نجی تعلیمی ادارے۔۔ لُٹیرے؟ مافیا ؟ یا ناسور
(Shahzad Hussain Bhatti, )
کسی بھی ملک و معاشرے میں تعلیم
کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے تعلیم معاشرے میں موجود بگاڑ کو ختم
کرنے میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتی ہے تعلیم انسان کو عقل و شعور کے ساتھ
ساتھ اس کی زندگی میں ہونے والے تغیر و تبدل میں اہم کردار ادا کرتی ہے
تعلیم انسانی زندگی کا وہ واحد جزو ہے جس سے سیکھنے کا عمل ماں کی گود سے
لے کر قبر میں جانے تک جاری رہتا ہے۔ علم کا حصول ہر مرد و عورت کے لیے
ضروری ہے کوئی بھی معاشرہ جب ترقی کی منازل کو طے کرتا ہے تو وہ معاشرہ صرف
اور صرف تعلیم کی بنا پر ہی ترقی پاتا ہے ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے
کہ" علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے" علم کی اہمیت کا اندازہ آپ اس
حدیث سے لگا سکتے ہیں۔ ذرا تصور کریں آ ج سے چودہ سو سال قبل سرزمین حجاز
سے چین تک کا سفر کیسے طے ہوتا ہو گا؟
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 - A حکومت پر لازم کرتا ہے کہ وہ 5سے 16 سال
تک کے بچوں کو مفت معیاری تعلیم کی فراہمی یقینی بنائے لیکن بدقسمی سے
ہمارے ہا ں حکومیتں جیسے دیگر عوامی مسائل سے بے اعتناعی برتی رہیں، تعلیم
کا حا ل بھی ویسا ہی ہے۔حالانکہ دنیا بھر میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر
حکومت اور والدین کی طرف سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور قومی بجٹ میں اس
شعبہ کے لیے خصوصی فنڈز بھی رکھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق
کوریا کے گھروں کے مجموعی بجٹ کا 70فیصد بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جاتا
ہے۔پاکستان میں 4 کروڑ سے زائد بچے، بچیاں سکولوں اوریونیورسٹیوں میں ہر
سال پڑھتے ہیں اور ان کی بڑی اکثریت پنجاب ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ 2011-12 کے
اعدادوشمار کے مطابق2 کروڑ سے زائد بچے پرائمری میں پڑھتے ہیں اور وہاں نجی
تعلیم کا تناسب محض 22 فی صد ہے۔ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں نجی
تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کا تناسب ضرور زیادہ ہے مگر اسے پورے
پاکستان پر لاگو کرنا حقیقت حال سے کنی کترانے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں نجی تعلیم کب ، کیوں شروع ہوئی اگر آپ کی اس پر نظر ہوگی تو
تعلیم پر ’’سیاست کی گرفت‘‘ بارے سمجھنے میں آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔ قیام
پاکستان کے ابتدائی برسوں میں نجی سکول وغیرہ کراچی اور مشرقی بنگال ہی میں
بننے شروع ہوئے تھے مگر دونوں جگہ ’’نیت کی خرابی‘‘ کا عمل دخل زیادہ اور
تعلیمی خدمات کی بصیرت کم تھی۔ مشرقی بنگال کے ہندوؤں نے اس لیے الگ تعلیمی
اداروں کو پروان چڑھایا کیونکہ وہ اپنے بچوں کو ’’حکومت پاکستان کے اثرات‘‘
سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ طلبا کے مسائل بارے 1966ء کی چھپی حمودالرحمن
رپورٹ میں اس بارے تفصیلات موجود ہیں۔ کراچی میں مسئلہ زیادہ ٹیڑھا تھا کہ
عارضی دارالحکومت بننے سے قبل کراچی تو صوبہ سندھ کا مرکز تھا اور یہاں
برٹش انڈیا کے دور سے سندھی زبان سکولوں میں بطور ذریعہ تعلیم رائج
تھی۔’’سندھی زبان سے بچنے‘‘ کے لیے 1947ء کے بعد سکھر سے کراچی تک مہاجرین
کو نجی تعلیمی ادارے بنانے پر اْکسایا گیا۔ چند سالوں ہی میں اس کا نتیجہ
سامنے آگیا اور 1950ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں ہی میں اہل کراچی نجی
سکولوں اور کالجوں کے مافیا کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔ ’’چارونا چار‘‘ حکومت
نے کراچی کے نجی سکولوں وغیرہ کی 50 فی صد فیسوں کا بوجھ خود اٹھایا تو
جاکر کہیں معاملہ ٹھنڈا ہوا۔ حکومت نے رقم تو دے ڈالی مگر نجی سکولوں کے
حوالہ سے قوانین سازی نہیں کی۔ تحریک چلانے والے بھی اس ویڑن سے عاری تھے
کہ ’’نجی تعلیمی مافیا‘‘ سے کیونکر نمٹا جائے۔
سکولوں کی تعلیم کے حوالہ سے دوسری آفت کا ظہور ایوبی دور میں ہوا۔ بلدیاتی
انتخابات کروانے اور اختیارات کو نچلی سطح پر دینے کے دعویدار ایوب خان کے
دور ہی میں سکولوں کو چلانے کا اختیار صوبوں کو دے دیا گیا جبکہ نصاب کی
تیاری پر مرکز نے قبضہ جما لیا تھا۔ 1962ء میں ٹیکسٹ بک بورڈ بنائے گئے تو
1966ء میں قدرت اﷲ شہاب جیسے مرکزی ادارہ نصابیات کے کرتا دھرتا بن بیٹھے۔
1971ء تک بالعموم یہی بندوبست چلتا رہا البتہ ملک کے دیگر حصوں میں بہت سی
تعلیمی انجمنیں بھی کام کر رہی تھیں جو انگریز دور سے اپنے سکول کھولے ہوئے
تھیں۔ ان تعلیمی انجمنوں کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کی اولین مثالیں کہا
جاسکتا ہے۔1972ء میں ماسوائے مدارس تمام سکولوں کو قومی تحویل میں لے لیا
تو نجی تعلیم نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ مگر پھر 1979ء کی تعلیمی پالیسی میں
ضیاالحق نے بغیر قانون سازی کیے نجی سکول کھولنے کی حوصلہ افزائی شروع کر
دی۔ اس میں بھی ’’نیت کی خرابی‘‘ تھی کہ ضیاالحق نے محض ’’بغض بھٹو‘‘ میں
نجی تعلیم کے ’’جن‘‘ کو بوتل سے باہر نکالا تھا۔ اگر ضیا الحق واقعی تعلیمی
ویژن رکھتا تو اسے سب سے پہلے انہیں تعلیمی انجمنوں سے رابطہ کرنا چاہیے
تھا۔ اصلاحات کے بعد انہی انجمنوں کو سکول سازی میں حصہ دار بنایا جاتا تو
مسئلہ اس قدر ٹیڑھا نہ ہوتا۔موجودہ اعداد وشمار اور نجی تعلیمی سلسلہ کی
تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی آج ہم اس مسئلہ سے نمٹنے کا سامان کر سکتے
ہیں۔ 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں بجاطور پر یہ اقرار موجود ہے کہ سرکاری
اور نجی تعلیم میں فرق کی وجہ سے پاکستانی معاشرے پر انتہائی مہلک سماجی
اثرات پڑ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ سرکاری و نجی
تعلیمی اداروں کو ’’یکساں‘‘ کرنے کے لیے سب ہی کو پرائیویٹ تحویل میں دے
دیا جائے۔ اس مہم پر دھیرے دھیرے کام ہو رہا ہے۔پنجاب اور سندھ میں نجی
شعبہ یا این جی اوز (NGO’s) کو 1990ء کی دہائی سے سرکاری سکولوں کی مینجمنٹ
میں حصہ دار بنانے کا آغاز ہوا تھا۔ اس سکیم سے تاحال کیا فائدہ ہوا ہے؟
تعلیمی معیار میں کیا بہتری آئی ہے؟ اس ضمن میں کوئی آزاد تحقیق تاحال
سامنے نہیں آئی۔ ایک ایسی صورتحال میں جہاں نجی شعبہ مادرپدر آزاد ہو اور
بدنیتی پر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہو، وہاں ایسا نجی شعبہ سرکاری،تعلیمی
اداروں کو کیسے راہ راست پر لاسکتا ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو آج ہر کسی کو تنگ
کر رہا ہے۔ 1990ء دہائی سے حکومتیں تعلیم سے منسلک نجی شعبہ کو بہت سی
رعائتیں دے رہی ہیں مگر تاحال ان کے لیے قوانین بنانے سے قاصر ہیں۔
تعلیم کے موضوع پرایک سیمینار میں ڈاکٹر فیصل باری نے جو اعداد وشمار دیے
ان میں یہ حقائق بھی شامل تھے کہ جن نجی سکولوں کو ایجوکیشن فاؤنڈیشن وغیرہ
کے تحت مدد دی ہے اس سے نسبتاً بہتر نتائج نکلے ہیں۔انگریزی اور حساب کے
مضامین میں بچوں کے سیکھنے کا تناسب بڑھا ہے جبکہ اْردو کے مضمون میں
صورتحال بدستور مخدوش ہی ہے۔ یہ تناسب سرکاری سکولوں اور پنجاب ایجوکیشن
فاؤنڈیشن کی مدد سے چلنے والے نجی سکولوں کا ہے۔ اسے بھی ’’اندھوں میں کانا
راجہ‘‘ ہی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔محض سرکاری سکولوں سے موازنہ کرنے سے یہ
بات ثابت نہیں کی جاسکتی کہ نجی شعبہ کی شمولیت سے سکولوں میں تعلیمی
صورتحال بہتر ہوتی ہے۔ سرکاری سکولوں کے حالات تو مخدوش ہی ہیں تو پھر
موازانہ کے لیے آپ کو الگ سے ’’کم از کم تعلیمی معیارات‘‘ کا پیمانہ بنانا
ہوگا۔ پھر ان معیارات سے آپ سرکاری و دیگر اداروں کا موازنہ کریں۔ نجی شعبہ
کو 1992ء کی تعلیمی پالیسی کے بعد تواتر سے جو مراعات دی جارہی ہی ان بارے
بھی چارٹ بنائیں۔ مشرف دور میں پاکستان ریلوے کے سکولوں کو نجی شعبہ کو
دینے کی پالیسی کے تحت بیکن ہاؤس والوں کو یہ سکول دیے گئے تھے۔ وہ تجربہ
کیوں ناکام ہوا؟ نیت کی خرابی اس معاہدہ کے اندر ہی تھی یا پھر نجی شعبہ کی
نظریں ریلوے کے سکولوں کی زمینوں پر تھیں؟ 1980ء کی دہائی سے بالعموم ہمارے
ہاں تعلیم سے وابستہ نجی شعبہ کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں
انہیں سامنے رکھے بغیر ہم یہ نہیں جان سکتے کہ سرکاری تعلیمی ادارے لینے کے
ضمن میں نجی شعبہ کی نیت کیا ہے؟یوں لگتا ہے کہ نجی شعبہ، مخصوص این جی اوز
(NGO’s)، بین الاقوامی امدادی ادارے، کاروباری حضرات اور حکومت ہر کسی کے
لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ میں دلچسپی کی وجہ تعلیمی نظام میں بہتری کی
بجائے کچھ اور ہے۔ سرکار ’’تعلیمی بوجھ‘‘ سے جان چھڑانا چاہتی ہے؟ نجی شعبہ
کی نظریں سکولوں کی زمینوں پر ہیں؟ بین الاقوامی کھلاڑی تو یہ ثابت کرنے
میں پیش پیش ہیں کہ پاکستان کے ہر مسئلہ کا حل ’’نجی کاری‘‘ میں پنہاں ہے۔
ہمارے ملک عظیم میں علم کے نام پر پیسہ بٹورنے والے ادارے جنہوں نے تعلیمی
ڈھانچے کو انتہائی تباہ کن حالات تک پہنچا دیا ہے کچھ عرصہ سے تعلیم کے نام
پر ایک کاروبار شروع کر دیا گیا ہے جس کو ہم پرائیویٹ سکولوں کا نام دیتے
ہیں ان میں سے اکثریت نے ایک مافیا کا روپ دھار لیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے
اپنے بچے تو ایلیٹ کلاس کے سکولوں میں پڑھتے ہیں اور یہ خود دوسروں کے بچوں
کے مستقبل کو تابناک بنانے کی چال میں مگن ہیں اس مافیا نے ہزاروں روشن دیے
بجھا دئیے ہیں ان کو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں آج تک ان لوگوں کا احتساب
کرنے کے لیے کسی ادارے کے قیام کو عمل میں نہیں لایا گیا یہ لوگ عوام سے ان
کے منہ میں ڈالا ہوا نوالہ بھی چھیننے کو تیار ہیں ۔ ان پرائیویٹ سکولوں کی
حالت یہ ہے کہ یہ کم تنخواہ پر نالائق اساتذہ بھرتی کرتے ہیں جو بچوں کے
بنیادی تصورات کو اچھی طرح سمجھا نہیں پاتے جس کی وجہ سے بچے امتحانات میں
ناکام ہو جاتے ہیں۔ان حالات میں اپنے سکولوں کی ناکامی کو منظر عام پر آنے
سے بچانے کے لیے یہ ناکام ہونے والے طلباء کو مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کر
کے اپنے سکولوں سے فارغ کر دیتے ہیں تاکہ ان کا نتیجہ اچھا رہے نیز یہ
دوسرے سکولوں میں اچھے نمبروں سے پاس طلباء کو مفت تعلیم اور دیگر سہولیات
کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے سکول کے معیار کو بہتر پیش کر سکیں اور
طلباء کے والدین سے منہ مانگی فیسیں وصول کر سکیں۔ تعلیم کے نام پر ایک
ایسا زرق برق کاروبار شروع ہو گیا ہے کہ ہر سکول اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر
ثابت کرنے کے لیے مارکیٹینگ کر رہا ہے اور اس دوڑ میں تعلیم برائے مشن کے
دعویدار کئی سکولوں کی چینیں شامل ہو گئی ہیں۔ حتکہ "آرمی پبلک سکولز" بھی
کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ـاونچی دکان پھیکا پکوان کے مصداق بھاری فیسیں وصول
کی جارہی ہیں حتکہ سی سی ٹی وی کیمروں، خار دار تار، اضافی سیکورٹی اور
دیگر متفرق اخراجات بھی طلبا کے والدین سے وصول کیے جاتے ہیں اور حال یہ ہے
کہ شام کو اکیڈمیز کے بغیر بچے پاس نہیں ہو سکتے۔
ایک کہاوت ہے کہـ" چار پاکستانی تبی ایک جانب اکھٹے چل سکتے ہیں، بشرطیکہ
پانچواں چارپائی پر ہو"ـ یہی حال پاکستانی سکولوں کے نصاب کا ہے۔ فیڈرل کا
نصاب الگ، صوبوں کا نصاب الگ، سکولوں کا نصاب الگ ، کسی بک شاپ پر جائیں تو
وہ پہلے پوچھتے ہیں کس سکول کا نصاب چاہیے؟ ان حالات میں طلباء اور انکے
والدین چکرا کر رہ گئے ہیں۔ نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی نجی تعلیمی
اداروں میں طلباء کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے سستی تعلیم اور پُرکشش وظائف
کی پیشکشو ں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ شہروں اوردیہاتوں میں بڑے بڑے
بینرز اور ہورڈنگز آویزاں کر دی جاتی ہیں اور اخبارات میں پوزیشن لینے والے
بچوں کی تصاویر لگا کرطلباء کی قابلیت کو بھی بیچا جاتا ہے۔ اساتذہ
طالبعلموں میں گوہر نایاب ڈھونڈنے کے بجائے فارمی مرغیوں کی طرح سکولوں اور
ٹیوشن سینڑوں میں برائلر طالب علم تیار کررہے ہیں جو رٹے لگا کر زیادہ سے
زیادی نمبر تو حاصل کر لیتے ہیں مگر ان میں علمیت اورقابلیت نام کی چیزنہیں
ہوتی۔ اور اس طرز تعلیم نے سب سے زیادہ تعلیم اور ہماری نوجوان نسل کو تباہ
کیا ہے۔ کب وہ دور آئے گا جب تمام ملک کے سکولوں میں ایک جیسا نظام تعلیم
رائج ہو گا جہاں امیر اور غریب کا بچہ ایک جیسی کتابیں پڑھ کر ایک قابل فخر
شہری بن سکے گا؟
|
|