۓ " کج شہر تے لوک وی ظالم سن ، کج سانوں مرن دا شوق وی سی " تو ہوبہو یہی معاملہ نوزایدہ پاکستان کی قسمت میں لکھا تھا . ادھر قایداعظم کی آنکھیں بند ہوئیں ادھر سارے " کھوٹے سکے" جو بد قسمتی سےقائد کی اپنی جیب میں ہی تھےاپنا اپنا کھوٹ د کھلانے لگے .

حالاں کہ محمد علی جنا ح کی شخصیت ، انکا رہن سہن اور انکے فرمودات کہیں سے بھی انہیں" مذہبی جنونی" تو دور کی بات ایک دقیانوسی اور ملاں پرست انسان بھی ظاہر نہیں کرتے مگراسکے باوجود پاکستان کی مخالفت کرنے والے ٹولے نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی مذھب اور ریاست کی کھچڑی کو ایسا رواج دیا کہ آج بھی ہم اسی کھچڑی سے بھری دیگ میں پھنسے ہیں اور ہر نیا دن ہمیں مزید الجھنوں کا شکار کر رہا ہے .

ملاں اور ملاں پرستوں نے اسلام کو دین سے مذھب بنا دیا اور ریاستی اداروں نے مذھب کو ریاست سے گڈ مڈ کر کےعوامی فلاح کے ہر ادارے کو تباہ و برباد کر دیا ہے .ریاست کا پہلا اصول ہی بلا امتیاز خدمت اور انصاف کا وعدہ ہے ورنہ زمین کا ٹکڑا اور آبادیاں تو جنگلوں میں بھی قائم ہوتی ہیں مگر ریاست قا ئم کرنے کا مقصد ہی انصاف اور فلاح کی بلا امتیاز فراہمی ہے .

مگر نہ ہمارے بڑوں کو ایسی ریاست دیکھنا نصیب ہوئی نہ ہمیں اور نہ جانے کتنی مزید نسلیں ہونگی جو پاکستان کو ایک جمہوری فلاحی ریاست کے روپ میں دیکھنے کی حسرت دل میں لیے کوچ کر جائیں گی .
ہر گزرتا دن نفرت انگیز جنونیت کو بڑھا رہا ہے. تیس چالیس سال پہلے جو اکا دکا قتل مذھب کے نام پر کیۓ جاتے تھے اور حکومتیں بت بنیں رہتی تھیں آج ایک دن میں اس بدنصیب ملک کے ہر گوشے سے دین کے نام پر قتل کی خبریں آ تی ہیں . ایک دو نہیں دسیوں بلکہ سیکڑوں افراد مسجدوں ، امام بارگاہوں ، گرجا گھروں اور مندروں میں ایسے جنونیوں کی نفرت کا شکار بن جاتے ہیں جنہیں حکومت ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں بے بسی اور بچارگی سے تکتی رہتی ہیں .کسی ریاست کے ناکام ہونے کے لیے یہی ایک مرحلہ کافی ہوتا ہے کہ مظلوم کمزور ہو تو تڑپتا، سسکتا ، کڑھتا دنیا سے کوچ کر جاۓ یا پھر کسی قابل ہو تو خود غنڈہ ، بدمعاش اور قاتل بن کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے دونوں صورتوں میں ایک ریاست ناکام ریاست ہی کہلاتی ہے.
 
aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 63244 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More